گوادر ملک فیروز خان نون کی کوششوں سے پاکستان کا حصہ بنا

گوادر ملک فیروز خان نون کی کوششوں سے پاکستان کا حصہ بنا
 گوادر ملک فیروز خان نون کی کوششوں سے پاکستان کا حصہ بنا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ ایک دہائی سے گوادر پورٹ کی تعمیر اور پاکستان کی معیشت پر اس کے اثرات کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بے شمار آرٹیکل /کالم اور مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے لئے بھی گوادر پورٹ ایک پسندیدہ موضوع ہے۔ گوادر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ساحلی علاقہ ہے۔ یہ کب اور کیسے پاکستان میں شامل ہوا اس بارے میں درست تاریخی حقائق سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک معروف شخصیت کی خودنوشت سوانح عمری "سچ کا سفر" میں بھی گوادر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بارے میں ذکر موجود ہے۔ اس کتاب سے ایک غلط فہمی اور تاریخی مغالطہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس کے ازالہ کے لئے اورتاریخ کے ریکارڈ کی درستگی کے لئے ہم اپنے قارئین کے سامنے متعلقہ تاریخی حقائق پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ گوادر کے الحاق کا ذکرکرتے ہوئے مذکورہ کتاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ :۔


"گوادر بنیادی طور پر سلطنت عمان (اومان) کا حصہ تھا۔ ایوب خان کی حکومت نے اسے 1958ء میں مسقط کے حکام سے خرید لیا جہاں تیل تھا اور نہ ہی پیسہ۔ گوادر کے قدیم قلعے کے سوا یہاں کچھ نہ تھا جہاں عمان(اومان) کے ایک سابق سلطان نے ایک جنگ لڑی تھی۔"
["سچ کا سفر" صفحہ نمبر145]


یہ بات درست نہیں ہے کہ ایوب خان کی حکومت نے مسقط کے حکام سے گوادر خریدا تھا۔ معروف لکھاری رفیع الزمان زبیری نے گزشتہ سال اپنے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا تھا کہ "فیروزخان نون نے گوادر کا ڈھائی ہزار مربع میل علاقہ (رقبہ) جو اس وقت مسقط کے قبضہ میں تھا پاکستان کو واپس دلانے کے لئے برطانیہ کو آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔" موجودہ نسل فیروزخان نون کی شخصیت سے واقف نہیں ہے۔زبیری صاحب کے بقول :۔ "ملک فیروز خان نون کو سرکاری حلقوں میں کوئی قابل یادبنگ سیاستدان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عام شہرت یہ تھی کہ وہ سیدھے سادے آدمی ہیں۔ پنجاب کے ایک مشہور انگریز پرست خاندان کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے ولایت میں تعلیم پائی اور انگریزوں کے منظورِ نظر ہوگئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے نئی دہلی میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے۔ 1945ء میں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنرتھے۔ 1946ء میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور مسلم لیگ کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیا۔ پنجاب کی صوبائی قانون ساز کونسل کے ممبر منتخب ہوئے، آزادی کے بعد وہ مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ تین برس اس عہدے پر رہے اور پھر ملک کے وزیرخارجہ بنے۔ 1957ء میں ملک فیروز خان نون کو پاکستان کا وزیراعظم مقرر کر دیا گیا۔"


"جب انہوں نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو سربراہِ حکومت کی ذمہ داریاں پوری تندہی سے ادا کیں۔ ان میں نہ قوتِ فیصلہ کی کمی تھی اور نہ ہی وہ کسی مسئلہ کو التواء میں ڈالنے کے قائل تھے۔ قومی مفاد کا معاملہ ہو تو وہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوتے۔ ان میں بڑی بڑی گُتھیاں سلجھانے کی صلاحیت تھی اور اس سے انہوں نے کام لیا۔"


الطاف گوہر نے اپنی کتاب "لکھتے رہے جنوں کی حکایت" میں گوادر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے متعلق لکھا ہے کہ:۔ "ملک (فیروزخان نون) صاحب نے برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ میکملن کو اس بات پر قائل کر لیا کہ گوادر کا دو ہزار چار سو مربع میل کا رقبہ پاکستان کو واپس کر دیا جائے، یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا اس لئے کہ گوادر مسقط کے قبضے میں تھا ور مسقط سے برطانیہ کا انتہائی قریبی تعلق تھا۔ گوادر کی واپسی کے معاملے کو ملک (فیروزخان نون) صاحب نے انتہائی خوبی اور دوراندیشی سے سلجھا دیا۔ آج گوادر اگر پاکستان کو واپس نہ مل چکا ہوتا تو مکران کے ساحل پر ہمارے دفاعی نظام کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔" [صفحہ نمبر177]


گوادر کے پاکستان سے الحاق کے بارے میں اب ہم ایک انتہائی اہم شہادت ملک فیروز خان نون کی خودنوشت داستانِ حیات "چشم دید" سے پیش کرتے ہیں:۔ "مجھے پاکستان میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ہیرالڈ میکملن اور لیڈی ڈورتھی کے خیرمقدم کا بھی شرف حاصل ہوا۔ مسٹر میکملن پاکستان کے بہت اچھے دوست ہیں۔ میں مسٹرمیکملن اور ان کے وزیر خارجہ مسٹر سلوِن لائیڈ کا ذاتی طور پر ممنون ہوں جنہوں نے گوادر کے معاملہ میں میرے ساتھ دوستانہ اعانت کا سلوک روا رکھا۔"


"ہمارے دور کی تاریخ گوادر کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گی۔ دو ہزار چارسو مربع میل کا یہ علاقہ (گوادر) پاکستان کو واپس مل گیا۔ لیکن اس کارنامہ پر نہ تو جشن منایا گیا اور نہ ہی اس کی قرارِ واقعی تشہیر کی گئی۔ میں نے برطانیہ اور صدر سکندر مرزا سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس موقع پر جشن وغیرہ نہیں منایا جائے گا کیونکہ اس طرح سلطانِ مسقط کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ تھا۔"


"پاکستان کے جنوبی ساحل پر پنتالیس (45) میل مشرق میں، جہاں ایران کی سرحد بحیرہ عرب سے ملتی ہے، گوادر کی بندرگاہ واقع ہے۔ مسقط کے ایک شہزادے نے 1781ء میں قلات کے حکمران کے یہاں پناہ لی تھی۔ قلات کا حکمران اس وقت ایک خودمختاربادشاہ تھا۔ اس بادشاہ نے گوادر کی سالانہ آمدنی جو چوراسی (84) "تنکا"(شاید چوراسی(84) روپے ) ہوتی تھی شہزادہ کی گزرِ اوقات کے لئے اس کے حوالے کر دی۔ بعد میں جب یہ شہزادہ مسقط کا بادشاہ ہوا تو اس نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور اسے قلات کے حوالے نہیں کیا حالانکہ اب وہ گوادر کی آمدنی کا محتاج نہ تھا۔ برطانیہ نے 1839ء میں قلات فتح کیا تو یہاں (گوادر) کے حاکم بن بیٹھے۔ قلات کے حکمران نے بعدازاں 1861ء میں گوادر کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ نے قلات اور مسقط کے درمیان مداخلت کی تاہم اس(برطانیہ) نے کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرنے سے احترازکیا۔ 1947ء میں پاکستان قائم ہوا تو حکومتِ پاکستان نے یہ مسئلہ ایک بار پھر اٹھایا اور 1949ء میں مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلہ کے بغیر ناتمام رہ گئے۔ جب میں (ملک فیروزخان نون) 1956ء میں وزیرِ خارجہ مقرر ہوا تو میں نے گوادر سے متعلق کاغذات طلب کئے اور اس قضیہ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد حکومتِ برطانیہ کے توسط سے سلسلہ جنبانی شروع کر دی۔ برطانیہ کے سامنے ایک مشکل کام آ پڑا تھا۔ ایک طرف دولتِ مشترکہ کا ایک رکن تھا ور دوسری طرف یارِ وفادار سلطان مسقط، جس کے ساتھ ڈیڑھ سو (150) سال کے گہرے مراسم تھے۔ ان دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ میری توقعات کا پارہ کبھی اوپر چڑھتا تھا اور کبھی نیچے گر جاتا تھا۔ ادھر گفت و شنید بدستور جاری رہی۔ یہاں تک کہ میں نے 1957ء میں وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔"


"میں نے اس قضیہ کی تاریخ میں پہلی بار یہ قانونی نکتہ اٹھایا تھا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ وہ ریاست کا ایک علاقہ ہے جسے ایک شخص کو اس لئے تفویض کیا گیا تھا کہ وہ ریاست کے واجب الادا ٹیکس وصول کرے اور اسے اپنی گزراوقات کے لئے تصرف میں لائے یا اس رقم کو اپنی تنخواہ قیاس کرے اس طرح کی امداد سے اقتدارِ اعلیٰ کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے پاکستان میں وہ ساری جاگیریں منسوخ کر دی ہیں جو بہت سے لوگوں کو برطانیہ سے اپنی خدمات کے صلہ میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بنا پر دی گئی تھیں۔ چونکہ گوادر بھی ایک جاگیر تھی لہذا اس کی تنسیخ بھی کی جاسکتی تھی اور اس علاقہ پر قبضہ بھی ممکن تھا میں نے اس دلیل کا تذکرہ اپنے کسی برطانوی دوست سے دھمکی کے طور پر نہیں کیا، تاہم یہ ایک قانونی نکتہ تھا جو عدالتی چارہ جوئی کی صورت میں ہمارے کام آسکتا تھا۔ برطانوی حکومت بڑے مخمصے میں پھنس گئی۔ اگر پاکستان کی فوج اس علاقہ پر قبضہ کر لیتی تو کیا برطانوی حکومت دولتِ مشترکہ کے اس ملک پر بمباری یا فوج کشی کر دیتی جس کی علامتی سربراہ خود ملکہ الزبتھ ہیں؟"


"پاکستان کا دولتِ مشترکہ میں رہنا اس کے لئے بہت سودمند ثابت ہوا۔ بصورتِ دیگر ہماری حالت مسقط اور اس کے ملحقہ علاقوں کے مقابلہ میں اومان(عمان) کے امام سے کچھ زیادہ بہتر نہ ہوتی اور ہمارے دعووں کو ایک غیرملکی طاقت کی دھمکی تصور کیا جاتا۔ برطانوی وزیراعظم مسٹر میکملن، وزیر خارجہ مسٹرسلون لائیڈ اور وزیر امورِ دولت مشترکہ لارڈہوم نے اس سارے معاملہ میں جو منصفانہ رویہ اختیار کیا اس کا مجھے تہہ دل سے اعتراف ہے۔ انہوں نے کسی بھی فریق پر دباؤ نہیں ڈالا۔ چنانچہ گوادر کی منتقلی نہایت خوش اسلوبی سے رُو بہ عمل آئی، قدرتی بات ہے کہ اس کا معاوضہ ادا کرنا پڑا لیکن جہاں ملک کی حفاظت اور اس کے وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں روپیہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔"
ملک فیروز خان نون کے بقول،" گوادر میں ماہی گیری کی صنعت سے جو ٹیکس وصول ہورہا ہے معاوضہ کی رقم اس کی چند برس کی آمدنی کے برابر ہوگی۔"


1958"ء میں جب میں لندن میں تھا تو ہمارے ہائی کمشنر اکرام اللہ نے گوادر کی منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میرے حوالے کی۔ اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا مجھے یوں محسوس ہوتا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتی ہے۔"


"گوادر سمگلروں کی جنت تھی۔ ہم نے جتنی رقم اس کے معاوضہ میں ادا کی ہے وہ چند ہی برسوں میں کسٹم کے محصول سے وصول ہو جائے گی۔ گوادر کے راستے سے سمگل ہونے والا سستا سامان اور سونا پہلے بلوچستان میں جگہ جگہ بکتا تھا۔ اب سمگلروں کی مجرمانہ سرگرمیاں اسی سمندر میں غرق ہو چکی ہیں۔ ہم اب خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اور سلطانِ مسقط کو بھی پاکستان جیسا زبردست دوست اور حلیف ملک مل گیا ہے۔"


[ملک فیروز خان نون کی خودنوشت سوانح عمری "چشم دید" صفحہ نمبر 410-414]


"سچ کا سفر" کے مصنف صدرالدین ہاشوانی نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر11پر "اظہارِ تشکر" کے زیر عنوان لکھا ہے کہ :۔ "میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے زندگی بھر کوئی کتاب نہیں پڑھی"۔ ان کا یہ اعتراف یقیناًحقیقت پر مبنی ہے۔ اگر انہوں نے کسی کتاب کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ اپنی خودنوشت سوانح عمری میں گوادر کے الحاق کے بارے میں خلاف حقیقت بات شامل نہ کرتے ،ویسے بہت سے لوگوں نے اس کتاب پر نظرثانی بھی کی ہے، انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے والوں کی توجہ بھی اس طرف نہیں گئی، ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ گوادر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعزازایک نیک نام اور دیانتدار سیاستدان سے چھین کر فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی کلغی میں لگانے کی کوشش نہ کریں۔ *

مزید :

کالم -