وہ دونوں شہادت سے پہلے روزہ افطار کرنے کی تیاریوں میں تھے (1)

وہ دونوں شہادت سے پہلے روزہ افطار کرنے کی تیاریوں میں تھے (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ 29 رمضان المبارک کو افطار سے کچھ پہلے کا وقت تھا ،جب میری بیٹی عذرا ترابی اور میرے داماد انجینئر احسن عزیز شمالی وزیرستان میں پاک افغان سرحدکے قریب ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ وہ اس وقت روزہ افطار کرنے کی تیاری میں تھے، بلکہ انہوں نے روزہ افطار کرنے کے لئے کھجوریں اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ کو شاید یہ منظور تھا کہ وہ روزہ یہاں افطار کرنے کی بجائے جنت میں پہنچ کر افطار کریں ، لہٰذا عین اس وقت ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں وہ دونوں شہید ہوگئے، چنانچہ ان کی شہادت کے بعد دیکھا گیا کہ کھجوریں اسی طرح ان کے ہاتھوں میں لی ہوئی تھیں....انا للہ و انا الیہ راجعون۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جس جگہ ان دونوں شہیدوں کا مقدس خون گرا تھا، وہاں سے ایک ایسی خوشبو آرہی تھی بلکہ اب تک آرہی ہے جو اس دنیا کی خوشبو¶ں سے بالکل مختلف اور اعلیٰ درجے کی ہے۔ یہ صحیح ترمذی میں وارد اس حدیث شریف کے عین مطابق ہے جس میں نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ شہداءکے خون کا رنگ تو خون کا ہوتا ہے ،لیکن اس کی خوشبو کستوری کی ہوتی ہے.... (بحوالہ جامع ترمذی، کتاب فضائل جہاد، حدیث نمبر 1656)
 عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دونوں شہداءکی تدفین اسی دن نماز ترعشا ءکے بعد مقامی قبرستان میں کردی گئی اور ایک اندازے کے مطابق ان کی نماز جنازہ میں ڈیڑھ دو ہزار کے قریب لوگوں نے شرکت کی ،جبکہ اس گا¶ں کی کل آبادی زیادہ سے زیادہ اڑھائی سو افراد پر مشتمل ہے۔ لوگ حیران تھے کہ نماز جنازہ میں اتنے زیادہ لوگ کہاں سے آگئے اور مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ نماز جنازہ کے فوراً بعد وہ سب لوگ وہاں سے ایسے غائب ہوگئے، جیسے وہاں آئے ہی نہ ہوں۔ مزید برآں عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دونوں کو جہاں دفن کیا گیا ہے، وہاں رات کے وقت ایک ایسا نور آسمان سے اترتاہوا دکھائی دیا جس نے ان دونوں کی قبروں کو منور کر رکھا تھا اور یہ کیفیت صبح تک برقرار رہی۔
انجینئر احسن عزیز شہید بنیادی طور پر میر پور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے والد کمانڈر عبدالعزیز نے تحریک آزادی¿ کشمیر کے سلسلے میں عظیم اور ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔اس خاندان نے 1947ءاور 1965ءکے جہاد میں کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی بقا و سا لمیت کے لئے عظیم خدمات انجام دیں ۔ اسی طرح 1990ءمیں موجودہ تحریک جہادکے شروع ہونے پر انہوں نے اپنے آپ کو مجاہدین کی خدمت اور تربیت کے لئے وقف کردیا۔ کمانڈر عبدالعزیز مرزا صاحب کی طرح ان کے دو صاحبزادوں کرنل محمد سعید مرزا اور کموڈور محسن عزیز مرزا نے بھی پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لئے عظیم خدمات انجام دی ہیں ۔ ان کے والد کمانڈر عبدالعزیز جماعت اسلامی آزادکشمیر کے بزرگ رہنما ہیں ، وہ ایک عرصے تک جماعت اسلامی آزادکشمیرضلع میر پور کے امیر رہے ہیں، وہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی مجلس شوری کے رکن بھی رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں بھی جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں، ان کا خاندان شاید آزادکشمیر کا واحد خاندان ہے جس کا ہر فرد جماعت اسلامی سے وابستہ ہے ۔
انجینئر احسن عزیز اپنے زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ رہے ، پھر ایک عرصے تک وہ اسلامی جمیعت طلبہ آزادکشمیر کے ناظم بھی رہے ہیں۔جب 1990ءمیں جہاد کشمیر کا آغاز ہوا تو انجینئر احسن عزیز انجینئرنگ کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ انہوں نے جہاد کشمیر کا آغاز ہوتے ہی اپنی تعلیم کو خیر باد کہا اور مجاہدین کشمیر کی سب سے بڑی تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ ہوگئے، چنانچہ انہیں حزب المجاہدین کے دینی اور اخلاقی تربیت کے شعبے کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ حزب المجاہدین کے دینی اور اخلاقی شعبے کے لئے ایک مربوط نظام تربیت تشکیل دیا گیا،جس کے مطابق حزب المجاہدین سے وابستہ مجاہدین کو جہاد کے مقاصد، آداب اور احکام کی تعلیم دی گئی۔اس مقصد کے لئے حزب المجاہدین کے کیمپوں میں ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا، جس کے تحت رات کا بیشتر حصہ قیام اللیل،نمازتہجد اور تسبیح و تہلیل میں گزرتا تھا، صبح کے وقت تلاوت قرآن مجید اور اس کے بعد درس قرآن ،اور پھر ناشتے کے بعد تاریخ اسلام کا مطالعہ اور اس کے بعد عسکری مشقیں۔ دن کے کھانے کے تھوڑی دیر بعد قیلولہ اور پھر درس حدیث کا اہتمام ہوتا تھا۔ نماز مغرب کے بعد عالمی اسلامی تحریکوں کے بارے میں سٹڈی سرکل اور مجلس مذاکرہ ہوتی تھی ،اور پھر عشاءکی نماز کے بعد کھانا کھا کر آرام اور سونے کا وقفہ ہوتا تھا۔ اس مربوط نظام تعلیم و تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ حزب المجاہدین سے وابستہ مجاہدین دوسری مجاہد تنظیموں سے وابستہ مجاہدین کے مقابلے میں دینی واخلاقی اعتبار سے زیادہ فوقیت رکھتے ہیں اور یہ سب انجینئر احسن عزیز کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
اس دوران میں ان کی شادی 1997ءمیں میری بیٹی عذرا بتول سے ہو گئی جو اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کی گریجوایٹ تھیں اور جن کا اسلامی جمعیت طالبات سے تعلق تھا ۔ وہ اسلامی جمعیت طالبات اسلام آبادکی معاون ناظمہ تھیں ، وہ حافظہ قرآن بھی تھیں اور اپنے تقویٰ اور دین کے فہم اور شعور کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتی تھیں۔ یہ شادی خالصتاً دینی اور تحریکی بنیادوں پر ہوئی۔
2001ءمیں جب امریکہ نے افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تو انجینئر احسن عزیز کا جذبہءجہاد انہیں کشاں کشاں افغانستان لے گیا ، پھر انہوں نے اپنے آپ کو جہاد افغانستان کے لئے وقف کر دیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے بہت جلد ان کا شمار مجاہدین افغانستان کی اگلی صفوں میں ہونے لگا۔اس جہاد میں میری بیٹی ان کے دوش بدوش شریک رہیں اوربالآخر 29 رمضان المبارک کو دونوں میاں بیوی نے عین افطار کے وقت ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں اکٹھے جام شہادت نوش کیا ،اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔ آمین
انجینئر احسن عزیز کے بارے میں ایک انتہائی اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ اسلام اور جہاد کے شیدائی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقاءوسا لمیت کے بھی بہت بڑے علمبردار تھے۔ وہ ان لوگوں سے اختلاف رکھتے تھے جو امریکہ کی مخالفت میں پاکستان اور پاکستانی فوج کی مخالفت کو بھی اپنا مشن بنا لیتے ہیں ، پھر پاکستانی فوج کی تنصیبات کو اپنی کارروائیوں کا ہدف بنانے کو جہاد قرار دیتے ہیں ۔ وہ کسی مسلمان کے خون ناحق کو کسی صورت میں بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ انجینئر احسن عزیز ایک بلند پایہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انہوں نے نوجوانی میں ہی ایسی بلند پایہ کتابیں لکھی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ،ان کی اہم کتابوں میں مندرجہ ذیل کتابیں قابل ذکر ہیں:
1۔تمہارا مجھ سے وعدہ تھا
2۔اجنبی ©©©© کل اور آج
3۔اک فرض جسے ہم بھول گئے
ان کی شہادت کی اطلاع ملنے پر 23 اگست 2012ءکو بروز جمعرات انجینئر احسن عزیز شہید اور میری بیٹی کی غائبانہ نماز جنازہ ان کے آبائی شہر میرپور میں ملی یکجہتی کونسل کے صدر اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر محترم جناب قاضی حسین احمد نے پڑھائی ۔ نماز جنازہ میں قاضی حسین احمد صاحب کے علاوہ حزب المجاہدین کے امیر اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین، تحریک حریت کشمیر کے رہنما جناب غلام محمد صفی اور کئی دوسرے قائدین نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے قاضی حسین احمد صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان دینے والوں کو دائمی زندگی کی خوشخبری سنائی ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی خاطر جینا اور مرنا ہے اور مسلمان کی زندگی کا راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے انجینئر احسن عزیز شہید نے ظلم کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ جن عالمی طاقتوں کے سامنے ہمارے حکمران جھکے ہوئے ہیں، انجینئر احسن عزیز نے ان کے سامنے کلمہء حق کہا ، اس لئے وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں اور انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے جوانی میں ایک اہم مقصد کے لئے اپنی جانیں قربان کی ہیں ۔ان کے جنازے میں شریک ہونا میرے لئے باعث فخر ہے ۔
 حزب المجاہدین کے امیراور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین صاحب نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انجینئر احسن عزیز شہید نے جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے ایک عظیم مقصد کے لئے جانیں قربان کی ہیں ، جو ہمارے لئے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔اسی طرح تحریک آزادی¿ کشمیر کے نمائندے جناب غلام محمد صفی نے خطاب کرتے ہوئے جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کے حوالے سے ان کے عظیم کردار کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 23 اگست بروز جمعرات امیر جماعت اسلامی آزادکشمیر محترم عبدالرشید ترابی عمرے کی ادائیگی سے واپسی پر ائیرپورٹ سے سیدھے میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور انہوں نے دونوں شہداءکی شہادت کے لئے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں جانیں پیش کر کے ہمارے لئے ایک تابناک مثال قائم کی ہے۔ (جاری ہے)   ٭

مزید :

کالم -