ایک مثبت پریس کانفرنس

ایک مثبت پریس کانفرنس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دوست دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو اپنے دوست کی لڑائی ہوتے ہی بازو چڑھا لیتے ہیں اور گالیاں دیتے ہوئے چوک ، چوراہے میں پہنچ جاتے ہیں، پھر اپنی ہڈیاں ٹوٹیں یا مخالف کی، پرچے ہوں یا جیل، اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ جب لڑائی ہے تو پھر لڑائی ہے، ایسے دوستوں کے خلوص سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو لڑائی ہونے پر ساتھ تو کھڑے ہوتے ہیں مگر وہ ہاتھوں سے زیادہ دماغ سے کام لیتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر لڑائی ہوئی اور کسی بھی فریق کا سر وغیرہ کھول دیا گیا تو پھر ایک لمبا مسئلہ شروع ہوجائے گا۔ایف آئی آر درج ہو گی، حوالات اور جیل بھگتنی پڑے گی ، وقت ، کاروبار ،ملازمت اور ساکھ سب متاثر ہوں گے اور وہ اس معاملے کو ٹھنڈے دل سے نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ صلح کرنے والے کمزور نہیں بلکہ حقیقت میں طاقتور ہوتے ہیں۔ ان کی دوستی پر شک کوحماقت ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ نون ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اوراسے اس وقت دونوں قسم کے دوست دستیاب ہیں۔


مجھے اپنے کالم کا آغاز آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس میں کہے گئے آخری الفاظ سے کرنا تھا، انہوں نے کہا، ’ اگر کہیں غلط فہمیاں ہیں تو انہیں ایکسپلائیٹ کرنے کی بجائے ٹھنڈا کرنا چاہئے، دور کرنا چاہئے‘، یہ بات بھی درست کہی گئی کہ فسادی اس پریس کانفرنس کے ذریعے جس فساد کی توقع لگائے بیٹھے تھے وہ ناکام ہوئے، مایوس ہوئے۔ میجر جنرل آصف غفور ایک شخص کانام نہیں ہے، وہ ہمارے بہت محترم اور طاقت ور ادارے کے ترجمان ہیں اور ان کی پریس کانفرنس میں ایسے بہت سارے فقرے موجود ہیں جنہیں ٹھنڈے دل ودماغ والے دوست الجھے ہوئے معاملے کو سلجھانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین سے بالا کچھ نہیں ہوگا، وہ کہتے ہیں کہ ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں آ رہی اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کو فو ج سے نہیں بلکہ عوامی امنگیں اور جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے خطرہ ہو سکتا ہے تو اصولی طور پر یہ بات غلط نہیں ہے۔ حکمران جماعت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوامی امنگوں کو پورا کرنے اور جمہوری تقاضے نبھانے کا دعویٰ بہتر طور پر کرسکتی ہے۔مسلم لیگ نون کو اس وقت مثبت اور جمہوری بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور مثبت بیانیہ مثبت باتوں اور مثبت ردعمل سے ہی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہ درست کہ گذشتہ چار برسوں کے دوران حکومت کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ اس کے پاس ایک وزیر داخلہ بھی موجود ہے مگر گذشتہ چار برسوں کی ’ لیٹ‘ اوور سپیڈنگ کے ذریعے نکالنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کو بھی دیکھنا ہوگا کہ مسلم لیگ نون اس وقت خود کو ایک زخمی شیر محسوس کر رہی ہے جس کا سر پھاڑ دیا گیا اور ہڈیاں توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔وہ دودھ کے جلے ہیں اوربجا طور پر چھاچھ سے بھی ڈر رہے ہیں۔


وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے فوج اور عدلیہ کو نیب کے دائرے میں لانے کی مخالفت کی ہے۔ اس وقت نیب کے قانون میں کوئی بھی ایسی ترمیم حکمران جماعت کی طرف سے ردعمل سمجھی جائے گی اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بعض لوگ اس ترمیم کے حق میں بات کر رہے ہیں مگر کسی بھی مشکل وقت میں وہ اس کے ذریعے غلط فہمیاں اور فاصلے بڑھانے کے لئے کام کریں گے جبکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسی پارٹیوں کی سیاست پہلے ہی جلتی پر تیل ڈالنے کی ہے،وہ غیر ذمہ دارانہ سیاست کی انتہا پر ہیں، انہیں چنگاری ملے اور وہ پورے جنگل کو پھونک ڈالنے کی کوشش نہ کریں ، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اگرفوج اور عدلیہ کو نیب کے دائرے میں لانے کی اہلیت اور جرات نہیں تو تجویز ہے کہ پارلیمنٹ کے لئے بھی انہی دونوں اداروں کی طرز پرداخلی احتساب کا نظام بنالیا جائے۔ جب ہم پارلیمنٹ کو تمام اداروں کی ماں کہتے ہیں تو اس ماں کی چادر دوسروں کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ نے عدلیہ سمیت دیگر اداروں کے ہاتھوں اپنے بہت سارے سربراہ کھوئے ہیں اور یہ ایک معقول جواز ہے کہ آئندہ دھاندلی اور کرپشن سمیت تمام الزامات پرپارلیمنٹ کی رکنیت برقراررکھنے کے فیصلے پارلیمنٹ میں اندرونی طور پر ہی ہوں گے اوراس کے لئے ماہرین کی مدد سے باقاعدہ نظام وضع کیا جائے گا۔


میڈیا کی آزادی ایک بہت نازک موضوع ہے مگر یہاں ایشو آزادی سے زیادہ مادر پدر اور شتر بے مہار آزادی کا ہے۔ دنیا بھر میں آزادی کا تصور ذمہ داری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جیسے ہی پارلیمنٹ کو تحفظ دینے کی بات ہوگی اس وقت بدبو کے بہت سارے بھبکے چھوڑے جائیں گے مگر کیا یہ امر درست نہیں کہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کرنے والے بہت سارے ادارے اس وقت حکم امتناعی پر چل رہے ہیں۔ یہ حکم امتناعی لامتناعی مدت کے لئے ہیں۔ یہ مسلم لیگ نون کی حکومت کی بڑی کمزور ی رہی کہ اس نے اصلاحات کے عمل میں متحرک اور فعال کردارادا نہیں کیا۔ میں اعلیٰ عدلیہ میں وکیلوں میں سے ججوں کو لیے جانے کے طریقہ کاراور اثرات پر بوجوہ بات نہیں کرنا چاہتا مگر اسٹے آرڈرز لینے والوں نے ہمارے معاشرے میں ادھم مچا رکھا ہے۔ یہ اسٹے آرڈرز قبضہ گروپوں کے ہاتھ میں سب سے بڑا اختیار ہے او رایک وکیل پچاس سو سے پچاس لاکھ روپے تک میں یہ سہولت فراہم کروا دیتا ہے۔


پاک فوج کے ترجمان جناب میجر جنرل آصف غفور کی بات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے، میں دہرا دیتا ہوں، انہوں نے کہا،’ اگر کہیں غلط فہمیاں ہیں تو انہیں ایکسپلائیٹ کرنے کی بجائے ٹھنڈا کرنا چاہئے، دور کرنا چاہئے‘، کیا ہی بہتر ہو کہ مسلم لیگ نون میں جوش کی بجائے ہوش سے کام لینے والے اس وقت ایک گپ شپ کا اہتمام کر لیں، ایک اچھا اور مزے دار کھانا ملاقات کو بھی اچھا اور مزے دار بنا سکتا ہے، مجھے یقین ہے کہ فوج کے حلقوں میں بھی بہت سارے گلے شکوے موجود ہوں گے مگر چونکہ میرا فوجی بھائیوں کے ساتھ براہ راست کوئی رابطہ نہیں رہتا لہٰذا میں ان گلے شکووں کی اہمیت اور وزن کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر مسلم لیگ نون کی طر ف سے جو غلط فہمیاں ہیں ان کوکسی حد تک ضرور بیان کر سکتا ہوں۔ مسلم لیگ نون سمجھتی ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی محض ایک عدالتی فیصلہ نہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کچھ میڈیا ہاوسز محض حب الوطنی کے جذبے کے تحت نہیں بلکہ ایک ایجنڈے اور سکرپٹ کے مطابق حکومت کے خلاف کام کر رہے ہیں اور ان کے نشر کردہ پروگراموں کی ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپشن دیکھی جائے تو یقینی طو رپر وہ غیر جانبداری کے اعلیٰ ترین صحافتی اصولوں سے کوسوں دور ہیں۔یہاں مسئلہ عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید جیسے سیاستدانوں کا بھی ہے کیا وہ اپنے تئیں فوج اور عدلیہ کے ترجمان بننے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کے پا س کوئی خفیہ مینڈیٹ موجود ہے، کیاو جہ ہے کہ غیر ذمہ دارانہ ٹی وی پروگراموں سے لے کران رہنماؤں کی پریس کانفرنسوں تک کے بارے میں خاموشی اختیار کرکے انہیں جائزیت عطا کی جاتی ہے۔


میرے پاس ایک پاکستانی کے طور پر یہی فوج ہے اور یہی سیاستدان ہیں۔مجھے آنے والے دنوں کے لئے امید درکار ہے جو ایک آئینی اور جمہوری نظام ہی دے سکتا ہے اور اسی کے بارے میں جناب آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح بات کی۔ فوج کسی بھی ملک میں اپوزیشن کا نہیں بلکہ ریاست کے اہم ترین ادارے انتظامیہ کا حصہ ہوتی ہے جبکہ عدلیہ کا مقام یہ نہیں ہوتا کہ وہ سیاسی مباحث اور لڑائیوں میں فریق ہو۔یہ درست کہ ماضی میں مارشل لاء لگے اور اب بھی سیاسی عمل کے ایک پنجرے میں بند ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے ۔ہمیں اپنے ماضی سے سبق ضرور سیکھنا ہے مگر پختون روایات کے مطابق اسے دادے، پردادے کے انتقام کی وراثت نہیں بنانا۔ جس مکالمے کی بات کچھ عرصے سے کی جا رہی ہے میرے خیال میں اس مکالمے کے روایتی اور غیر روایتی انداز میں منعقد کئے جانے کا اس سے بہتر کوئی وقت نہیں ہے جب پاک فوج کے وژنری سربراہ اورکھرے ترجمان آئین اور جمہوریت کے ساتھ کمٹ منٹ کا بار بار اعادہ کر رہے ہیں۔

مزید :

کالم -