قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 79

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 79
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 79

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ٓادیبوں اور شعراء کے لطائف جو کچھ ذہن میں رہ گئے ہیں ،ان میں مولانا تاجور کے لطیفے بھی شامل ہیں۔ جو جس نے بھی گھڑے اس نے مولانا تاجور کو بھی سنائے تھے۔ مولانا بھی یہ لطیفے سن کر بہت ہنسے تھے اور پھر کہتے تھے کہ یار یہ لطیفہ کس نے گھڑا ہے ۔ ذرا اس سے ملاؤ۔ مولانا بہت موٹے اور لحیم شحیم تھے۔ ان کا پیٹ بھی بہت نکلا ہوا تھا۔ ان کے بارے میں ایک لطیفہ یہ تھا کہ ایک بار انہیں چوک لکشمی سے لوہاری دروازے جانا تھا۔انہوں نے تانگے والے کو روکا۔ اس زمانے میں یہاں سے وہاں تک ایک آنہ کرایہ ہوتا تھا اور اگلی اور پچھلی نشست پر تین سواریاں بٹھائی جاتی تھیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کتنے پیسے لو گے ۔ تو اس نے کہا چھ آنے۔ یہ کہنے لگے کہ ایک پھیرے کے کل تین آنے ہوتے ہیں تم کیوں چھ آنے مانگ رہے ہو۔ اس نے کہا کہ جناب آپ کو تو دو پھیروں میں لے جانا پڑے گا۔
ان کے بارے میں دوسرا لطیفہ یہ ہے کہ ایک بار درزی کے ہاں شیروانی کا ناپ دینے کیلئے گئے۔ درزی نے انچی ٹیپ لیا اور اس کا سرا مولانا کی ناف پر رکھ کر ان سے کہا کہ مولانا آپ ذرا یہاں پر ہاتھ رکھئے اور میں دوسری طرف سے گھوم کر آتا ہوں۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مولانا کے علاوہ شیر محمد اختر بھی بہت دلچسپ آدمی تھے۔ وہ نوائے وقت والوں کے رسالے ’’قندیل ‘‘ کے ایڈیٹر ہوتے تھے۔ ان کے بارے میں بھی دو لطیفے ہیں ۔ پہلا لطیفہ یوں ہے کہ انہوں نے حمید نظامی کو ایک رقعہ لکھا اور چونکہ ہکلے تھے اور بات بہت اٹک اٹک کر کرتے تھے اس لئے انہوں نے نظامی صاحب کو رقعہ لکھا اور اس میں لکھا کہ نظامی صاحب مجھے آپ سے دو منٹ کی بات کرنی ہے ازراہ کرم دس منٹ عنایت کئے جائیں ۔ دوسرا لطیفہ یہ تھا کہ وہ ایک بار جہاز میں بیٹھے تھے اور جہاز کا عملہ ہدایات جاری کر رہا تھا کہ اگر حادثہ ہو تو آپ یوں کریں۔ آخری شکل یہ ہے کہ آپ لائف جیکٹ پہن کر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر تین تک گن کر نیچے چلانگ لگا دیں۔ ان کی سمجھ میں بات نہ آئی تو انہوں نے اس آدمی کو بلایا جو ہدایات دے رہا تھا اور اس سے ہکلا کر پوچھا کہ کتنے تک گننا ہے ۔ اس نے کہا کہ آپ صرف ایک ہی گن کر چھلانگ لگا دیں۔
یہ تو چھوٹے چھوٹے لطیفے ہوئے۔ جیسا میں نے علامہ انور صابری کے کردار اور ان کی دلچسپ زندگی کے بارے میں عرض کیا ہے ۔ اسی طرح ایک اور کریکٹر تھے جن کا نام اختر رضوانی تھا۔ آج کل کے لوگ بالکل نہیں جانتے لیکن قیام پاکستان سے پہلے ان کا ڈنکا بجتا تھا کیونکہ پورے ہندوستان میں کوئی شہر ایسا نہیں تھا جہاں ان کی سواری نہ جاتی ہو۔ ان کا نام ستیہ پال تھا اوروہ جالندھر سائیڈ کے رہنے والے تھے۔ لمبے لمبے بال تھے جیسے ٹیگور کے بال تھے ۔ کلین شیو تھے اور عام طور پر گیروے کپڑے پہنتے تھے۔ وہ زیادہ تر غزل اور رباعی کہتے تھے اور اپنے آپ کو رئیس الترنم بھی لکھتے تھے۔ پھر شیدائے غم بھی آپنے آپ کو لکھتے تھے۔ ان کی شکل و صورت بالکل درویشوں جیسی تھی۔ ان کا کام یہ تھا کہ جس کے پاس بھی چلئے گئے ہیں ڈیرے جما دیئے۔ کسی کے بارے میں جو لطیفہ تھا کہ جب وہ کسی کے ہاں مہمان ٹھہرا تو ایک مہینہ گزرنے کے بعد صاحب خانہ نے پوچھا کہ آپ پھر کب آئیں گے تو مہمان نے کہا کہ پھر بھی انشاء اللہ آؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ پھر نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جی آپ کو یہ شبہ کیوں ہوتا ہے کہ میں پھر نہیں آؤں گا۔ کہنے لگے کہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ آپ اگر جائیں گے تو آئیں گے ۔ تو بالکل یہی حال اختر رضوانی کا بھی تھا۔
اختر رضوانی کے بارے میں بھی یہ مشہور ہے کہ جب وہ کسی کے ہاں مہمان بن کر جاتے تو اتنا لمبا قیام کرتے کہ جب یہ کبھی تھوڑی دیر کیلئے گھر سے باہر جاتے تو اہل خانہ تالہ لگا کر خود بھی کسی اور کے گھر چلے جاتے اور چار پانچ دن وہیں قیام کرتے۔ تب کہیں اختر رضوانی جاتے تھے۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ جس شہر میں بھی جانا ہوتا وہ اندازہ کر لیتے تھے کہ اس شہر میں آپ کے دوست کون کون سے ہیں۔ پھر آپ ان کے نام خط لکھا دیتے تھے کہ اختر رضوانی ایک بہت بڑے شاعر ہیں۔ یہ آپ کے پاس آئیں گے ان کاخاص خیال رکھیئے گا۔ اس طرح یہ مختلف لوگوں کے ہاں مہمان بنے رہتے تھے۔
یہ سگریٹ بہت پیتے تھے اور انتہائی غلیظ آدمی تھے۔ جب یہ میرے ہاں گئے تو میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ میں نے اس زمانے میں خیالی شاعر کا جو تصور سنا تھا یہ بالکل ویسے ہی تھے۔ یہ مجھے بہت بہت بڑے شاعر نظر آئے اور میں نے ان کی تواضع کی۔ یہ میرے پاس اس طرح آئے کہ میں نے ہری پور کی تاریخ میں جب پہلا مشاعرہ منعقد کروایا تو اس میں نفیف خلیلی‘قمر جلال آبادی اور انہیں بلوایا تھا۔ وہ دونوں شریف آدمی تو واپس اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن یہ میرے ہاں ہی ٹھہر گئے۔(جاری ہے)

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 80 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں