پی ایم اے میں آرمی چیف کا خطاب اور....؟

پی ایم اے میں آرمی چیف کا خطاب اور....؟
پی ایم اے میں آرمی چیف کا خطاب اور....؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

18اکتوبر2014ءکا دن پاکستان کے لئے ایک یادگار دن تھا۔کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی کا جلسہ اس کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش کے طور پرمنایا جا رہا تھا۔ اسلام آباد میں ایرانی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے پاک ایران بارڈر پر ایک جھڑپ میں ایک پاکستانی سولجر کے مارے جانے اور تین سولجرز کے زخمی ہونے پر احتجاج کیا جا رہا تھا اور ایبٹ آباد میں (کاکول) 130ویں لانگ کورس سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف خطاب کر رہے تھے.... یہ ایک بڑی پریڈ تھی۔ 1200کیڈٹ پاس آﺅٹ ہو رہے تھے جن میں 45 غیر ملکی کیڈٹ تھے اور تقریباً40خواتین کیڈٹس بھی تھیں جو چھ ماہ کا شارٹ کورس کر رہی تھیں۔ اس تناظر میں 18اکتوبر کی یہ پاسنگ آﺅٹ پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کہی جا سکتی ہے۔
جنرل راحیل نے جب سے پاکستان آرمی کی کمانڈ سنبھالی ہے کشمیر پر اُن کا موقف بڑا دو ٹوک اور اٹل رہا ہے۔ آج بھی وہ یہی کہہ رہے تھے:” اس خطے میں دائمی امن صرف اسی صورت میں آ سکتا ہے، جب مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل نکالا جائے اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور ان کی خواہشات کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ کشمیری عوام پر جو ظلم و جبر کے اقدام مسلط کئے جا رہے ہیں وہ ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے۔ بین الاقوامی برادری نے ان کے ساتھ جو وعدے کر رکھے ہیں وہ آخر کار ان کو حق ِ خود ارادیت سے ہمکنار کریںگے۔ ہم پاکستانیوں کو پورا پورا یقین ہے کہ ہمارے کشمیری بھائیوںاور بہنوں کا عزم بالجزم اور آزاد دنیا کا اجتماعی شعور نتیجہ خیز ثابت ہو گا اور کشمیریوں کی آرزوﺅں کی تکمیل ہو کے رہے گی“۔
کہا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف کے خطاب کا ایجنڈا صرف دو نکات پر مشتمل تھا جن پر انہوں نے زور دیا۔ ان کی تقریر کوئی زیادہ لمبی چوڑی نہیں تھی۔ اس مختصر خطاب میں کشمیر کے بعد دوسرا نکتہ جس پر انہوں نے پاکستانی قوم اور پوری دنیا کی توجہ مبذول کروائی وہ پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ تھا۔ ان کے یہ الفاظ قابل ِ غور تھے: ”اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان آرمی آج ایک نہایت تجربہ کار اور آزمودہ¿ حرب و ضرب فورس ہے۔ چیلنج کا مسئلہ ہو، آفات ِ ارضی و سماوی مثلاً سیلاب اور زلزلے ہوں، ہم ہمیشہ قوم کی امنگوں پر پورے اترے ہیں۔ ہمارے آفیسرز ہمیشہ ہر اول میں ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا پروفیشنل کلچر اور ہماری پُرافتخار روایات ہیں جن کو دہشت گردی کے خلاف ہماری جدوجہد میں دیکھا جا سکتا ہے اور جس میں ہمارے 4000 سے زیادہ افسروں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں.... اور اب، مائی ڈیئر کیڈٹس! پاک فوج آپ سے توقع کرتی ہے کہ آپ اس روائت کو آگے بڑھائیں گے“۔
آرمی چیف نے ضرب ِ عضب کا ذکر خصوصی طور پر کیا اور کہا:”یہ ضربِ عضب ایک عسکری آپریشن ہی نہیں، ایک نظریہ اور ایک تصور بھی ہے۔ یہ قوم کے عزم کا آئنہ دار اور اس کا گویا ایمانِ محکم ہے۔ پاکستانی قوم سے ہمارا یہ وعدہ ہے کہ ہم اس لعنت کو پاک سرزمین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرکے رہیں گے۔ پاکستان آرمی، اس عہد کے ایفاءکے لئے ایک شمشیر ِ آبدار ہے۔اس کا اظہار شمالی وزیرستان میں ہو رہا ہے کہ جہاں فیصلہ کن نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی امن و امان قائم رکھنے کی تمام ایجنسیاں جن کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سپورٹ حاصل ہے، ملک بھر میں پھیلے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو برباد کر کے ان تخریب کاروں کو ٹھکانے لگا رہی ہیں“۔
اس آپریشن کی وجہ سے جو لوگ بے گھر ہوئے، آرمی چیف نے ان کو بھی یہ نوید سنائی کہ وہ بہت جلد اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اور جب جائیں گے تو ایک نیا منظر ان کا منتظر ہو گا جس میں خوشحالی اور مسرتوں کا دور دورہ ہو گا۔
پاک بھارت سرحدوں پر جاری کشیدگی کے ضمن میں جنرل راحیل نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو اس کشیدگی میں اضافے کا باعث سن سکتی تھی۔ ان کا جو یہ کہنا تھا کہ وہ اندرونی چیلنجوں اور بیرونی جارحیت کے خطروں سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں، تو میرے خیال میں ان کے منصب کے شایانِ شان یہی تھا۔

ایک طرف18اکتوبر کی صبح، آرمی کی اعلیٰ ترین قیادت ملک کو لاحق دو خطرات کا ذکر رہی تھی (مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اور دہشت گردی کا تسلسل) تو دوسری طرف ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی جو پارلیمان میں حزبِ اختلاف کی لیڈر بھی ہے، وہ ایک اور راگنی چھیڑ رہی تھی۔ اس کا آغاز بھی خاندانی جمہوریت کے نعروں کے تسلسل سے ہوا اور اختتام بھی ”جئے بھٹو“ کے نعروں پر ہوا، لیکن اب لگتا ہے شائد اس وراثتی سیاسیات کا سورج غروب ہو رہا ہے یہ اور بات ہے کہ ہمارے روائتی سیاست دانوں کو اس تبدیلی کا احساس نہیں ہوا۔ وہ ماضی کی پرانی داستانوں کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔ کوئی خدا کا بندہ، حال کی حالت ِ زار کا نقشہ کھینچ کر مستقبل کے لئے کوئی نیا پروگرام، نئی امید، نئی آرزو اور نئے ارمان پیش نہیں کرتا کہ جن کی اشد ضرورت ہے۔
مَیں بلاول صاحب کی تقریر سُن رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ مغرب کی گود میں پروان چڑھا اور وہیں لکھ پڑھ کر عنفوانِ شباب کو پہنچا۔ یہ نوجوان آسمان کی طرف مُنہ کر کے اور بازوﺅں کو دائیں بائیں تیزی سے حرکت دے دے کر چلا رہا تھا:”بھٹو ازم سارے امراض کی واحد دوا ہے.... ہمیں آج جو خطرات لاحق ہیں ، ان کا توڑ صرف اور صرف ”بھٹو ازم“ سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ”بھٹو ازم“ ایک حقیقت ہے۔ اس کو عوام کے دِلوں سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ یہ بھٹو ازم نہ صرف یہ کہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اترنے کی ”کھٹل“ ہے، بلکہ اس سازش کا واحد علاج بھی ہے جو پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے“۔
بلاول صاحب کہہ رہے تھے کہ ”بھٹو ازم“ ایک ایسا نسخہ ¿ کیمیا ہے کہ جس کو استعمال کر کے قوموں کی برادری میں پاکستان کا امیج بحال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تقریر میں اشاروں کنایوں کو ترک کر کے سیدھا سیدھا الزام ”آمریت“ پر لگایا، جس سے ان کی مراد پاکستان آرمی تھی۔ ایک طرف علی الصبح عسکری قیادت اپنے نو آموز اور نوجوان افسروں کو صاف صاف بتا رہی تھی کہ ملک کو کیا کیا چیلنج در پیش ہیں اور انہوں نے ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کیا کیا قربانیاں دینی ہیں اور دوسری طرف علی الشام سیاسی قیادت کا ایک بڑا طبقہ، اپنے سامعین کو بتا رہا تھا کہ یہی فوج ہے جو سیاسی لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے، انہیں کوڑوں کی سزا دیتی ہے اور ان پر قسم قسم کے جورو جفا آزماتی ہے۔
مَیں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ یہ1200کیڈٹس جو علی الصبح اپنی اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے، دو برس کی مسلسل ریاضت برداشت کی تھی، ملک کی حفاظت کی خاطر جان پر کھیل جانے کی پریکٹس میں دن رات ایک کر دی تھی، یہ لوگ جب اپنے گھروں کو جائیں گے اور علی الشام ٹی وی چینل آن کریں گے تو ایک مختلف قسم کا بھاشن ان کے کانوں میں پڑے گا جن کا کوئی تعلق ان کے ”پروفیشنل ازم“ سے نہیں ہو گا تو کیا ان کے اذہان میں تضاد فکری کا بھونچال ان کے عزم کی مستحکم دیواروں سے نہیں ٹکرائے گا؟.... اگر ٹکرائے گا تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ آرمی چیف نے تو علی الصبح، جمہوریت کی حمایت کی تھی۔ جنرل راحیل شریف کے الفاظ تھے۔” دوسرے تمام پاکستانیوں کی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک پھلے پھولے اور قوموں کی برادری میں اپنے شایانِ شان مقام حاصل کرے اور اپنے قائد، حضرت محمد علی جناح ؒ کے وژن کی تکمیل کرے۔ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ قائد کے اس خواب کی تعبیر تب ہی مل سکتی ہے جب ہم قانون کی عملداری کے لئے جمہوری اقدار کو اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ ہم ان اقدار کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے عزائم میں اگر کسی کو کوئی تحفظات ہیں تو وہ نہ صرف یہ کہ بے بنیاد ہیں بلکہ ملک کے لئے نقصان دہ بھی ہیں“....جب ایک طرف آرمی چیف یہ کہہ رہا ہو اور فوج نے گزشتہ6،7برسوں میں ان روایات کی پاسداری کا انمنٹ ثبوت بھی فراہم کر دیا ہوتو پھر ”پھانسیوں اور کوڑوں“ کی پرانی راگنی چھیڑنے کا فائدہ؟
تعصب چھوڑ ناداں دہر کے آئینہخانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے بُرا تو نے
       (اقبال، بانگ ِ درا)

مزید :

کالم -