صحافی اور صحافت کی معاشرے میں اہمیت

صحافی اور صحافت کی معاشرے میں اہمیت
صحافی اور صحافت کی معاشرے میں اہمیت
کیپشن: rida jamshed

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صحافت ایک ایسا موضوع ہے جس سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ ویسے بھی آج کی دنیا میں کوئی بھی پڑھا لکھا آدمی حالاتِ حاضرہ سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ یا اس کو بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔ اگر کوئی صحافت کا طالب علم نہیں ہے اس کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے گردوپیش، ملکی و عالمی حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے اس سے اپنے آپ کو باخبر رکھے اس کی اچھی صورت یہ ہے کہ وہ صحافت کے مضمون کو بھی باقاعدہ پڑھ سکتا ہے صحافت میں طالبات کی اتنی بڑی تعداد اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری نوجوان طالبات حالات حاضرہ کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ صحافی طالبہ اپنی ساتھی طالبات، خاندان کے دیگر افراد اور معاشرے کے دوسرے طبقوں کے مقابلے پر حالات حاضرہ کو بہتر طور اور گہرائی میں جا کر سمجھ سکتی ہیں۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں اگر سیاست دان نہ ہوتا تو ایک صحافی ہوتا۔
 جب وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ جب میں ایک شہر کے ہوائی اڈے سے اُڑ کر کسی دوسرے شہر کے ہوائی اڈے پر اترتا ہوں تو وہاں جو صحافی میرے دورے کی کوریج کے لئے آئے ہوتے ہیں وہ مجھ سے ایسے موضوعات اور واقعات کے متعلق سوالات کرتے ہیں جن کے متعلق تازہ ترین صورت حال اور معلومات میرے علم میں بھی نہیں ہوتیں۔ وہ مجھ سے معلومات کے میدان میں ہمیشہ آگے ہوتے ہیں۔ لہٰذا مجھے ان پر رشک آتا ہے۔ لیکن اگر کوئی صحافی ہے مگر دوسروں سے معلومات میں آگے نہیں ہے تو اسے اپنے پیشے پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے۔ ہر پیشہ، شعبہ اور میدان میں کچھ چیزیں قابل فخر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی طالبہ یہ کہے کہ میں چائنیز کھانے بڑے لذیذ اور مزے دار بنا لیتی ہوں اور دس بیس طالبات کا مقابلہ ہو اور جو طالبہ واقع ہی چائنیز کوکنگ سب سے اچھی کر کے دکھائے گی وہ ہی سب سے زیادہ اعزاز کی حق دار ہو گی اسی طرح صحافت کے شعبہ میں فخر کی بات یہ سمجھی جاتی ہے کہ لائق اور اچھا صحافی وہ ہے جو دوسروں سے بڑھ کر اپنے پیشے کا حق ادا کر رہا ہے۔ وہ نہ صرف ملکی حوالے سے بلکہ جس صحافتی صنف میں بھی وہ کام کر رہا ہے۔ وہ اس میدان کے حوالے سے اور تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ ہو۔ اگر وہ واقعی آگاہی رکھتا ہے اور دوسروں کو فکری غذا فراہم کر رہا ہے وہ فخر کر سکتا ہے۔
ایک مقولہ ہے (There is always room at the top) کسی بھی اخبارمیں دو بنیادی شعبے ہوتے ہیں۔ ایک شعبہ انتظامی جس کے ذمے ملازمین کے امور و معاملات، ترقیاں، انعام و اکرام، جزا و سزا وغیرہ ہوتے ہیں دوسرا شعبہ ایڈیٹوریل ہوتاہے اس کے مختلف شعبے ہوتے ہیں جس میں رپورٹنگ سب سے اہم ہے۔ یہ دفتری کام سے مختلف نوعیت کا کام ہے خبریں رپورٹرز اور نیوز ایجنسیوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ تمام ذریعوں سے حاصل ہونے والی تمام خبریں نیوز ڈیسک کے پاس چلی جاتی ہیں۔ وہاں عملہ ان کو پڑھتا، اہمیت کو جانچتا، کانٹ چھانٹ کر خبروں کو اخبار کی پالیسی کے مطابق بنا کر اشاعت کے قابل بناتا ہے ان کی سرخیاں بنا کر اپنے چیف نیوز ایڈیٹر یا شفٹ انچارج کے حوالے کر دیتا ہے وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ خبر کس صفحہ پر چھاپنی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں صحافت کی ایک صنف کالم نویسی یا تجزیہ نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔ اس کے لئے بڑی مہارت اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں سب سے مشکل کام اور اہم ترین ذمہ داری غلطی سے پاک و درست، ٹھیک ایمان داری سے رپورٹ (خبر دینا) ہوتا ہے صحافتی ذمہ داریوں کے دوران کئی ایسے مقامات آتے ہیں۔ جہاں سچ لکھنا یا بولنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور یہی صحافی پیشہ کی شان اور عظمت ہے کہ صحافی اپنے تن من دھن کو قربان کرتے ہوئے اظہار کی قربانی نہ ہونے دے۔ صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا ، جیل جانا، مقدمات قائم ہونا اور حملے بھی ہوتے ہیں۔ صحیح صحافی وہی ہے جو ان چیزوں سے خوف کے بغیر حق اور سچ کا ساتھ دے ۔ صحافی کسی قوم اور معاشرے کی تعمیر و تخریب دونوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ایسا صحافی جو اپنے قلم سے سچائیوں کی تصویر کشی کرتا ہے اور معاشرے کے رستے ہوئے زخموں اور ناسوروں پر اپنے قلم کا نشتر چلاتا ہے۔ وہ معاشرتی بگاڑ اور فساد کے خلاف اپنے قلم کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتا ہے وہ نہ صرف قوم کا سرمایہ بلکہ اس معاشرہ کے ضمیر کا فرض انجام دیتا ہے۔ ایسا صحافی جو معاشرے میں بدی کی قوتوں کا آلہ کار بنتا، اپنے قلم سے لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کی پشت پناہی کا کام اور سیاہ کاریوں کی حمایت کرتاہے۔ وہ نہ صرف صحافت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ بلکہ مجرموں کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا اثر پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اس لحاظ سے باضمیر صحافی صحیح خطوط پر معاشرے کی تعمیر میں لازوال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے صحافت کے پیشہ کو پیغمبرانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
میں آرٹیکل یا کالم لکھنے سے پہلے اہم موضوع کا انتخاب کرتی ہوں۔ اس کے لئے مجھے اس موضوع کے بارے میں پوری تاریخ سے آگاہی ہونا چاہئے یا کسی وقت بھی کوئی خاص واقع ہو جائے تو اس کے بارے میں لکھتی ہوں اس پر لکھنے کے لئے متعلقہ حکام اور لوگوں سے بھی معلومات حاصل کرتی ہوں تاکہ کوئی گوشہ باقی نہ رہ جائے میں ہمیشہ چاہتی ہوں کہ میری خبر یا آرٹیکل میں وہ کچھ ہو کہ کسی دوسرے اخبارات یا صحافی نے نہ لکھا ہو تاکہ قاری میری خبر یا کالم کو اہمیت دے۔

مزید :

کالم -