سفر سہل تو نہ تھا... آخری قسط

سفر سہل تو نہ تھا... آخری قسط
سفر سہل تو نہ تھا... آخری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سکندر نے سوچا کہ مجھے کیا نہیں بتانا چاہتی تو مت بتائے مجھے لاریب کو کال کرنی چاہیے ۔۔۔لیکن یہ کیا لاریب کو فون کیا تو اس کے سامنے بیٹھی لڑکی نے ریسیو کر لیا ۔
" اوہ آپ سکندر بھائی ہیں سوری سوری مجھے بالکل خبر نہیں ہوئی ورنہ میں آپ کو بیٹھنے کے لئے ضرور کہتی " لاریب نے کچھ شرمسار سا ہو کر کہا
" آپ بالکل معذرت خواہ مت ہوں ، غلط فہمی ہو ہی جایا کرتی ہے اور میرا نام میر سکندر ہے اور میں شازیہ سلیمان کا خالہ زاد  بھائی ہوں یعنی بھائی میں شازیہ کا ہوں ۔۔۔" سکندر نے کچھ شرارت بھرے لہجے میں کہا
" صحیح ، کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ نے اسی ریسٹورنٹ میں آنے پر کیوں اصرار کیا یہ تقریبا آئوٹ آف وے ہے " لاریب کچھ پزل ہونے لگی
" دراصل کچھ آئوٹ آف وے تو ہے یہ شاید لیکن دراصل یہاں کا کھانا بہت اچھا ہوتا ہے اوہ سوری شاید آپ کو آنے میں بھی مسئلہ ہوا اگر آپ مجھے بتا دیتیں تو میں آپ کو پک کر سکتا تھا با آسانی میرے لئے کوئی ایشو نہیں ہوتا ۔" سکندر نے آداب میزبانی نبھائے
" نہیں ایسے کچھ مناسب نہیں لگتا ، بے شک آپ شازیہ کے بھائی ہیں لیکن اس پہلی ملاقات کی وجہ سے آپ کا مجھے پک کرنا کچھ عجیب سا لگتا ۔۔" لاریب نے بلا جھجھک اپنے خوف کا اظہار کر دیا
" دیکھئیے لاریب ، میں بالکل اسٹریٹ فارورڈ انسان ہوں ، آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہیں مجھے آپ کی عزت اور اپنے وقار کا پورا پورا خیال ہے بہرحال آپ پہنچ تو گئیں تو اب کیا کھانا آرڈر کر لیں میرے پیٹ میں تو چوہے دوڑ رہے ہیں ۔۔صبح سے خالی پیٹ میٹنگز پر میٹنگز ہیں ۔۔۔۔بہت تھکاوٹ ہو چکی ہے
ریسٹورنٹ کا کھانا واقعی بہت لاجواب تھا انھوں نے چائننیز اور اٹالین فوڈ آرڈر کیا اور بعد میں چائے پی ۔۔پہلی ملاقات میں وہ اسے بہت اچھا تو نہیں لیکن نسبتا معقول اور اچھا  انسان لگا تھا
ان کے مشاغل بھی تقریبا ایک سے تھے ، اور بھی کئی چیزوں میں پسند بھی ایک سی تھی ۔۔۔۔زندگی میں ہمیں بہت سے لوگ ملتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ ہم ان کے اصلی چہرہ کو بھی پڑھ سکیں ۔۔
اسے سکندر کی یہ بات بہت پسند آئی تھی کہ اس کی باتوں اور انداز میں سادگی تھی ۔اتنی بڑی کمپنی کا مالک ہونے کی باوجود بھی اس میں کوئی نخرہ نہیں تھا ، کوئی روڈنیس نہیں تھا کوئی تکبر کوئی کروفر نہیں تھا
بلکہ وہ بہت دوستانہ ماحول میں اس کے ساتھ محو گفتگو تھا شاید اسی وجہ سے اس کا پہلی ملاقات کا خوف خودبخود ختم ہو رہا تھا
دونوں کے درمیان ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ بھی ہوا تھا اور بات چیت کا آغاز بھی ہو گیا ۔۔۔وہ رسمی بات چیت سے آگے نہ بڑھے تھے ۔۔۔لاریب نے اماں کو فون کر کے سب صورتحال بتا دی تھی دوسری طرف شازیہ بھی لاریب کی والدہ سے سکندر کی اماں خالہ ریحانہ کو ملوانے لے گئی تھی۔
ریحانہ بیگم وضع دار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ، وہ لوگ جدی پشتی امیر تھے لیکن ان میں غرور نام کو نہ تھا بلکہ وہ تو سلمی بیگم سے بہت اچھی طرح ملیں اور سکندر کے لئے خواستگاری کا اظہار کیا ۔
سلمی خاتون تو خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتیں تھیں انھوں نے تو دو بیٹیوں کے فرائض سے عہدہ برا ہونا تھا لیکن اب ان کی لاڈلی بیٹی لاریب کا بر بھی کتنا اچھا مل گیا تھا ۔قدرت جب مہربان ہوتی ہے تو سب کچھ اچھا اچھا ہونے لگتا ہے
خرم کو یونیورسٹی میں لیکچر شپ مل گئی تھی گھر اور گاڑی بھی یونیورسٹی کی طرف سے تھی دونوں بیٹیوں کی شادیوں کی تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں ۔۔۔آج وہ بہت خوش تھیں کہ لاریب پاکستان واپس آ رہی تھی اور پندرہ دن کے وقفے سے اس کی بھی شادی سکندر سے ہو رہی تھی ۔۔۔لاریب کو بیرون ملک سے جاب کی آفر تھی لیکن وہ اپنے ملک کے ریڈیو سے ہی وابستہ رہنا چاہتی تھی اس کے اسی شوق اور جذبے  کو سراہتے ہوئے اس کی تقرری بطور انسٹرکڑ ملک کی براڈ کاسٹنگ اکیڈمی میں کر دی گئی تھی لاریب نے اپنی زندگی میں بہت مشکلات دیکھی تھیں لیکن اب سب تاریکی چھٹ گئی تھی اور ایک نیا سویرا اس کا منتظر تھا ۔ختم شد ۔۔۔ گزشتہ قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں او ر اس میں پیش کیے گئے تمام نام فرضی ہیں، کسی سے مماثلت محض اتفاق ہوگا۔ 

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -