حضرت علامہ اقبالؒ اور سوشل میڈیا (1)

حضرت علامہ اقبالؒ اور سوشل میڈیا (1)
حضرت علامہ اقبالؒ اور سوشل میڈیا (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک مشہور زمانہ شعر ہے :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ شعر مفکر پاکستان شاعر بے بدل حضرت علامہ اقبال ؒ کا ہے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ کبھی یہ شعر ان پر ہی منطبق ہوسکے گا۔ سچی بات ہے علامہ اقبال جیسے دیدہ ور کے لئے نرگس کو ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ رونا ہی چاہئے۔ ایسے شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو کم ازکم ایک صدی کے شاعر تو ہوں ان میں میرؔ ، غالبؔ ، میرانیسؔ اور اقبالؔ جیسے شاعروں کا نام بلاجھجک ، بلاتکلف لیاجاسکتا ہے۔ اقبال اپنے زورکلام کے سبب صدی کے شاعر ہیں۔ ہم سب عہد اقبال میں جی رہے ہیں اور اقبال کے خوشہ چین ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے اقبالؔ کو اب تک ہمارے قومی شاعر ہونے کا مقام ومرتبہ بھی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ شروع دن سے کلام اقبال اسکولوں کالجوں کے نصاب میں شامل ہے ہمارے دور میں تو سکول میں صبح سویرے اقبالؔ کی اس دعا سے دن کا اور تعلیم کا آغاز ہوتا تھا:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اس سارے اہتمام سارے انتظام کے باوجود شمع سخن اقبال کے کلام کی تفہیم وترسیل آسان نہیں کہ بقولِ غالبؔ :
حسنِ فروغِ شمعِ سخن دُور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
دلِ گداختہ کے بغیر کلام اقبال دلوں میں نہیں اترتا اور دلِ گداختہ ہرکس وناکس کے پاس نہیں ہوتا:
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
ہرشعبۂ حیات میں دلِ گداختہ رکھنے والے صاحبان علم ودانش نے کلام اقبال کو عام کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے ، اس حصے کی بدولت عوام و خواص کی اکثریت اقبالؔ آشنا ہوئی ہے مگر ہرمثبت عمل کے ساتھ کچھ نہ کچھ منفی عوامل بھی لازمی ہوتے ہیں چنانچہ اکثر وبیشتر میڈیا کے اشخاص کلامِ اقبال کو صحیح طورپر عوام تک نہیں پہنچاپائے ۔ سوشل میڈیا میں، پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ رواروی میں ’’حامد کی پگڑی محمود کے سر ‘‘ باندھنے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ مثلاً ایک بہت ہی مشہور شعر ہے:
تُندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اڑانے کے لئے
اس شعر کو شدومد کے ساتھ علامہ اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ گزشتہ پچاس برس سے مسلسل میں اس شعر کو حق بہ حقدار کے رسید کے تحت شعر کے اصل خالق سید صادق حسین (ایڈووکیٹ شکرگڑھ ) کو لوٹانا اور اقبال سے چھڑانا چاہتا ہوں مگر یار لوگ نہیں چھڑانے دیتے۔ میں یہ دلیل بھی دیتا آرہا ہوں کہ حضرت علامہ اقبالؔ کا عقاب یا شاہین گھبراتا نہیں۔ گھبرانا کیا معنی ؟ اقبال کے نزدیک تو :شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا ، جبکہ سید صادق حسین کا عقاب تندئ بادِ مخالف سے گھبرایا ہوا ہے اور وہ اسے نصیحت کررہے ہیں، حوصلہ دے رہے ہیں کہ :
تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
اسی طرح علامہ سے منسوب کئے جانے والے شعروں میں ایک مشہور شعر یہ بھی ہے :
خدا نے آچ تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال ، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جبکہ یہ شعر ایک قرآنی آیت کا انتہائی رواں منظوم ترجمہ ہے جو مولانا ظفر علی خاں کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر شیلواور مسعودؔ کی آواز میں دو گانے کی شکل میں علامہ اقبال کا یہ کلام اکثر لوگوں نے سنا ہوگا:
کبھی اے حقیقتِ منتظرِ نظر آلباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
گانے والوں نے پہلے مصرے میں ’’حقیقت منتظر‘‘ زیر کے ساتھ گایا ہے جبکہ صحیح ’’حقیقت منتظر ‘‘ زبر کے ساتھ ہے، یعنی وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جارہا ہو ،نہ کہ ’’حقیقتِ منتظرِ‘‘ یعنی انتظار کرنے والی حقیقت ۔ اس شکل میں پڑھنے سے سوئے ادب کا بھی ارتکاب ہوگیا ہے۔ اسی طرح حضرت علامہ اقبالؒ کے ایک اور مشہور شعر کو سوشل میڈیا پر اکثر اس طرح ادا کیا جاتا ہے :

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزاروں سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
منگل 31مارچ 2015ء کی صبح ’’دنیا‘‘ ٹی وی چینل پر انیق احمد کے پروگرام ’’پیام صبح‘‘ میں دو فاضل شرکاء میں سے ایک ڈاکٹر محسن نقوی(پی ایچ ڈی) نے 7:50بجے صبح علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر متذکرہ بالا شکل میں سنایا۔
جبکہ حضرت علامہ اقبال نے پہلے مصرعے کا آغاز ’’وہ‘‘ سے نہیں ’’یہ‘‘ سے کررکھا ہے یعنی ’’یہ ایک سجدہ ‘‘ اور دوسرے مصرعے کی شروعات ’’ہزاروں سجدوں‘‘ کی شکل میں دولفظوں کو اکٹھا جمع کرنے کی غلطی سے نہیں کی گئی بلکہ علامہ اقبال نے ’’ہزار سجدے‘‘ کہہ رکھا ہے ۔۔۔اب اصل شعر صحیح شکل وصورت میں ملاحظہ ہو:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اب پرنٹ میڈیا کی طرف آئیے تو ماہنامہ ’’الحمراء لاہور‘‘ جیسے وقیع اور معیاری ادبی جریدے میں نومبر 2014ء کی اشاعت میں ممتاز ادیب ، نقاد اور دانشور فتح محمد ملک نے حضرت علامہ کا ایک مشہور عالم شعر اس طرح رقم کیا :
حقیقتِ ابدی ہے حسینؓ ابنِ علیؓ
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
جبکہ حضرت علامہ اقبال نے اس شعر کے پہلے مصرعے میں ’’حقیقت ابدی‘‘ کو ایک عالی مقام شخصیت ’’حسین ابن علیؓ، کے نام تک محدود نہیں کیا بلکہ ’’مقامِ شبیری‘‘ کہہ رکھا ہے یعنی :
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
یہاں ’’حقیقتِ ابدی‘‘ دراصل ایک شخص یا شخصیت کو نہیں قرار دیا گیا بلکہ ’’مقامِِ شبیری‘‘ کہہ کر آفاقی بنادیا گیا ہے۔ ’’مقامِ شبیری‘‘ تک پہنچنے کے لئے نہ صرف اپنی گردن کٹانا پڑتی ہے بلکہ پورے خانوادے کی شہادت بھی دینا ہوتی ہے۔ حضرت علامہ ؒ نے سوچ سمجھ کر ہی ’’مقامِ شبیری‘‘ کو ’’حقیقتِ ابدی ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس میں دانستہ یا نادانستہ تحریف وترمیم اقبال کی شان میں گستاخی ہی ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایسی گستاخیاں سوشل میڈیا میں کثرت سے روارکھی جارہی ہیں۔(جاری ہے)




ایک اور بہت ہی مشہور شعر حضرت علامہ کو سوشل میڈیا بخشتا رہتا ہے، وہ ہے :
رُخِ مصطفیٰؐ ہے وہ آئینہ کہ اب اور ایسا آئینہ
نہ کسی کی بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
جبکہ یہ شعر ہرگز حضرت علامہ اقبالؔ کا نہیں بلکہ لُطف بدایونی کا ہے۔ یہ حضرت علامہ کی اس زمین میں کہا گیا ہے:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آلباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
شاید اسی لئے اسے ’’الحاقی شعر‘‘ کے طورپر علامہ کے سرمنڈھ دیا جاتا ہے۔ (اکرام احمد) لطف بدایونی ایک نابینا شاعر تھے۔ ان کا ایک شعر اگر انہیں ادب کی دنیا میں زندہ رکھے ہوئے ہے تو یار لوگوں کو یہ بھی گوارا نہیں۔ پھر نوٹ کرلیجئے یہ شعر علامہ کا نہیں، لطف بدایوانی کا ہے:
رُخِ مصطفیٰؐ ہے وہ آئینہ کہ اب اَور ایسا آئینہ
نہ کسی کی بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں
ایک ٹی وی چینل کے اینکر پرسن ،مصنف اور نامور کالم نویس مجاہد بریلوی نے روزنامہ ’’نئی بات‘‘ جمعہ 12ستمبر 2014ء کو اپنے کالم ’’شہرناپُرساں سے ‘‘ میں حضرت علامہ اقبالؒ کے ایک مشہور شعر کو ذوق دہلوی کو بخش دیا، وہ بھی اس شکل میں :
اے ذوق تیرے عشق نے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
جبکہ ’’بانگ درا‘‘ میں شامل علامہ اقبال کی غزل ہے :
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
یہ غزل نو اشعار پر مشتمل ہے مگر اس میں مقطع شامل نہیں اور مقطع والا شعر ’’کلیات اقبال‘‘ میں بھی کہیں دستیاب نہیں، تاہم ڈاکٹر گیان چند جین کی تالیف ’’ابتدائی کلام اقبال ‘‘ میں 17اشعار کی غزل بحوالہ ’’مخزن ‘‘ اپریل 1906ء شامل ہے، اس کے مطابق صحیح مقطع علامہ اقبال کا یوں ہے:
اقبالؔ عشق نے مرے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
اسی طرح ایک مستند صحافی اور روزنامہ’’جنگ‘‘ کوئٹہ کے ایڈیٹر مجید اصغر نے اپنے سفرنامے ’’رفت گزشت‘‘ میں ’’ سفر ستارے‘‘ کے عنوان سے اپنے پیش لفظ میں علامہ اقبال کا صرف ایک مشہور شعر لکھا ہے، وہ بھی اس طرح :

ستار اکیا تیری تقدیر کی خبر دے گا
یہ خود فراخ�ئ افلاک میں ہے خوار وزبوں
جبکہ علامہ نے پہلے مصرعے میں ’’تری تقدیر‘‘ نہیں ’’ مری تقدیر‘‘ کہہ رکھا ہے یعنی :
ستارا کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
سوشل میڈیا اور ہرقسم کے میڈیا کا روّیہ حضرت علامہ اقبال ؒ کے اشعار کے سلسلے میں مجموعی طورپر خاصا غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ’’کیپیٹل ‘‘ ٹی وی چینل کی ایک ’’اینکری‘‘ محترمہ ماہ رخ نے جمعرات 4ستمبر 2014ء کو صبح سواگیارہ بجے کی براہِ راست نشریات میں علامہ اقبال کا ایک بہت مشہور شعر اس طرح سنایا :
جمہوریت اک ایسا تماشا ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا
جبکہ مصور پاکستان ،شاعر مشرق کا یہ شعر صحیح شکل میں یوں ہے:
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایک نایاب کتاب ’’خدیجہ ‘‘ مؤلف : مولانا عبدالحمید الزہراوی۔۔۔مترجم : مولانا محمد وارث کامل (سابق ایڈیٹر ’’مدینہ‘‘بجنور) پڑھنے کا اتفاق ہوا ’’انتساب تہدیہ مولف‘‘ کے عنوان سے یوں کیا گیا ہے :
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ تیرے در کی نگہبانی کرے
شعر کی محولہ بالا شکل میں دوسرا مصرعہ کچھ کا کچھ ہوگیا جبکہ حضرت علامہ کا شعر جو، ان کی مشہور نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا حصہ ہے۔ صحیح اس طرح ہے:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
جناب عبداللہ طارق سہیل کے کالموں اور شذرات کا مجموعہ خوبصورت کتابی شکل میں پڑھنے کا موقع ملا ’’آہ بے تاثیر ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس کتاب کے صفحہ 356پر حضرت علامہ اقبال ؒ کے بہت ہی مشہور دو فارسی اشعار نظر سے گزرے، اس تمہید کے ساتھ :
’’علامہ اقبالؔ کی مشہور ثلاثی رباعی کا ذکر بھی آیا ہے:
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ ۔۔۔!
زدیوبند حسین احمد مدنی ایں چہ بوالبعجی است
سرود برسرِ منبر کہ ملت ازوطن است
چہ بے خبرزمقام محمدِ عربی است
جبکہ یہ ثلاثی ہرگز نہیں۔ ثلاثی تین مصرعوں کی صنف سخن ہے جسے زیادہ تر عہد جدید میں حمایت علی شاعر نے اس خوبی سے برتا کہ یہ صنف ان سے ہی منسوب ہوکررہ گئی۔ رباعی چار مصرعوں کی ہوتی ہے متذکرہ بالا چار مصرعے دراصل تین اشعار پر مبنی قطعہ ہے اور صحیح اس طرح ہے:
عجم ہنوز نَداند رموزِ دیں ،ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بو اللعجی است
سرود برسرمنبرکہ ملت ازوطن است
چہ بے خبرزمقام محمدِ عربی است
بہ مصطفیٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُونہ رسیدی تمام بولہبی است
آئے روز مختلف انداز میں مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ پر مضامین نو کے انبار لگتے رہتے ہیں، اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اقبالؔ کا نام آج بچے بچے کی زبان پر ہے یعنی: ایسا بھی کوئی ہے کہ جو غالبؔ کو نہ جانے ،کے مصداق ایسا بھی کوئی نہیں جو اقبال کو نہ جانے یا نہ مانے مگر ہماری گزارش ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ کلامِ اقبال کی ترسیل صحیح ہونی چاہئے ، اقبالؔ ہی کیا مختلف مستند شعراء کے غلط اشعار کی پکڑ دھکڑ جو ہماری جانب سے جاری رہتی ہے اس سے متاثر ہوکر محترم روحی کنجاہی نے یہ قطعہ کہا :
شعر لکھے جاتے ہیں جیسے ٹرکوں پر غلط
لکھ رہے تھے کالموں میں یوں کئی کالم نویس
ان کا نوٹس کیا لیا زیدی نے باصد معذرت
چھوڑ بیٹھے شعری استعمال ہی کالم نویس
باخدا ہمارا منشا یہ نہیں ہے کہ سوشل میڈیا میرؔ وغالبؔ ، میرانیسؔ یا علامہ اقبالؔ کے یافیض و فرازکے بھی اشعار ہی استعمال کرنا چھوڑ دے ۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ صحیح استعمال کرے :
اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں

مزید :

کالم -