’عمران خان کہتے ہیں کہ افغانستان سے متعلق پالیسی غلط ہے‘ صحافی کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا دو ٹوک جواب
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن) ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے معصوم شہری اور سیکیورٹی اہلکاروں کا ناحق خون بہایا جائے تو کیا ہم بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں ؟یہ جو نام نہاد بات چیت کی پالیسی تھی اس کا خمیازہ آپ اور ہم بھگت رہے ہین، یہ تکرار واضح کرتی ہے کہ 2021 میں کس نے ضد کی تھی کہ ان سے بات چیت کر کے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے گا، اس ضد کی قیمت پاکستان اور بالخصوص کے پی کے ادا کر رہاہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر سے پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے سوال کیا کہ گزشتہ روز عمران خان سے بات ہوئی تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی افغان پالیسی غلط ہے ، افغانستان کیساتھ مذاکرات کرنے چاہیے، ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اس پر رائے دینے سے پہلے حقائق بتاوں گا کہ پچھلے دو سال سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مختلف لیول پر بات چیت اور کانٹیکٹ جاری ہے، پہلے بھی عرض کیا کہ ہم ان سے ایک ہی بات کر رہے ہیں، پاکستان اور افغانستان دونوں پڑوسی اسلامی برادر ملک ہیں، افغان عبوری حکومت دہشتگرووں کو پاکستان پر مقدم نہ رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نہ صرف بات چیت براہ راست بلکہ دوست ممالک کے ذریعے بھی ہو رہی ہے، افغان حکومت کو باور کروایا جارہاہے کہ آپ دہشتگردوں کی سہولت کاری جو آپ کی سرزمین سے ہو رہی ہے اسے روکیں، ان افغانوں کو کنٹرول کریں کہ دہشتگردوں کے ساتھ شامل ہو کر پاکستان کے اندر دہشتگردی نہ کریں، اس مسلسل رابطے کے باوجود اگر افغانستان کی سرزمین پر فتنہ الخوارج کے لیڈران کے تربیتی مراکز آزادی سے آپریٹ ہو تے رہے، ہمارے معصوم شہری اور سیکیورٹی اہلکاروں کے اہلکاروں کا ناحق خون بہایا جائے تو کیا ہم بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں۔
عمران خان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ یہ جو دوغلی سیاست کا پرچار کرتے ہیں، آج سے ٹھیک چھ دن پہلے 21 ددسمبر2024 جنوبی وزیرستان میں ایف سی کے 16 جوان دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ، کیا ان کے خون کی قیمت نہیں ہے؟ کیا وہ کے پی کے کے شیر دل جوان نہیں تھے، میں یہ سوال کرتاہوں کہ 2021 میں جب دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی تو اس وقت کس کے فیصلے پر بات چیت کے ذریعے آباد کیا گیا، کس نے ان کو طاقت اور دوام بخشا؟، یہ جو فیصلے جن کا ہم سب خمیازہ بھگت رہے ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے رکھوالے اور جوان ان فیصلوں کی لکھائی اپنے خون سے دھو رہے ہیں، یہ سوال بھی کرتاہوں کہ اگر کوئی فریق اپنی گمراہ سوچ اور اپنی مرضی مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کریں، اگر اس طرح کے ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو دنیا میں کوئی جنگ نہیں ہوتی، ہم یہ جاننا چاہیے کہ جو مسلمان ہے، محبت وطن شہری ہے، قربانی دینا اور جان دینا اس کا فخر ہوتاہے ، ہم اپنے ایمان ،وطن اور آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،
یہ جو تلخ حقیقت اور تجربہ جس سے ہم گزرے اس سے گزرنے کے بعد بھی کوئی سیاسی شخصیت یہ کہے تو ایسی شخصیت جو اس صلاحیت سے عاری ہو کہ وہ اپنی غلطی سے کچھ سمجھے، جو یہ سمجھتاہو کہ اسے ہر چیز کا مکمل علم ہے، ایسے رویوں کی قیمت پوری قوم اپنے خون سے چکاتی ہے اور ہم چکا رہےہیں، یہ جو نام نہاد بات چیت کی پالیسی تھی اس کا خمیازہ آپ اور ہم بھگت رہے ہین، یہ تکرار واضح کرتی ہے کہ 2021 میں کس نے ضد کی تھی کہ ان سے بات چیت کر کے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے گا، اس ضد کی قیمت پاکستان اور بالخصوص کے پی کے ادا کر رہاہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حساس معاملے پر سیاسی اور بیانیے اور کنفوژن نہ بنائیں، کے پی کے میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، گورننس کے خلاء کو شہداء کے خون سے پورا کررہے ہیں ، اس پر سیاست کھیلنے کی بجائے گڈ گورننس پر توجہ دی جائے، جس کی وجہ سے وہاں پر احساس محرومی اور دہشتگردی کے لیئے سہولت کاری ہو رہی ہے کیونکہ ہم نے وہ نہیں کرنا تو اس لیے اس پر سیاست کی جائے ، وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک ساتھ کھڑیں ہوں اور کہیں کہ دہشتگردی کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی۔