نوشتہ دیوار سامنے ہے جناب

نوشتہ دیوار سامنے ہے جناب
نوشتہ دیوار سامنے ہے جناب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اب اس بات کی تو کوئی اہمیت نہیں رہی کہ ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہو سکا کہ نہیں ہو سکا۔ ہو سکا تو کیا مقررہ جگہ پر ہو سکا کہ نہیں؟ جلسہ ایک جگہ ہوا کہ شہر کے مختلف چوکوں میں متعدد جلسے ہو گئے۔ جلسہ چھوٹا تھا یا بڑا؟ شرکاء بسوں ویگنوں میں بھر کر لائے گئے یا خود آئے۔ شرکاء نے سرکاری ایس او پیز کا خیال رکھا یا نہیں۔ منتظمین نے ماسک اور سینیٹائزر کا انتظام کیا تھا یا نہیں۔ شرکاء پُر جوش تھے یا نہیں، وہ نعروں کا جواب دے رہے تھے یا نہیں؟ خواتین کی کتنی تعداد جلسے میں شریک ہوئی؟ یہ سب باتیں اب غیر متعلق ہو چکی ہیں۔ اپوزیشن نے جلسے کے کامیاب انعقاد سے جو حاصل کرنا تھا وہ اس سے پہلے ہی حاصل کر چکی تھی۔ 30 نومبر تو ”مور اوور“ تھا۔ تحریک جمہوریت تو اسی روز کامیاب ہو گئی تھی، جب ڈپٹی کمشنر ملتان عامر خٹک نے تحریری طور پر اجازت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا اس کا اجمالی جائزہ یہاں لے لیتے ہیں، ملتان میں جلسہ پی ڈی ایم کی مرکزی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق 30 نومبر کو ہونا طے پایا۔ اسی روز پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس تھا، چنانچہ اس کی ذمہ داری پی پی پی کو دے دی گئی۔ پیپلزپارٹی نے بھی اس جلسے کو اپنے یوم تاسیس کی مرکزی تقریب کے طور پر منعقد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی قاسم گیلانی کو جلسے کا چیف کوآرڈینیٹر بنایا گیا۔ پی ڈی ایم کی رکن جماعتوں نے جلسے کی کامیابی کے لئے اپنے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن)، جمعیت علمائے اسلام نے جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژنوں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان…… میں شہر شہر ورکرز کنونشن منعقد کئے جلسے کی اجازت نہ ملنے پر کارکنوں کے جذبات مشتعل تھے۔ جلسے سے تین دن قبل پی ڈی ایم کے کارکنوں نے کوآرڈینیٹر کی قیادت میں جلسہ گاہ کا دورہ کرنے کی کوشش کی تو سٹیڈیم کے تمام دروازوں کو مقفل پایا۔ وہاں موجود بلدیہ کے ملازم سے گیٹ کھولنے کو کہا تو اس نے پہلے اجازت نامہ مانگا۔ پھر کہہ دیا کہ چابیاں بھی اس کے پاس نہیں ہیں۔ کارکنوں نے ایک گیٹ کا تالا توڑا اور اندر داخل ہو گئے۔ ملازم کے ساتھ بھی دھکم پیل ہو گئی۔ سٹیج وغیرہ کی جگہ کا تعین کرنے کے بعد کارکن واپس چلے گئے تو بلدیہ کی طرف سے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی گئی۔ جس میں الزام لگایا گیا کہ موسیٰ گیلانی کی قیادت میں چند درجن لوگوں نے ملازمین کو زد و کوب کیا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور جاتے ہوئے سرکاری تالا چرا کرلے گئے۔ 


اگلے روز تحریک جمہوریت کے کارکنوں نے گیلانی ہاؤس سے احتجاجی ریلی نکالی جو گھنٹہ گھر جا کر ختم ہو گئی۔ کچھ شرکاء نے اس تھانے پر مظاہرہ کیا، جہاں مقدمہ درج ہوا تھا۔ جب شرکاء واپس ہوئے تو پولیس نے چار کارکنوں کو گرفتار کر کے تھانہ چہلیک میں بند کر دیا۔ بند کرنے پر سابق ایم این اے علی موسیٰ گیلانی کارکنوں کے ہمراہ تھانے پہنچے تو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا، تاہم اگلے روز ان کی ضمانت ہو گئی، جس وقت پی ڈی ایم کی ریلی کے شرکاء کی پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی، اسی وقت شہر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بھی ایک ریلی نکلی ہوئی تھی جو ادارۂ ترقیات ملتان (ایم ڈی اے) کا دوباہ سربراہ بننے والے رانا عبدالجبار کی قیادت میں نکالی گئی تھی، انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کا یہ عوامی انداز اپنایا کہ اپنی رہائش گاہ سے ایم ڈی اے سیکرٹریٹ تک جلوس کی صورت میں گئے۔ تاہم اس ریلی کے شرکاء کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ گزشتہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی بری طرح ناکام ہوئی تھی، ضلع ملتان کی تیرہ صوبائی نشستوں میں سے صرف ایک ہی نشست پیپلزپارٹی کو ملی، جہاں سے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کامیاب ہوئے تھے۔  ان انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور گیلانی گروپ غیر فعال سے محسوس ہو رہے تھے، لگتا تھا کہ جیالے کہیں سو گئے ہیں، ملتان کے جلسے کی اجازت نہ دے کر انتظامیہ نے جیالوں کو جگا دیا ہے جو گیلانی خانوادے کو حیات تازہ دے رہی ہے۔ 


ہفتہ کو ضمانت کے بعد پی ڈی ایم کے کارکنوں نے علی قاسم گیلانی کی قیادت میں جلوس نکال کر سٹیڈیم پر قبضہ کر لیا ا ور سٹیج وغیرہ تیار کرانا شروع کر دیا۔ سینکڑوں کارکنوں نے اعلان کر دیا کہ جلسے تک وہیں رہیں گے۔ گھروں سے کمبل منگوا لئے گئے، جگہ جگہ آگ کے الاؤ جلا کر سردی بھگانے کا انتظام کیا گیا،کھانے پکنے لگے، اس دوران انتظامیہ نے بھی اپنے انتظامات کئے۔ سینکڑوں کنٹینر شہر میں جگہ جگہ پہنچا دیئے گئے۔ سٹیڈیم کو جانے والے پانچوں راستے بند کر دیئے گئے۔ رات گئے پولیس کی بھاری نفری نے دھاوا بول کر سٹیڈیم خالی کرا لیا۔ تمام گیٹ پھر مقفل کر دیئے گئے۔ جلسے کے چیف کوآرڈینیٹر علی قاسم گیلانی کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور ایک ماہ کے لئے جیل میں نظر بند کر دیا۔ سابق ایم این اے (مسلم لیگ (ن) شیخ طارق رشید کے بیٹے، سابق ایم پی اے منور الدین قریشی کے بھائی سابق ڈپٹی میئر سمیت بیسیوں کارکنوں کو گھروں سے گرفتار کر لیا گیا۔ شہر شہر چھاپے مار کر ہر سرگرم رہنما کو گرفتار کر لیا گیا۔ سٹیڈیم کے قریب گھنٹہ گھر چوک کو کنٹینر لگا کر چاروں طرف سے بند کر دیا گیا۔ اسی طرح ملتان شہر کو آنے والے راستوں پر کاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔

درجنوں شاہراہیں، بیسیوں مارکیٹیں عملاً نرغے میں لے لی گئیں۔ شہریوں کو کہیں بھی ا ٓنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جلسہ منعقد ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ کیا ہونا تھا؟ حکومت کے خلاف عوام میں جذبات ابھارنے کی کوشش ہوتی۔ اب پکڑ دھکڑ، رکاوٹوں، مقدمات، کاروبار کی بندش سے کیا عوام کے دلوں سے دعائیں نکلیں گی؟ اسی لئے تحریر کے آغاز میں کہا ہے کہ اپوزیشن نے جلسے سے جو حاصل کرنا تھا، وہ جلسے سے پہلے ہی حاصل کر لیا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ حاصل کر لیا۔ جبر کرنے کا مشورہ جس کسی نے بھی دیا وہ حکومت کا ہمدرد ہرگز نہیں۔ اس طرح کے اقدامات حکومت مخالف تحریکوں کو مہمیز دیتے ہیں، عوام کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں۔ اس سے حکومت کو ہٹانے کے لئے چلائی جانے والی تحریک کی کامیابی کی اینٹ رکھ دی گئی ہے۔ نوشتہء دیوار سامنے ہے جناب۔

مزید :

رائے -کالم -