شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 54
معاصرین علماء اور مشائخین کے تاثرات
آزاد کشمیر کے مایہ ناز عالم دین علامتہ الدہر حضرت مولوی محمد عبد اللہ لدڑوی فرمایا کرتے تھے کہ آپ کو علم لدنی حاصل ہے اور آپ حضرت خضر علیہ السلام سے فیض یافتہ ہیں۔ منشی ناصر الدین فرماتے تھے کہ حضرت میاں محمد بخشؒ حضرت سرکار بحر العلوم قدس سرہ کی زیارت کیلئے اکثر تشریف لاتے رہتے تھے ۔آپ کا معمول تھا کہ آپ حضور کا بے حد ادب کرتے تھے۔ ایک بار جب آپ حضرت بحر العلوم کی خدمت میں آئے تو آپ نے حضور کی خدمت میں التماس کی کہ اپنے فرزند ارجمند کو ارشد فرمائیں کہ وہ میرے لئے دعا کریں۔ چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق آپ نے دعا فرمائی اور حضرت میاں صاحب علیہ الرحمت نے آپ کی خدمت میں نہایت مودبانہ ہو کر نذرانہ پیش کیا۔ کریم بخش نمبردار آف چکسواری شریف نے بیان کیا تھا کہ یہ واقعہ اس کے روبرو ہوا تھا۔
قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چودھری فقیر محمد آف چک سواری نے بیان کیا تھا کہ جب حضرت میاں صاحب (عارف کھڑی شریف) تشریف لائے تھے میں اس وقت موقعہ پر موجود تھا۔ حضرت میاں صاحبؒ پا برہنہ تھے۔ آپ سرکار بحر العلومؒ کی قدم بوسی کرنے کے بعد ایک چٹائی پر بیٹھے تھے۔ آپ کے ساتھ تین اور درویش تھے ۔میرے علاوہ سائیں اللہ دتہ آف سسرال، میاں شرف دین لوہار، غلام حسن اور چودھری شرف دین آف سسرال بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ حضرت میاں صاحب تھوڑی دیر وہاں ٹھہر کر پنجن کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔
حلیہ مبارک
حضرت قطب الاقطابؒ نہایت خوبصورت تھے۔ روشن چہرہ آنکھیں جلال ولایت سے لبریز جن میں قدرتی سرخی تھی۔ قد مناسب ،فراخ پیشانی پر نور ولایت نمایاں نظر آتا تھا۔ باریک ہونٹ، دانت مبارک سفید موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ سر پر زلفیں رکھی ہوئی تھیں ۔ڈاڑھی مبارک نہایت خوبصورت۔ مشت سے کچھ زیادہ تھی۔ آپ کے ہونٹوں پر ہر وقت تبسم کی کیفیت معلوم ہوتی تھی۔ آخری عمر میں آپ کی ریش مبارک اور زلفیں سفید تھیں۔ کبھی کبھی آپ مہندی بھی لگاتے تھے ۔آپ کے بال مبارک باریک تھے۔
لباس
حضرت قطب الاقطاب قدس سرہ بڑے سادگی پسند تھے ۔آپ کا لباس بالکل سادہ ہوتا تھا۔ تکلف اور تصنع سے آپ کو بڑی نفرت تھی۔ آپ ہمیشہ تہ بند اور قمیض پہنتے تھے۔ زندگی بھر پاجامہ اور شلوار کا استعمال نہیں کیا۔ آپ کی قمیض مبارک طریزوں والی ہوتی تھی۔ سر پر پگڑی باندھاکرتے تھے۔ آپ نے تمام عمر میں گرگابی صرف ایک دفعہ استعمال کی ہے۔ آپ عام طور پر دیسی طرز کا چمڑے کا جوتا استعمال کرتے تھے، جو محمد ہاشم کفش دوزآف برنالہ تیار کیا کرتا تھا۔ آپ نے زندگی بھر رنگدار کپڑا نہیں پہنا۔ آپ کا لباس سفید رنگ کا ہوتا تھا۔ سردیوں میں عام چادر کے علاوہ اونی لوئی یا بھورا بھی اوڑھتے رہتے تھے۔ آپ نے ریشمی کپڑا کبھی نہیں پہنا۔ آپ کا لباس دیسی کھدر یا لٹھے کا ہوتا تھا آپ پگڑی بغیر مایاں کے باندھتے تھے۔
طبابت
حضرت قطب الاقطاب بیماروں کا علاج معالجہ بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کا یہ دستور تھا کہ مریضوں کیلئے نہایت کم قیمت اور سہل الحصول نسخہ تجویز کرتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے آپ کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی ہوئی تھی۔ اکثر مایوس العلاج مریض آپ کے علاج سے شفایاب ہو جاتے تھے۔ آپ علاج معالجہ کے عوض کوئی فیس نہیں لیتے تھے، کشتہ ابرک سفید، کشتہ شنگرف، کشتہ فولاد، کشتہ ہڑتال ورقی اور چند دیگر زوداثر دوائیں تیار کر کے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے اور یہ دوائیں بیماروں کو آپ مفت عنایت کیا کرتے تھے۔
موضع چک سواری شریف، نگیال، سسرال، گوند، دولیا جٹاں اور تھاتھی کے لوگ بیماری کے وقت آپ ہی سے علاج کرواتے تھے۔ یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ طبابت آپ کا ذریعہ معاش نہیں تھا بلکہ آپ نے عمر بھر اس فریضہ کو بطور خدمت خلق سرانجام دیا۔
علاج مارگزیدہ میں علاقہ بھر میں آپ کی بڑی شہرت تھی۔ آپ ایسے مریضوں کا علاج صرف دعا سے کرتے تھے اورکوئی دوا وغیرہ استعمال نہیں کراتے تھے۔ آپ کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ مارگزیدہ کی اطلاع آپ کو پہنچ گئی ہو اور مریض جانبر نہ ہوا ہو۔
قبولیت عامہ
حضرت قطب الاقطابؒ کی ولایت اور بزرگی کا شہرہ آپ کی زندگی میں ہی دور دور تک پھیل گیا تھا۔ چکسواری شریف اور اس کے مضافات کے لوگوں کا یہ معمول تھا کہ وہ بیماری اور تکالیف کے وقت آپ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
کشف و کرامات
حضرت قطب الاقطاب قدس سرہ سے ہزاروں کرامات کا صدور ہوا۔
وسعت علم
حضرت قطب الاقطاب نے اگرچہ بظاہر صرف پنجابی زبان میں فقہ کی چند کتابیں ہی پڑھی تھیں لیکن آپ کو علم لدنی حاصل تھا۔
شعر و شاعری
حضرت قطب الاقطاب قدس سرہ پنجابی زبان کے بڑے قادر الکلام شاعر تھے لیکن طبعاً آپ کی توجہ شعر و شاعری کی طرف مائل نہیں تھی۔ اس لئے آپ نے زیادہ اشعار نہیں لکھے۔ آپ کی تصانیف سے شجرہ شریف نوشاہیہ، سہ حرفی نوشہ گنج بخش اور ایک مکتوب منظوم آپ کی یادگار کے طور پر دربار نوشاہی ڈوگہ شریف میں موجود ہیں۔
آپ کی تصانیف
حضرت قطب الاقطاب کی مندرجہ ذیل تصانیف موجود ہیں۔ ملفوظات حضرت بحر العلوم۔ شرح صدری مسئلہ۔ شجرہ شریف نوشاہیہ۔ سہ حرفی حضرت نوشہ گنج بخش مجربات قادریہ۔ آداب طریقت۔
وفات حضرت قطب الاقطاب
قطب الاقطاب حضرت سید چراغ محمد شاہ قدس سرہ نے مورخہ 16 ربیع الثانی 1366 10/9 مارچ 1947ء کی درمیانی شب میں چار بجکر دس منٹ پر تین بار باآواز بلند کلمہ شریف پڑھ کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار مبارک گورستان نوشاہیہ چک سواری شریف ضلع میرپور میں حضرت بحر العلوم کے مزار پاک کی پائنتی کی طرف چبوترہ پر واقع ہے۔ آپ کی نماز جنازہ قطب المشائخ حضرت سید ابو الکمال برق نوشاہی نے پڑھائی تھی۔
مقام قبر کا انتخاب
حضرت قطب الاقطاب قدس سرہ نے وفات سے ایک روز پہلے عصر کے وقت ارشاد کیا کہ میں نے حضرت بحر العلوم کے مزار پاک کی پائنتی کی طرف ایک قبر دیکھی ہے جو تازہ کھودی ہوئی ہے اور یہ قبر میرے لئے تیار کی گئی ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ میری قبر اسی مقام پر بنائی جائے۔ چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق اسی جگہ آپ کو دفن کیا گیا۔(جاری ہے)