بزمِ کونین سجانے کیلئے آپﷺ آئے
جونہی ربیع الاوّل شریف....کے ماہِ مقدس کا آغاز ہوتا ہے تو عاشقانِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ....خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں۔اور اِس پورے ماہِ مقدس کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے مناتے ہیں....گھر گھر محافلِ جشنِ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقادہوتا ہے ....گلیوںاور بازاروں کودلہن کی طرح سجادیا جاتا ہے ....مساجد اور بلندوبالا عمارات پہ چراغاں کے خوبصورت مناظر آنکھوں کو فرحت آنگیں نظارے پیش کرتے ہیں.... درودوسلام کی بے مثل اور خوب صورت صدائیں سماعتوں سے ٹکرا کر کانوں میں رس گھولتی ہیں....گھر گھر صدقات وخیرات اور لنگر کا وسیع اہتمام وانتظام کیا جاتا ہے....سکول اورکالجز کی سطح پر،تقاریر اور نعت خوانی کے مقابلے ہوتے ہیں.... پوری دنیا میں سرکاری وغیر سرکاری سطح پر ”سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“کے موضوع پر سیمینارز اورتقریبات منعقد کی جاتی ہیں....پرنٹ میڈیاخصوصی ایڈشنزشائع کرنے اور الیکٹرانک میڈیا خصوصی نشریات اپنے ناظرین کیلئے پیش کرنے کا اہتمام کرتا ہے....شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے ہیں اورایک دوسرے کو خوشی کے اس موقع پر ” جشنِ آمدِ رسول “کی ”مبارکبادیں“دینے کا عظیم سلسلہ چل نکلتا ہے۔
یہ سارے اہتمام و انتظامات کس لیے ہوتے ہیں....؟اس لیے کہ آج کے دن ہی پروردگارِ عالم نے حضور سیدِعالم....سرورِکائنات....فخرِموجودات....ہادیءعالم....رحمتِ عالم....آقائے نامدار....حبیبِ خدا....حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر امتِ مسلمہ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا....خدا وندِقدوس نے واضح ارشاد فرمایاکہ
”اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!آپ فرمادیں کہ جب تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت ہو تو،خوش ہوا کرو،تمہارا خوشیاں منانااس سے بہتر ہے ،جو تم اپنے لیے جمع کیے رکھتے ہو۔“
کیا....آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.... سے بڑھ کر بھی کوئی ”نعمت“کوئی ”فضل“اور کوئی ”احسان“ ہوسکتا ہے؟....یقینانہیں !
حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ پاک کا ایک ایک لمحہ ....نہ صرف امتِ مسلمہ کیلئے ،بلکہ پوری انسانیت کیلئے ”مینارہءنور“ کی حیثیت رکھتا ہے،گویارحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں آمد....ایک بہت بڑا انقلاب تھا،اور ایسا انقلاب کہ جس کے انتظار میں یہ سسکتی بِلکتی انسانیت صدیاں تڑپتی اور ترستی رہی.... کہ کوئی عظیم راہنما....کوئی عظیم ہستی....کوئی عظیم مسیحااس دنیا میں تشریف لائے اور ہماری تاریک اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زندگیوں کو روشنی بحش دے....بے راہ روی سے ہٹا کر ”صراطِ مستقیم“ پہ چلادے....اللہ رب العزت کا پتا دے....دلوں پہ لگے زنگ کو اتار دے اور گرد آلود روح کو نکھار دے۔
آخر کار ربِ کائنات کو”انسانیت“ پر ترس آیااورذاتِ باری تعالیٰ نے12ربیع الاول کی صبح سعادت کو وہ”نور“ عطا فرمایاکہ جس کی تابندہ کرنوں سے پوری کائنات جگمگا اُٹھی،اور جس کی خوشبو سے سارا عالم معطر ہوگیا....محبتوں کے بے مثل پھول کِھل اُٹھے....خلوص وپیار کے چراغ روشن ہوگئے....چاند،سورج اور ستاروں کو ضوفشائی نصیب ہوئی....دریاﺅںاور سمندروں کو روانی ملی....خوشبوﺅں کو پاکیزہ احساس ملا....ہواﺅں اور فضاﺅں کو جینے اور سنورنے کا سلیقہ آیا....تہذیب وتمدن پہ روپ آیا۔،،
محمد علی ظہوریؒصاحب اپنے نعتیہ کلام میںبارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیہءعقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا یوں تذکرہ کرتے ہیں
بزمِ کونین سجانے کیلئے آپ آئے
شمعءتوحید جلانے کیلئے آ پ آئے
ایک پیغام جو ،ہر دل میں اُجالا کردے
ساری دنیا کو سنانے کیلئے آپ آئے
یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے آقائے نامدار،حبیبِ خدا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو عظیم انقلاب برپا کیا،وہ ہمہ پہلو اورہمہ گیر انقلاب تھا....یہ عقائد وافکار اور سیرت وکردار میں انقلاب تھا....معاشرت اور معشیت میں انقلاب تھا....قانون اور سیاست میں انقلاب تھا....تعلیم وتربیت میں انقلاب تھا....اخلاق و عبادات میں انقلاب تھا....اخلاص و ایثار اور محبت و ہیار میں انقلاب تھا....مساوات و احساسات میں انقلاب تھا۔انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ اور کوئی شعبہ ایسا نہ تھا کہ جس کیلئے حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راہنما اور زریں اصول عطا نہ فرمائے ہوں۔
دعائے خلیل ؑ کی اجابت،رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس کے کیا کہنے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے مشروط کردیا....اور اپنی محبت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے لازم وملزوم ٹھہرایا،تاکہ لوگ کوچہءسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہو کر مجھ تک پہنچیں،مجھ تک رسائی حاصل کریں،یعنی بارگاہِ خدا وندِ قدوس میں حاضر ہونے سے پہلے ”اتباع سنت“ کا خوب صورت لباس زیب تن کرنا بے حد ضروری ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا ایک ،مقصد کے تحت ہی تو تھا،خدائے واحد کی ذاتِ کریمی کا ارشادِ پاک ہے کہ ”وہ رسول....اللہ کی آیاتِ مقدس کی تلاوت فرما کے انہیں سناتے،اُن کا تزکیہ فرماتے اوراُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں حالانکہ اِس سے پہلے یہی لوگ صریح گم راہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔،،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل کا نقشہ،حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے”شاہِ حبش“ نجاشی کے دربار میں خطاب کرتے ہوئے یوں پیش کیا،آپؓ فرماتے ہیں
”اے بادشاہِ سلامت!ہم بے ین اور کم علم تھے،بتوں کی پرستش کرتے،مردار کھاتے اوربے حیائی کے دلدادہ تھے،اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے اور ہمسائیوں کو تکلیف پہنچاتے تھے،ہم میں سے طاقت ور،کمزور پر ظلم وستم کیا کرتا تھا،ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی اور مہمانداری کا نام ونشان نہ تھا،کوئی قائدہ اور قانون نہ تھا.... کہ اچانک ہم میں سے ایک پاکیزہ انسان کو اللہ رب العزت نے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنا کر مبعوث فرمایا....جس کے حسب ونسب،سچائی،امانت،اک دامنی،دیانت داری،تقویٰ وطہارت،ہمدردی و پاکیزگی کو ہم خوب جانتے ہیں۔اُس درِیتیم نے ہم کو بتایا کہ ہم سب کا پروردگار بس ایک ”اللہ“ ہے،اُس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ماں ،باپ اور اولاد سے مُبرا ہے،وہ اللہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا،وہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے،نفع ونقصان اُس کے ہاتھ میں ہے،یہ بت کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں،ایک اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریمی ہی حجت روا اورمشکل کشا ہے....اِس کے ساتھ ساتھ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ بھی ہدایات فرمائیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو،اپنا وعدہ پورا کیا کرو،تمام گناہوں سے الگ رہو،آپس میں صلہ رحمی کرو،ہمسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو،حرام باتوں سے بچو،خون ریزی اور یتیم کے مال کھانے سے دور رہو،کسی کا ناحق مال نہ کھاﺅ....اِسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیااور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا،روزے رکھنے اورزکوٰة ادا کرنے کی تاکید فرمائی،مہمان نوازی کا درس دیا....ہم سب اُن پر ”ایمان“ لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دل و جان سے فدا ہوئے۔،،
قارئین محترم !یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اور خوشبو دار ارشاداتِ عالیہ حکمت و بصیرت کے ان بیش قیمت اور انمول موتیوں اور ہیروں پر مشتمل ہیں،جن سے زندگی کے نئے اُفق اور نئی راہوں کا سراغ ملتا ہے۔اور انسان میں بھر طریقے سے ”جذبہءعمل“بیدار ہوتا ہے ....پھر ان پر مستزاد یہ کہ ھادیءعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان ارشاداتِ مقدسہ پر ہی اکتفا نہ فرمایا،بلکہ اپنے”حسن عمل سے،سیرت و کردار سے اوراپنے اسوہءحسنہ سے“پوری عالمِ انسانیت کیلئے ایک دائمی اور عملی نمونہ پیش فرمایا....جیسا کہ ربِ کریم عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ ”درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے۔،،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم....سے سچی اور حقیقی محبت اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی کی ”روشنی“میں ربِ غفور کی طرف سے عطا کردہ اپنی زندگی کے شب و روز گزاریں....اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اسلام میں پورا پورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے،اور ہمارے ایمان کی سلامتی اور صغیرہ ،کبیرہ گناہوں کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے معاف فرمائے۔