عوامی حاکمیت والی جمہوریت؟
ہمارے جیسے ملکوں میں عوامی حاکمیت والی جمہوریت کی بات اب صرف کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہے،ہاں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حکومت، ملک اور باقی معاملات چلانا اب ہمارے ہاں جمہوریت کی نئی تعریف ہو سکتی ہے،رہا پاپولرازم تو وہ اب اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ پاپولر ازم کیا ہے اور کیا کسی سیاسی لیڈر یا اس کے نظریے کے ساتھ ہم آہنگی اور وابستگی کے اظہار ہی کو پاپولر ازم کا نام دیا جائے گا یا لوگوں میں کسی لیڈر کی سوچ یا پارٹی کے منشور سے گریز کو بھی اسی زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے،اسی طرح کیا سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت سے ہٹ کر کسی ملک میں رونما ہونے والی کسی صورت حال کے بارے میں عوام کی اجتماعی سوچ میں پیدا ہونے والی تبدیلی کو بھی ہم پاپولر ازم ہی کا نام دیں گے؟ اس تناظر میں پی ٹی آئی میں پیدا ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو کیا نام دیا جائے گا اور دوسری طرف جو لوگ اس ساری صورت حال کو منصوبہ بند عمل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں انہیں کس خانے میں ڈالا جائے گا؟
عمومی طور پر پاپولر ازم کی اصطلاح سے مراد ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو اشرافیہ پر عام لوگوں کی ضروریات اور مفادات کو ترجیح دیتا ہے، عوامی تحریکیں عام طور پر معاشی عدم مساوات، سیاسی بد عنوانی، اور سماجی نا انصافی جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر چلائی جاتی ہیں اور بعض اوقات قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرنے جیسے معاملات کو بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے،ایوب خان کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کی تحریک،ستر کی دہائی کے آخر ی سالوں میں عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفیٰ اور بد عنوانی کے خلاف پی ٹی آئی کی تحریک کو اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں پاپولر ازم کی ایک تاریخ ہے، جس میں پاپولسٹ رہنما اپنے آپ کو عوامی ضروریات اور مفادات کے چیمپین کے طور پر پیش کر کے اور اشرافیہ پر تنقید کو بنیاد بنا کر عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن کیا 1960 اور 70 کی دہائیوں میں پیپلز پارٹی اور حال ہی میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کو بھی اسی کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے؟ تب پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کا اقتدار میں آنا پاکستان میں پاپولر ازم کی دو اہم مثالیں ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی یا اب پی ٹی آئی کے سربراہ کو ان کے اپنے اقدامات کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہونا پڑ رہا ہے تو یہ عوامی مقبولیت ان کے کام کیوں نہیں آئی؟ اسی سے منسلک سوال یہ ہے کہ تمام تر تبدیلیوں کے باوجود کیا دونوں رہنماؤں کی عوامی مقبولیت اب بھی قائم ہے؟ کیا مستقبل میں اس کا اظہار ہو سکتا ہے؟
کچھ لوگوں کی طرف سے جس طرح جی ایچ کیو کو نشانہ بنایا گیا اور جس انداز میں جناح ہاؤس یعنی کور کمانڈر ہاؤس لاہور کو نذرِ آتش کیا گیا اس کے بعد پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ اب تک جاری ہے،ایسے ایسے راہنما اور طاقتور وزرا جنہوں نے عمران خان کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں اور جو ان کے خلاف کسی بھی اقدام کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے وہ ایک ایک کر کے ان کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں اور عمران خان کی تنہائی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کوئی زیادہ روشن نہیں ہے،پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے، ایسے واقعات پچھلی دہائیوں اور گزشتہ برسوں میں مقبول جماعتوں کو غیر مقبول بنانے کے لئے پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں، ضیاالحق کے دور میں پیپلز پارٹی کو غیر مقبول کرنے کی کوششیں کی گئیں، پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں کے ارکان توڑے گئے اور قاف لیگ بنائی گئی، مسلم لیگ (ن) کے تیسرے دورِ حکومت کو جس طرح ناکام اور نواز شریف کو غیر مقبول بنانے کی جو کوششیں کی گئیں وہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ضیاالحق کے دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی بھٹو کے ساتھ ہی ختم ہو گئی،پرویز مشرف نے قاف لیگ بنا کر انہیں کہا تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اب قصہ ماضی ہیں مگر سب نے دیکھا کہ انہیں ختم کرنے کی باتیں کرنے والے خود ختم ہو گئے مگر یہ جماعتیں اب بھی بڑی اور مقبول جماعتیں ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ مقبول معروف اور ہردلعزیز سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو غیر مقبول بنانے کا معاملہ آمرانہ ادوار میں ہی نہیں ہوا یہ سلسلہ جمہوری ادوار میں بھی جاری رہا ہے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور غیر سیاسی قوتوں کو سیاسی ایشوز میں مداخلت کی دعوت دینے کے معاملات سیاسی اور جمہوری ادوار میں ہی چلتے رہے، کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت طے پانے سے پہلے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچتی رہیں ایک دوسرے کی حکومتوں کو ناکام بنانے کی کوششیں نہیں کرتی رہی تھیں؟
لوگ ان دنوں پھر مخمصے کا شکار ہیں،کل ہی ایک دوست مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ ہمارے وطن میں کیا ہو رہا ہے؟ کون کر رہا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟ کیا پاکستان سیاسی اور معاشی مسائل کے بھنور سے نکل آئے گا؟ کیا ہم کبھی حقیقی ترقی سے بھی ہمکنار ہو سکیں گے؟ میں انہیں کیا بتاؤں کہ حالات کیا ہیں اور اصل معاملات کیا ہیں؟ بہرحال میں انہیں بتاتا ہوں کہ فوج ہمارے ملک کا دوسرا نام ہے اور یہ ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے، میں انہیں یہ بھی بتاتا ہوں کہ کور کمانڈر ہاؤس اور دوسری ایسی حساس جگہوں پر حملے اچھی بات نہیں تھی اگر پی ٹی آئی کے لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کرنا تھا تو وہ سیاسی لوگوں سے اپنا حساب چکتا کرتے اور عام لوگوں پر تشدد کے بجائے پُرامن راستہ اپناتے تو زیادہ بہتر تھا، سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں ہی تلاش کیا جانا چاہئے، ان معاملات میں دوسرے اداروں کو ملوث کرنا اور ان کی تنصیبات کو نشانہ بنانا کسی طور مناسب نہیں ہے،مگر لوگ نہیں مانتے وہ ان سارے معاملات کو ایک سازش قرار دیتے ہیں، کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ حقائق کیا ہیں؟
اس کے ساتھ ہی ایک سوچ اور بھی ذہن میں ابھرتی ہے، یہ کہ جو لوگ نہیں مانتے ان کو پاپولر ازم کی لہر کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر عوام میں مقبولیت کا نام ہی پاپولر ازم ہے تو یہ مقبولیت کسی اور انداز کی بھی تو ہو سکتی ہے، مناسب ہے یہ معاملہ وقت پر چھوڑ دیا جائے، وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ حقیقت کیا ہے،فسانہ کیا ہے،پاکستان میں اگلے الیکشن یا تمام جماعتوں کے لوگوں کو ملا کر ایک حکومت بنانے کی باتیں پھر شروع ہو گئی ہیں،آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔