قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 80
میں نے اپنا فرض سمجھا کہ یہ شاعر ہیں اور ان کی خدمت کروں۔ پھر انہوں نے مجھے ایسے ایسے اشعار سنائے کہ میں دنگ رہ گیا۔ بہت اچھے اشعار تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان میں سے کچھ اشعار جوش کے تھے اور کچھ جگر صاحب کے ۔ بہرحال جب یہ میرے پاس مہمان ٹھہرے تو میں نے ان کی خوب خاطر مدارات کی۔ میرے پاس اپنی یعنی شادی کی جو فرکی لحاف تھی وہ میں نے انہیں دی۔ اس کے علاوہ اپنا سجاسجایا کمرہ بھی انہیں دے دیا۔ یہ اتنے غلیظ کہ نہاتے نہیں تھے۔
ہم صبح کے وقت انہیں جگاتے اور کہتے تھے کہ اختر صاحب صبح ہو گئی ہے تو یہ بستر سے ہاتھ نکال کرکہتے تھے کہ سگریٹ ۔ جیسے کوئی بادشاہ اپنے کسی ملازم سے کوئی چیز مانگتا ہے ۔ میں سگریٹ سلگا کر دیتا تھا۔ یہ سوئے سوئے بند آنکھوں سے سگریٹ پینے لگتے تھے۔ پھر سگریٹ پی کر آنکھیں کھولتے تھے اور کہتے تھے کہ پانی۔ میں پانی لاتا تھا تو یہ اس میں ہاتھ ڈبو کر گیلے ہاتھ کو آنکھوں پر مل لیتے تھے اور آنکھوں کو تولئے سے صاف کر لیتے تھے۔ یہ ان کی کل صفائی ہوتی تھی۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے بعد بستر ہی پر ان کے لئے چائے آجاتی تھی۔ یہ چائے پیتے تھے اور پھر یہ کلام سنانا شروع کر دیتے تھے ۔ ان کا کمال یہ تھا کہ پوری پوری چیزیں دوسروں کو سنا دیتے تھے۔ پھریوں کرتے تھے کہ کسی طرح مشاعرے میں چلے جاتے۔ حافظہ بہت کمال کا تھا۔ شعر سن لیتے تو لکھے بغیر ہی یاد کر لیتے۔ اگر کسی مشاعرے میں سولہ غزلیں پڑھی گئی ہیں تو جو کسی کی غزل کا اچھا شعر ہوتا تھا اسے یاد کر لیتے تھے۔ اس طرح ان اچھے اشعار میں سے آٹھ دس اشعار کی اپنی غزلیں نکال لاتے تھے۔ انہیں اتنی مشق تھی کہ مقطع خود بھی شامل کر لیتے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ طرحی مشاعرے کی سب غزلوں میں سے چنے ہوئے اشعار کی ان کی غزلیں بہت اچھی ہو گی۔ اس طرح وہ شاعری کرتے تھے۔
ایک واقعہ اس طرح ہوا کہ شیخوپورہ سے احمد ندیم قاسمی صاحب کے بارے میں ایک شخص نے کسی اور شہر میں مقیم اپنے دوست سے کہا کہ میرے پاس احمد ندیم قاسمی صاحب آکر ٹھہرے ہوئے تھے انہیں کچھ سمجھائیے وہ شراب بہت پیتے ہیں۔ وہ شخص قاسمی صاحب کو جانتا تھا۔ اس نے کہا کہ خدا خدا۔۔۔قاسمی صاحب شراب نہیں پیتے۔ وہ کہنے لگا کہ میرے پاس تو وہ تین چار دن ٹھہر کر گئے ہیں اور جا بے جا مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ شراب لا کر دو۔ اس نے پوچھا کہ شکل کیا تھی۔ اس نے کہا کہ لمبے لمبے بال تھے اور کلین شیو تھے اور گیروے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ا س زمانے میں قاسمی صاحب کی چھوٹی چھوٹی مونچھیں ہوتی تھیں۔ اس نے کہا کہ قاسمی صاحب کا تو یہ حلیہ ہی نہیں ہے ۔ وہ تو سوٹ پہنتے تھے اور عینک لگاتے ہیں ۔ پھر اس نے کہا کہ جو حلیہ تم نے بتایا ہے وہ تو اختر رضوانی کا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ وہی ہو گا لیکن یہاں تو وہ احمد ندیم قاسمی بن کر ٹھہر ا ہوا تھا۔
اسی طرح وہ کسی اور جگہ اختر رضوانی کی بجائے اختر شیروانی بن جاتے تھے۔ شادی تو کی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی بچے تھے ۔ آگے پیچھے بھی غالباً کوئی نہیں تھے۔ اسی لئے اس طرح گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ اختر رضوانی نے میرے ہری پور کے پہلے مشاعرے میں جو رباعی پڑھی تھی اور جو بہت ہٹ ہوئی تھی وہ کسی نے مشاعرے کی کارروائی میں لکھ کر قمر جلال آبادی کے پرچے ’’سٹار ‘‘ میں بھیج دی جو چھپ بھی گئی۔کارروائی میں لکھ کر قمر جلال آبادی کے پرچے ’’سٹار ‘‘ میں بھیج دی جو چھپ بھی گئی۔
تھوڑے دنوں بعد پشاور میں مشاعرہ ہوا تو اس میں لاہور سے اختر رضوانی اور قمر جلال آبادی شریک ہوئے تھے۔ ہری پور سے میں گیا ہوا تھا ۔ ہم پشاور ریلوے سٹیشن پر ایک ساتھ اترے کیونکہ میں ٹیکسلا سے سوا ر ہوا تھا۔ جب ہم پشاور اترے تو ایک شخص نے آگے بڑھ کر اختر رضوانی کو گریبان سے پکڑ لیا اور کہا کہ تم نے میرے استاد کی رباعی اپنے نام سے کیوں پڑھی کیونکہ یہ تو میرے استاد ضیاء جعفری کی رباعی تھی۔ یہ کہنے لگے کہ میں نے تو یہ رباعی نہیں پڑھی تھی۔ وہ شخص مجھے کہنے لگا کہ جی اس مشاعرے کی کارروائی آپ نے لکھی تھی۔ میں نے کہا کہ ہاں میں نے لکھی تھی۔ اختر صاحب کا تکیہ کلام تھا آپ کے خلوص کی قسم۔ کہنے لگے کہ آپ کے خلوص کی قسم قتیل صاحب کو مغالطہ ہوا ہے۔ میں نے تو کہا تھا کہ استاد گرامی حضرت ضیاء کی رباعی پہلے عرض کرتا ہوں۔ پھر اپنا کلام سناؤں گا اور میں نے یہ رباعی ان کا نام لے کر پڑھی تھی ۔ خیر اس طرح یہ جھگڑا ختم ہوا۔
آگے ہم گئے تو رات کو مشاعرے میں قمر جلال آبادی نے کوئی چیز پڑھی تو کھسر پھسر شروع ہو گئی اور لوگ انہیں داد نہیں دے رہے تھے۔ بعد میں لوگوں نے کہا کہ یہ جو قمر جلال آبادی ہے یہ تو ختر رضوانی کی غزل پڑھ گیا ہے ۔ ہوا یہ تھا کہ اس مشاعرے میں کوئی دو چار ماہ پہلے اختر رضوانی یہاں پر ایک اور مشاعرے میں آئے تھے اور قمر جلال آبادی کی یہی غزل اپنے نام سے پڑھ گئے تھے۔ اب قمر صاحب نے جب اپنی ہی غزل پڑھی تو لوگ انہیں چور سمجھے ۔ جب ہمیں اس سارے واقعے کا علم ہوا تو ہم نے اختر صاحب سے کہا کہ اختر صاحب یہ آپ نے کیا کیا۔ تو کہنے لگے کہ آپ کے خلوص کی قسم میں نے تو قمر صاحب کا نام لے کر اپنے کلام سے پہلے ان کی غزل پڑھی تھی کیونکہ میں ہمیشہ اپنے کلام سے پہلے اپنے بزرگ دوستوں کا کلام پڑھتا ہوں اور اس طرح کبھی کبھی مغالطہ بھی ہو جاتا ہے ۔
پارٹیشن ہو گئی تو بہت لطیفے ہوئے۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان بننے کا نقصان بھی ہوئے لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے انڈیا سے ایک بدلہ لے لیا اور وہ یہ کہ ہم نے اختر رضوانی انڈیا کو دے دیا تا کہ اب وہ اسے بھگتیں۔
ایک بار جالندھری میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ میری بیوی بھی میرے ساتھ تھی۔ یہ 1950 ء کے بعد کا واقعہ ہے ۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ اختر رضوانی ابھی زندہ ہے ۔ اس وقت اختر رضوانی خود کہنے لگے تھے اور رباعی بہت پختہ کہہ رہے تھے۔ مشرقی پنجاب کی حکومت نے ان کا کچھ وظیفہ بھی مقرر کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے وہاں کے ایک دو مجسٹریٹوں کو بھی گانٹھ رکھا تھا جو انہیں کھلاتے رہتے تھے۔
جب میں وہاں گیا تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ شخص جو دوسروں سے خود ہمیشہ کھاتا ہی رہتا ہے اس نے قتیل شفائی کے اعزاز میں دعوت کیسے کر دی۔ انہوں نے اس مشاعرے کی صدارت اس مجسٹریٹ سے کروائی۔ اس سے پیسے بھی خرچوائے اور سوپچاس آدمیوں کو بلوا کر میرے اعزاز میں دعوت دی۔ اس دعوت میں لوگ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے ۔ جو یہ شخص آپ کے اعزاز میں دعوت کر رہا ہے۔ ہر چند کہ اس نے اس دعوت پر کسی اور ہی سے پیسے خرچ کروائے ہیں لیکن پھر بھی یہ شخص کبھی کسی سے مروت نہیں کرتا ۔ مگر مجھے جواب دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ اختر رضوانی نے خود ہی سب کو بتا دیا تھا کہ میں ان کے پاس جا کے رہتا تھا اور ہری پور میں ان کے ہاں اکثر قیام بھی کیا تھا۔
ان کا اور قاسمی صاحب کا ایک واقعہ ہے کہ قاسمی صاحب پنڈی کے امپیریل سینما میں بیٹھے ہوئے تے جہاں پر ایک مشاعرہ ہو رہا تھا۔ یہ پارٹیشن سے پہلے کی بات ہے اور یہ آل انڈیا مشاعرہ تھا۔ میں بھی اس مشاعرے میں شریک تھا اور اختر رضوانی بھی میرے پاس بیٹھے تھے۔ قاسمی صاحب کی باری چونکہ بعد میں آنی تھی۔ اس لئے جب اختر رضوانی کی باری آئی تو یہ گئے اور سٹیج پر جا کر قاسمی صاحب کے بیٹھے ہوئے ہی ان کے قطعے پڑھ کر واپس آگئے۔ جب یہ واپس آئے تو میں نے کہا کہ اختر یار کچھ شرم کرو۔ یہ قطعے تو قاسمی صاحب کے ہیں ۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے کہ میں بھی قاسمی صاحب ہی کا ہوں۔ میں نے کب کہا کہ یہ قطع میرے ہیں۔
حافظ عنصر لدھیانوی قیام پاکستان کے بعد لدھیانہ سے ہجرت کر کے پشاور میں آکر مقیم ہوئے۔ یہ ایک نابینا شاعر تھے اور اپنے نابینا ہونے کے مضامین انہوں نے اکثر مقطعوں میں باندھے تھے۔ آواز بھی اچھی تھی اور کلام بھی اچھا تھا۔ خاص طور پر جب ان کی بینائی کے حوالے سے کوئی شعر آتا تھا تو وہ متاثر کرتا تھا۔ انسان کے نفسیاتی معاملات عجیب ہوتے ہیں۔ وہ دیکھ تو سکتے نہیں تھے لیکن انہیں شوق تھا کہ جس مشاعرے میں خواتین ہوں وہاں یہ ضرور جاتے ۔ اب اس بات کی سمجھ تو آتی ہے کہ ان کی آواز ان کے کان میں پڑتی ہو گی اور یہ لطف اندوز ہونے کے لئے جاتے ہوں گے ۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ جس مشاعرے میں میں ہوتا تھا تو یہ مجھ سے کہتے تھے کہ یار قتیل ! آج فوٹو ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ کسی اور شاعر سے بھی اس طرح کہتے ہوں لیکن مجھ سے ہمیشہ کہتے تھے۔ جب میں کہتا تھا کہ ہاں فوٹو بھی ہو گی تو کہتے تھے کہ منور سلطانہ اور بسمل صابری وغیرہ کو میرے آس پاس کھڑا کر کے تصویر اتروادیں۔ تو میں یوں ہی کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں لڑکیوں سے بھی کہہ دیتا تھا کہ حافظ صاحب آپ کے ساتھ تصویر اتروانا چاہتے ہیں تو وہ بھی لطف اندوز ہوتی تھیں اور ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہت جڑ کر تصویر بنواتی تھیں۔ حافظ صاحب فوٹو گرافر کو خاص طور پر تصویر اور رجسٹری کے پیسے اور اپنا ایڈریس دیتے تھے تاکہ وہ اس ایڈریس پر ان کی تصویر بھیج دے۔
اب حافظ صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اگر ان کے گھر میں ان کا البم دیکھا جائے تو بہت سی تصاویر بتاں ضرر ملیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں سے حسینوں کے خطوط شاید نہیں مل سکیں گے۔ اللہ بخشے بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ اب بھی وہ یاد آتے ہیں تو احباب مل کر ان کا ذکر کر لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حافظ صاحب کے ساتھ وہ تصویر اتروائی تھی اور سناؤ وہ اب کبھی خوابوں میں آئے۔ تو یوں ان کی باتیں یا د کر کے قہقہے لگا لیتے ہیں ۔ سنا ہے کہ ان کے صاجزادے ان کا مجموعہ کلام اب چھپوا رہے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے ۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 81 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں