قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 81

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 81
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 81

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں یہ بات کہنا بھول گیا کہ حافظ صاحب اندھا ہونے کے باوجود سکول چلاتے تھیاور خود بھی کلاس لیتے تھے ۔ وہ ایک اچھے استاد کے فرائض انجام دیتے تھے اور تنخواہ بھی اچھی لیتے تھے۔ انہوں نے اپنی معذوری کو مجبوری بننے نہیں دیا تھا۔
وہ جس میدان میں بھی جاتے تھے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ تے چلے جاتے تھے ۔ چنانچہ جب شادیوں کے میدان میں گئے تو موصوف نے وہاں بھی کامیابی کا مظاہرہ کیا اور تین شادیاں بھی کیں۔ جہاں اچھے خاصے بینا لوگ اپنے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تھے حافظ صاحب وہاں اپنے حقوق کا تحفظ کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے لئے بہت اچھا مکان الاٹ کروایا تھا اور خود آگے بڑھ کر یہ سارا کام کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے مہاجر ہونے کے استحقاق پر جو دوسری مراعات لی ہیں اور ان کی تعداد خاصی تھی اوریہ سب کام وہ تن تنہا کیا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ان کے ملنے والوں میں کوئی آفیسر ہوتا تو وہ اس کی مدد بھی لے لیا کرتے تھے ۔ لیکن آفرین ان پر کہ انہوں نے مرتے دم تک ایک فعال شوہر ‘ فعال عاشق‘ فعا ل باپ اور فعال مقدمہ باز کے طور پر زندگی گزاری ۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 80  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تائب رضوی
آج کل مشاعروں کی وہ کثرت نہیں ہے جو ماضی میں تھی بلکہ یوں سمجھئے کہ ماضی کے مقابلے میں آج کل مشاعرے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ پھر خالص ادبی مشاعرے تو تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ اب مشاعرہ یا تو قوم آزادی پر 14 اگست کو ہتا ہے یا عیدمیلادالنبیﷺ یا ماہ رمضان کے دوران نعتیہ مشاعرہ ہوتا ہے ۔ یا پھر محرم الحرام میں مسالمے کے سلسلے میں مشاعرہ ہوتا ہے ۔ دوسرے خالص ادبی مشاعرے گزشتہ گیارہ سال کے مارشل لاء کی نذر ہو گئے کیونکہ اس دوران خاصی پابندیاں لگا دی گئیں اور ہر چیز کو اس اسلام کی کسوٹی پر تولا جانے لگا جو جنرل ضیاء کا اسلام تھا اور جنرل ضیاء کا اسلام یہ تھا کہ مولویوں کو انہوں نے فتوے بازی کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ یہ لوگ اگر چاندنی نکلی ہو تو اس کا تجزیہ بھی کر لیتے تھے کہ یہ چاندنی اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ اسی طرح یہ رویہ مشاعروں کے سلسلے میں بھی رہا۔ اس کا آغاز تو یہاں سے ہوا کہ عورت کو دفتروں میں کام کاج نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کا کام صرف چولہے میں آگ جھونکنا یا گھریلو کام ہے ۔ اس لئے وہ جہا ں جہاں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر سکتی ہے وہاں پابندی ہونی چاہئے کیونکہ یہ ان کے اسلام کے خلاف ہے۔
یہی صورت مشاعروں کے سلسلے میں بھی ہوئی۔ جب ادبی مشاعرے ہوا کرتے تھے تو ان میں خواتین بھی آیا کرتی تھیں اور صحت مند ادبی میلانات بڑھ رہے تھے۔ ایک تہذیبی و ثقافتی سلسلہ آگے بڑھ رہا تھا۔ اس وقت ہیروئن رائج نہیں تھی۔ یہ تو مارشل لاء کے دور کی برکت تھی کیونکہ جب زندگی میں دلچسپی کی کوئی چیز نہ رہ جائے تو لوگ اپنی توجہ دوسری چیزوں کی طرف کر لیتے ہیں اور ہوتے ہوتے خطرناک چیزوں کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ جب مشاعرے اور موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں تو لوگوں کے ذہن ان کی طرف لگے رہتے تھے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں چیزوں سے ذہنی بالیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان بہت سے بڑے کاموں سے بچ جاتا ہے ۔ اگر اوپن تھیٹر میں مشاعرہ ہے اور وہ رات دو بجے تک رہتا ہے تو وہ وہاں محورہے گا۔ اسی طرح اگر میوزک کانفرنس ہورہی ہے تو وہ ہیرا منڈی جانے سے بچ جائے گا۔
خیر یہ الگ بحث ہے ۔ میں ذکر کر رہا تھا کہ اس زمانے میں شاعرات مشاعروں میں شامل ہوتی تھیں اور بڑے بھائی چارے کا ماحول تھا۔ لیکن بعض پہلوؤں سے دلچسپ رومانوی منظر بھی سامنے آگئے تھے۔ میں نے ایک شاعر کو دیکھا ۔ خدا مجھے معاف کرے ان کا حلیہ بیان کر رہا ہوں مگر اس نیت سے نہیں کہ ان کی تضحیک ہو۔ ان کا نام تائب رضوی تھا۔ وہ کبڑے تھے اور ان کے جسم میں کب بہت نمایاں تھا اور وہ کمان کی طرح تھے۔ قد چھوٹا تھا۔ ان کے بارے میں سننے میں آتا تھا کہ وہ ایک طرفہ طور پر خواتین پر فریفتہ ہو جایا کرتے تھے ۔ یقین نہیں آتاتھا۔ ایک روز ایس ہوا کہ اس زمانے کی بہت خوبصورت شاعرہ خورشید راٹھور ان کے سامنے آگئیں۔ یہ شاعرہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کا جوانی کا سماں کوئی کیا بیان کرے۔ بالکل ایسے تھیں جیسے ہیر۔ اس طرح قد کاٹھ ‘ نین نقش وغیرہ تھے۔ تو معلوم ہوا کہ نائب رضوی صاحب خورشید راٹھور پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ سن کر ہنسی آئی کیونکہ خورشیدراٹھور کی شہرت اپنے کالج کے زمانے سے ہی تھی کہ کوئی شخص ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ایک آدھ بار کسی لڑکے نے جسارت کی تو خورشید نے دیال سنگھ کالج میں جہاں یہ طالبہ تھی اس لڑکے کے منہ پر تھپڑ مار دیا تھا۔ انہوں نے ایم اے وہیں سے کیا تھا۔ چنانچہ ان کی وہیں سے دھاک بندھی ہوئی تھی اور پھر یہ اپنے زمانے کی کشتی رانی کی چیمپئن تھیں۔
یہ تو خیر سو چاہی نہیں جا سکتا تھا کہ خورشید کو معلوم ہو کہ تائب صاحب ان کا پیچھا کر رہے ہیں اور یہ اپناردعمل ظاہر نہ کریں۔ بعد میں اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی کہ انہیں تو اس بات کا پتا ہی نہیں تھا اور تائب صاحب یکطرفہ طور پر دل دیئے بیٹھے تھے۔ یہ سننے کے بعد حیرت ہوئی ۔ خورشید کے گھر میں کچھ شاعرات کا آنا جانا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے گھر میں کچھ شعراء کا بھی آنا جانا تھا مگر یہ دوستی ادبی دوستی تھی۔ ایک فعہ میں ان کے ہاں جا رہا تھا اور میرے ساتھ حافظ لدھیانوی تھے جنہوں نے خورشید راٹھور کو اپنی منہ بولی بہن بنا رکھا تھا۔ یہ واقعہ 1965 ء کا ہے جبکہ اس سے پہلے سے ہم تائب صاحب کے بارے میں سنتے آرہے تھے ۔ اس وقت جنگ ختم ہو چکی تھی۔
ہم جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ تائب صاحب پہلے سے وہاں گھوم رہے تھے اور خورشید راٹھور کا مکان ڈھونڈ رہے تھے۔ ہم نے پوچھا تائب صاحب کیسے گھوم رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ خورشید راٹھور کا گھر ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں نے کہا خیر ہے ۔ کہنے لگے کہ جنگ چھڑی تھی تو میں اب ان کی خیریت دریافت کرنے کیلئے آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ باہر سے دیکھ لیجئے۔ اس محلے پر کوئی بم نہیں گرا اور اگر اس محلے پر کوئی بم نہیں گرا تو ظاہر ہے کہ وہ خیریت ہی سے ہوں گی ۔ کہنے لگے کہ پھر بھی پوچھ لینا اچھا ہوتا ہے ۔خیر ہم سب ایک ساتھ ان کے گھر چلے گئے۔
حکیم تائب رضوی کی حالت اس وقت دیکھنے کے قابل تھی۔ ان کی بات تو یہ تھی کہ :
تجھ کو بٹھا کے سامنے یاد خدا کریں
وہ سب کی نظر بچا کر خورشید کے چہرے کی طرف دیکھتے چلے جا رہے تھے اور ان کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس چلے گئے جبکہ میں اور حافظ لدھیانوی وہیں بیٹھے رہے۔ باتوں باتوں میں خورشید ہی نے کہا کہ کیا کریں ۔ بیچارے آجاتے ہیں اور کچھ دیر بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں انہیں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں ۔ ہم نے کہا کہ کوئی بات نہیں ‘ دیکھ لیتے ہیں اور دل کی تپش بجھا کر چلے جاتے ہیں ۔ ان کی بات وہی ہے:
زیر دیوار کھڑے ہیں تیرا کیا لیتے ہیں
کہنے لگیں کہ مجھے تو بس یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ اپنی جگہ پر پختہ نہ ہو جائیں کیونکہ بال بچے دار آدمی ہیں۔ یہ ان کے اپنے حق میں ٹھیک نہیں ہے۔
بڑھتے بڑھتے بات یہاں تک بڑھی کہ لوگ حکیم صاحب سے مذاق سے پوچھ لیتے تھے کہ حکیم صاحب بمباری میں خورشید راٹھور محفوظ رہیں ۔ انہیں بالکل سمجھ نہیں آتی تھی کہ لوگ ان کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں اور وہ الٹا جواب دیتے تھے کہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ایک دن خورشید راٹھور نے خود ہمیں یہ لطیفہ سنایا کہ حکیم تائب رضوی خود میرے گھر میں آئے ۔ ان کے ہاتھ میں کسی اخبار میں چھپا ہوا ایک مضمون تھا اور کہنے لگے ’’ خورشید میں ایک خوشخبری سنانے آیا ہوں کہ امریکہ میں ایسے آپریشن ہونے لگے ہیں کہ جسم خواہ کتنا ٹیڑھا ہو اور کب کتنا ہی بڑا کیوں نہ وہ لوگ آپریشن کر کے انسان کو بالکل سیدھا کر دیتے ہیں‘‘
خورشید نے کہا ’’ میں یہ بات سن کر ہکی بکی رہ گئی کہ یہ مجھے کیا خوشخبری سنا رہے ہیں لیکن ایک لمحے میں مجھے محسوس ہو گیا کہ وہ مجھے تسلی دے رہے تھے کہ تم فکر نہ کرو میں ٹھیک ہو جاؤں گا‘‘ پھر اس کے پیچھے جو لمبی چوڑی ٹریجڈی تھی اس پر وہ بھی افسوس کرنے لگی ۔
حافظ عنصر اور حکیم تائب کی داستانیں تقریباً ملتی جلتی ہیں۔(جاری ہے)

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 82 پڑھنے کیلئے یہاں کریں