آغا شورش کاشمیری کی وصیت

آغا شورش کاشمیری کی وصیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                        ”میرا قلم اسے دیا جائے جسے لہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو....“
دُنیا میں آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے، کوئی پیدا ہوتا ہے اور کوئی جنازے کے روپ میں اُٹھا لیا جاتا ہے، جتنی خوشی پیدائش پہ ہوتی ہے اُس سے کئی گنا زیادہ غم جنازہ اُٹھنے پر ہوتا ہے، دُنیا میں کئی ہستیاں آئیں اور اپنا اپنا فرض نبھا کر چلی گئیں، اس میں خدا کی قدرت کا ہی عمل ہے کہ اُس نے کس سے کیا کام لینا ہے، بات آ گئی ادیبوں کی، شاعروں کی۔ بڑے بڑے نام کے شاعر اور ادیب اپنی یادیں چھوڑ کر دُنیا سے رخصت ہو گئے، مگر مجھے یقین ہے کہ اُن کی روحیں گردش کر رہی ہوں گی، کسی نے شاعری کی کتابیں چھوڑی ہیں اور کسی نے ناولوں کی شکل میں داستانیں چھوڑیں، کوئی عشق رسول پہ لکھ کر اپنے آپ کو سرخرو کر گیا اور کوئی عشق ِ رسول کے ساتھ ساتھ رفاعی کام کر گیا۔
 مجھے آج بھی امید ہے کہ درد مند دل رکھنے والے دُنیا سے کبھی رخصت نہیں ہوتے۔
آغا شورش کاشمیری کا ذکر کرتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اُن کی داستان پڑھتے ہوئے مَیں کیوں خاموش ہوگئی، میرے چہرے کا رنگ پیلا کیوں پڑ گیا، مَیں سوچنے لگی کہ آج اکتوبر کا مہینہ گزر رہا ہے۔ شورش کاشمیری ”ان دنوں میں اکتوبر کے مہینے میں“ 1975ءمیں زندہ تھے اور آج بھی وہ زندہ ہیں، اس لئے کہ جو عشق رسول سے دل لگا لیتے ہیں اور اُس کی اُمت کے لئے بھلا کر جاتے ہیں وہ ہمیشہ زندہ ہی رہتے ہیں۔ 24اکتوبر1975ءکو جب شورش کاشمیری دُنیا سے چلے گئے تو مجھے یقین ہے اُس دن آسمان کا رنگ ضرور بدلا ہو گا اور فضا پورے ملک کی سوگ میں ڈوبی ہو گی، ہر ایک کا دل رو رہا ہو گا، کیونکہ آج شورش کاشمیری کا جسد خاکی دُنیا سے جا رہا ہو گا، مگر اُن کی روح ہم سب کے غم میں شامل ہو گی۔ جب ایسی ہستیاں دُنیا سے رخصت ہوتی ہیں تو اُن کے سوگ میں زمین آسمان پر رہنے والوں کے آنسو بھی نکلتے ہوں گے۔آج میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آغا شورش کاشمیری کے دنیا سے جانے کے غم میں اشکبار ہوں کہ ایسی ہستیوں کے جسد ِ خاکی تو واپس نہیں آتے، مگر ان کی لکھی ہوئی تحریریں ہمیشہ اُنہیں زندہ رکھتی ہیں اور مَیں آج بھی کہتی ہوں کہ شورش کاشمیری زندہ ہیں۔ اُن کی یادگار چند باتیں آپ کے گوش گزار ہیں۔
آغاشورش کاشمیری نہ صرف عہد ساز شخصیت تھے، بلکہ کردار ساز تھے اور یہی اُن کی سب سے بڑی خوبی تھی، جس نے اُنہیں نڈر بنا کر صحافت اور سیاست میں منفرد مقام دلایا۔ آج اُن کی تعریف کرنے والے اور اُنہیں عقیدت کے پھول پیش کرنے والے یہ تو کہتے ہیں کہ آغا مرحوم کے نقش قدم پر چلو، لیکن سب جانتے ہیں کہ آغا شورش کاشمیری نے جس کانٹوں بھرے راستے پر صبر و استقامت کے ساتھ سفر کیا اس پر چلنا کتنا مشکل ہے۔ آج کل جس صحافی یا سیاست دان کا تھوڑا بہت نام بن جائے وہ دین اور دُنیا سے دور ہو کر اپنی ذات میں کھو جاتا ہے، لیکن آغا شورش کاشمیری نے ثابت کیا کہ صحافت اور سیاست میں اونچا مقام حاصل کرنے کے باوجود اُن کی سب سے بڑی صفت عشق ِ نبیﷺ تھی۔ ختم نبوت کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کی، لیکن اس کے ساتھ عوام کے دُکھ درد کو نہ بھولے اور نہ ہی کبھی حاکموں کو اُن کی لاپرواہی، کوتاہی اور مجرمانہ غفلت پر معاف کیا۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اور اقتدار کے ایوانوں سے مرد حُر بن کر لڑتے رہے، درویشانہ زندگی پر حرف نہ آنے دیا، بے اصولی سیاست، بددیانت صحافت، غریب پر ظلم اُنہیں بے چین کر دیتی تھی وہ صاحب اختیار نہ تھے اس پر اپنا قلم بے باکانہ استعمال کرتے اور بعض اوقات زبان سے بھی اس کی مذمت کرتے، جلسوں میں اُن کی شعلہ بیانی کی بنیاد بھی اُن کا یہی دُکھ بنتا تھا آغا مرحوم کو سب سے زیادہ فخر خادم محمد عربیﷺ ہونے پر تھا وہ ساری زندگی ختم نبوت کے مسئلے پر جدوجہد کرتے رہے اور قادیانیت کے فتنے سے نبرد آزما رہے ان کا یہ شعر ان کے اس کردار کا عکاس ہے۔
جاں وقف کر چکا ہوں محمد کے نام پر
یہ ہے دلیل خاص مرے افتخار کی!
آغا شورش کاشمیری کی ساری زندگی ایک شورش ہی تھی اُن کا یہ تخلص عین اُن کی عادت کے مطابق تھا۔آغا مرحوم کا نام عبدالکریم تھا، لیکن بہت کم لوگ اُنہیں اِس نام سے جانتے ہیں اُن کی تقاریر اور تحریر میں شورش دیکھ کر کبھی بھی کسی نے اصل نام جاننے کی کوشش نہیں کی کسی غیر اصولی بات پر غصہ آنا اور بے انتہا آنا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ علامہ اقبالؒ کے زیر صدارت خلافت کانفرنس میں تقریر سے کوچہ ¿ سیاست میں داخل ہوئے پھر مولانا ظفر علی خان کی صحافت کو استاد بنایا اور تحریر و تقریر کے فن کو یکتا بنا دیا۔ پڑھے لکھے لوگوں کے لئے بھی اُن کی تحریریں پڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ الفاظ کے زیرو بم پر اُنہیں جو عبور حاصل تھا ایسی تحریر لکھنے والا سامنے نہیں آیا۔آغا مرحوم برصغیر کے احرار لیڈر چودھری افضل حق سے متاثر تھے اور اِسی لئے انہوں نے مجلس احرارِ اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ وہ امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری کو مرشد کہتے تھے۔ آغا مرحوم کی شعلہ بیانی میں شاہ صاحب کے خطاب کی جھلک بھی نظر آتی تھی، جن کی تقاریرعوام ساری ساری رات سنتے تھے لاہور کے موچی دروازے کا سیاسی میدان اس کا گواہ ہے۔ آغا شورش کاشمیری نے جلد بہت نمایاں مقام حاصل کر لیا اس کی بنیادی وجہ ان کا سیاست میں بھی خلوص، ایمانداری تھی ان کی شعلہ نوائی بھی اِسی لئے مقبولِ عام تھی کہ وہ عوام کے لئے اور انہیں دُکھ دینے والے حاکموں کے خلاف تقریر کرتے تھے۔ 1946ءمیں انہیںمجلس احرار اسلام کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا اور 1974ءمیں انہوں نے ختم نبوت کے لئے اہم کردار ادا کیا جو رہتی دُنیاتک یاد رکھا جائے گا۔ آغا مرحوم نے اپنے اصولوں کی خاطر جو انہوں نے قائد اعظم ؒ، علامہ اقبال ؒ، سید عطاءاللہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان کو قائد مانتے ہوئے اُن سے سیکھے تھے، جیل بھی کاٹی ،اُن کا ہفت روزہ ”چٹان“ بھی متعدد بار بند ہوا، جو اگر چہ ہفت روزہ تھا، لیکن اس میں شائع ہونے والا مواد کسی مقبول ترین روزنامے سے زیادہ اثر رکھتا تھا اور حاکم ہمیشہ اس سے خوفزدہ رہتے تھے۔ آغا مرحوم نے اگرچہ سیاست مجلس احرار سے شروع کی تھی، لیکن وہ اسلام اور پاکستان کے لئے کسی مسلم لیگی سے بڑے مسلم لیگی نظریات کے حامل رہے۔ اکابرین مسلم لیگ جو اپنے لیڈروں کو درس دیتے تھے انہوں نے تو حکومت میں آ کر اس پر عمل نہ کیا، لیکن آغا مرحوم انہیں اس کی یاد دلاتے رہے اور نتیجے میں زیر عتاب بھی رہے۔ وہ اپنے مشن پر مرتے دم تک قائم رہے مولانا ابو الکلام آزاد سے آغا مرحوم زبردست عقیدت رکھتے تھے اُن کی وفات پر اپنے رسالے ”چٹان“ میں غم ناک نظم لکھی۔
کئی دماغوں کا ایک انساں، مَیں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے، زباں سے زور بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے، پھر کیا کارواں گیا ہے؟
آغا مرحوم کے فرزند آغا مشہود شورش لکھتے ہیں کہ صدر ایوب خان نے بعض لوگوں کے توسط سے رابطہ کیا جس پر ان لوگوں کے ذریعے آغا مرحوم نے یہ تاریخی پیغام بھجوایا کہ دو چیزیں ایسی ہیں جو صدا نہیں رہتیں ایک اقتدار، دوسری مصیبت، اس کا اقتدار نہیں رہے گا اور ہماری مصیبت انشاءاللہ کٹ جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ 1968ءمیں ان کے والد کو گرفتار کر کے کراچی جیل میں بند کر دیا گیا۔ انہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال کر دی حالت خراب ہونے پر آغا مرحوم کو سول ہسپتال کراچی لایا گیا جہاں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ڈاکٹر کا روپ بدل کر ان سے ملاقات کی تھی آغا شورش مرحوم اگرچہ دائیں بازو کے سیاست دان کہلاتے تھے، لیکن انہوں نے ذاتی زندگی دائیں اور بائیں کی سیاست سے بالا تر ہو کر گزاری معروف عوامی شاعر حبیب جالب کو لکشمی چوک سے گوالمنڈی پولیس پکڑ کر لے گئی، اس وقت آغا مرحوم لکشمی چوک کے قریب ہی واقع اپنے رسالے ”چٹان“ کے دفتر میں موجود تھے ان کے دست راست ملک عبدالسلام مرحوم نے جو پریس کے انچارج بھی تھے اُنہیں جالب کے ساتھ پولیس کی زیادتی کی اطلاع کی، اس پر آغا شورش کاشمیری غصہ میں بپھر گئے اور فوراً تھانہ گوالمنڈی پہنچے جہاں جالب تھانے میں بیٹھے تھے آغا مرحوم نے پولیس کے عملے اور ان کے افسران کو اپنے مخصوص انداز میں جارحانہ زبان استعمال کرتے ہوئے بے نقط سنائیں۔ آغا مرحوم کے تھانے پہنچنے اور ہنگامے کی اطلاع پر اس وقت قریب میں واقع روزنامہ ”امروز“ کے چند صحافی بھی وہاں پہنچ گئے اس کے علاوہ گوالمنڈی کے لوگ جو آغا مرحوم سے بخوبی واقف تھے بڑی تعداد میں تھانے کے اندر اور باہر جمع ہو گئے۔ پولیس اہلکاروں کو معافی مانگنا مشکل ہو گئی بالآخر آغا مرحوم حبیب جالب مرحوم کو ہمراہ لے کر چٹان کے دفتر آئے انہوں نے صرف پولیس کی زیادتی پر یہ سوچے بغیر کہ جالب کا تعلق سوشلسٹ گروپ سے ہے زبردست احتجاج کیا جو تاریخی بن گیا۔ آغا مرحوم نے اپنے کالم میں اپنی موت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”مَیں چاہتا ہوں مرنے کے بعد وہ شخص مجھے غسل دے جس نے منبر و محراب کی عظمت کو داغدار نہ کیا ہو“۔
”کوئی حکمران میری قبر پر فاتح نہ پڑھے۔“
”جو کبھی انگریز فوج میں بھرتی ہو کر ملکہ معظمہ کی حکومت کے لئے نہ لڑا ہو“۔
” جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہو۔“
” مجھے وہ شخص کفن پہنائے جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو“۔
” مجھے وہ اشخاص کندھا دیں جو ظلم و جور کے خلاف لڑتے رہے“۔
” میرا قلم اس شخص کو دیا جائے جو اس کو تیشہ کوہکن بنا سکے جس کو لہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو“۔
” میری قبر پر ایک ہی کتبہ لکھا جائے کہ“ یہاں وہ شخص دفن ہے جس کی زندگی تمام عمر عبرتوں کا مرقع رہی ہے۔ مَیں اپنی تحریر مختصر کر رہی ہوں، لکھنا چاہوں تو بہت طویل لکھ سکتی ہوں، مگر مختصر سی تحریر میں آغا صاحب کی یادیں میں دوسروں کو یاد کروا رہی ہوں۔ اُن کے غم میں اُن کے بچے آج بھی نڈھال ہیں اور ان کی کمی محسوس کر رہے ہیں اور جنہوں نے اُن کو قریب سے دیکھا، جنہوں نے اُن کی گفتگو سنی، جنہوں نے اُن کی شاعری سنی اور جنہوں نے اُنہیں حق پر لڑتے ہوئے دیکھا وہ آج بھی شکبار ہیں، مگر مَیں کہوں گی کہ آغا شورش کاشمیری آج بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔    ٭

مزید :

کالم -