اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے ۔۔۔داستان اصغر گونڈوی کی

تحریر : آغا نیاز احمدمگسی
آج ہم آپ کو داستان فن سنائیں گے اردو کے معروف صوفی شاعر اصغر گونڈوی کی ۔۔۔ اصغر گونڈوی اردو کے ان گنے چنے شاعروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے حسن و عشق کی شاعری کو محض ہجر کی نالۂ و زاری،جسم کی لطافتوں اور لذتوں کے بیان یا اس سوز و گداز سے جو عشقیہ شاعری کا لازمہ سمجھا جاتا ہے ،دور رکھ کر اک نشاطیہ اور طربیہ لب و لہجہ دیا۔ جو بالکل نیا تھا اور جو پڑھنے والے کو اداس یا غمگین کرنے کی بجائے ایک مسرت افزا ءکیفیت سے دوچار کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس میں لکھنوی شاعری کےاوچھے پن یا تہذیب سے گری ہوئی کسی بات کا شائبہ تک نہیں۔اصغر کی شاعری اصلاً تصوف کی شاعری ہونے کے باوجود دوسرے صوفی شاعروں مثلاً درد ،سراج اورنگ آبادی یا امیر مینائی کی شاعری سے بہت مختلف ہے اور وہ اس طرح کہ ان کی شاعری اس شخص کو بھی جسے تصوف یا صوفیانہ مضامین سے کوئی دلچسپی نہ ہو، سرشار اور محظوظ کرتی ہے۔ان کا پیرایہ بیان دلکش،رنگین اور مسرت افزاء ہے اور ان کی یہی خصوصیت ان کو دوسرے صوفی شعراء سے ممتا زکرتی ہے۔ اصغر نے بہت سے دوسرے شعراء کی طرح نال کٹتے ہی "مطلع عرض ہے" نہیں کہا بلکہ خاصی پختہ عمر میں شاعری شروع کی اور اس کو دوسروں تک پہنچانے یا مقبول بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ان کا چلتا پھرتا اشتہار بس جگر مراد آبادی تھے جو ان سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کی غزلیں جیب میں لئے پھرتے تھے اور ایک ایک کو سناتے تھے۔اصغر کبھی پیشہ ور یا پُرگو شاعر نہیں رہے اور تبھی شعر کہتے تھے جب شعر خود کو ان سے کہلوا لے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا جو بھی کلام ہے وہ سارے کا سارا درجۂ اوّل کا،رطب و یابس سے پاک اور نفاست سے لبریز ہے۔
اصغر کا اصل نام اصغر حسین تھا وہ یکم مارچ 1884ء میں گورکھپور میں پیدا ہوئے ان کے والد تفضل حسن بسلسلہ ملازمت گونڈہ میں رہتے تھے جہاں وہ صدر قانون گو تھے اور عربی ،فارسی کی اچھی استعداد رکھتے تھے۔چونکہ گونڈہ میں اصغر نے مستقل رہائش اختیار کر لی تھی اسی لئے اصغر گونڈوی کہلاتے ہیں۔اصغر کی ابتدائی تعلیم دستور کے مطابق مکتب سے شروع ہوئی۔ اور ارد و عربی میں انہوں نے خاصی مہارت حاصل کر لی اس کے بعد انگریزی تعلیم کے لئے گورنمنٹ سکول گونڈہ میں داخلہ لیا اور وہیں سے 1904 میں مڈل(آٹھویں جماعت) کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران انہوں نے عربی اور فارسی کی کی کتابیں اپنے والد سے گھر پر پڑھیں۔ 1906 میں انگریزی تعلیم کا سلسلہ ختم کر دیا تاکہ ملازمت حاصل کر سکیں۔اس زمانہ میں اتنی انگریزی تعلیم ملازمت کے لئے کافی سمجھی جاتی تھی۔اسی عرصہ میں اصغر کی ملاقات ریلوے ہیڈ کوارٹر زکے دفتر میں ایک ہیڈ کلرک بابو راج بہادر سے ہوئی۔یہ صاحب خاصے تیز طرار،رنگین مزاج اور انگریز دانی کی بدولت انگریز حکام تک رسوخ رکھتے تھے۔وہ اصغر کی ذہانت،برجستہ گفتگو اور بذلہ سنجی سے متاثر ہوئے اور حکام سے کہہ کر انہیں20 روپے ماہوار پر ریلوے میں ٹائم کیپر رکھوا دیا۔اصغر نے اپنی ذاتی کوششوں سے اردو فارسی میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی اور اک اینگلوا نڈین کی مدد سے انگریزی ادبیات سے بھی آشنا ہو گئے تھے۔یہ تعلیم و صحبت آگے چل کر ”ہندوستانی اکیڈمی“ کے سہ ماہی رسالہ ”ہندوستانی“ کے شعبہ اردو کے مدیر کی حیثیت سے ان کے تقرر میں کام آئی۔ اصغر ٹائم کیپری کی ملازمت کے لئے بابو راج بہادر کے بہت ممنون تھے اور انہیں اپنا محسن اور شفیق سمجھ کر ان سے گھل مل گئے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں شراب،افیم اور بالا خانوں کی سیر کا چسکا لگ گیا۔یہ سلسلہ 5سال تک چلا پھر اچانک ان کی کایا پلٹی اور تمام بری عادتوں ، راج بہادر کی رفاقت اور ٹائم کیپر کی نوکری کو لات مار کر گھر میں بیٹھ رہے۔ کوٹھوں کی مذکورہ حاضریوں کے دوران چھٹّن نامی اک طوائف اصغر پرفداہوگئی۔ یہ ایک معمولی شکل و صورت کی نیک دل سادہ مزاج اور خاموش طبیعت عورت تھی جس کی طرف اصغر بھی مائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔جب اصغر تائب ہو گئے اور اس کے گھر آنا جانا بند کر دیا تو وہ اس مسجد کے باہر جہاں اصغر نماز پڑھتے تھے ،آ کر بیٹھ جاتی تا کہ ان کو دیکھ سکے۔اصغر نے اپنا پیچھا چڑ انے کے لئےیہ شرط رکھی کہ اگر وہ اپنی موجودہ زندگی سے معہ خاندان تائب ہو جائے تو وہ اس سے شادی کر سکتے ہیں ۔وہ اس پر بھی راضی ہو گئی۔اس نیک عورت نے زندگی بھر اصغر کی خدمت کی۔اس سے پہلے اصغر کی شادی گونڈہ کے ہی قاضی صاحبان کے خاندان میں ہو چکی تھی اس سے ان کی 2لڑکیاں بھی تھیں لیکن اصغر کی اپنی پہلی بیوی سے نہیں بنتی تھی اور وہ اصغر کے والد کے گھر رہتی تھیں۔جوانی کی بے راہ روی کے بعد اصغر نے محسوس کیا کہ جسم کی آسودگی روح کی نا آسودگی کو نا قابلِ برداشت حد تک بڑھا رہی ہے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مرشد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔جا تو رہے تھے شیخ محمد عمر سے ملنے لیکن راستہ میں کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ قاضی عبد الغنی منگلوری کے مرید ہو گئے جس کے بعد ان کی زندگی ہی بدل گئی
اب نہ زماں نہ وہ مکاں،اب وہ زمیں نہ آسمان
تم نے جہاں بدل دیا آ کے مری نگاہ میں
اب ان کی شخصیت نے نیا جامہ پہنا اور آخری عمر تک وہ ہر حیثیت سے اور ہر معاملے میں صاحب ذوق اور صاحبِ حال رہے۔وہ بہر حال روایتی صوفی یا زاہد خشک نہیں بلکہ ہنس مکھ اور بذلہ سنج تھے۔
اصغر کے حالات زندگی جگر مراد آبادی کے تذکرہ کے بغیر ادھورے رہیں گے۔جگر سے اصغر کی ملاقات گونڈہ کے مشاعروں میں ہوئی اور رفتہ رفتہ تعلقات اتنے بڑھے کہ جگر ان کے گھر کے ایک فرد بن گئے۔جن دنوں جگر شدید ذہنی اور جذباتی پریشانیوں میں مبتلا تھے، اصغر نے ان کی شادی اپنی سالی (چھٹن کی چھوٹی بہن) سے کرا دی۔وہ جگر کی قدر کرتی تھیں۔جگر ان دنوں ایک چشمہ ساز کمپنی کے گشتی نمائندہ تھے۔ انہوں نے اصغر کے ساتھ مل کر گونڈہ میں چشموں کا اپنا کار و بار شروع کیا۔ لیکن جگر لا اوبالی آدمی تھے۔بیوی کو چھوڑ کر مہینوں کے لئے غائب ہو جاتے تھے۔ چھٹن کا اصرار تھا کہ اصغر نسیم سے شادی کر لیں۔اس کے لئے ضروری تھا کہ جگر نسیم کو اور اصغر چھٹن کو طلاق دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اصغر کے مزاج میں نفاست بہت تھی وہ عمدہ چیزوں کے شوقین تھے،نازک مزاجی یا تکبر ان کو چھو بھی نہیں گئے تھے ۔ہر شخص کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔مذہبی ہونے کے باوجود کٹر پن بالکل نہیں تھا، ان کے ملنے والوں میں اہل علم،اوباش،طالب علم کاروباری،مہذب اور غیر مہذب،رند ،غرض ہر قسم کے لوگ شامل تھے لیکن سبھی ان کی محفل میں آ کر مہذب ہو جاتے تھے۔ان سے ملنے والے ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔مزاج میں ایک طرح کا ٹھہراؤ تھا جو ان کے کلام میں بھی ہے۔
اصغر کی صحافتی زندگی 1912ء میں شروع ہوئی جب انہوں نے فیض آباد سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار "قیصر ہند" میں کام شروع کیا بعد میں یہ اخبار "پیام ہند" کے نام سے شائع ہونے لگا۔اصغر کا ابتدائی کلام ان ہی اخبارات میں شائع ہوا۔1926ء میں لاہور میں ”اردو مرکز“ قائم ہوا جس کے لئے اصغر کو علامہ تاجور کے ایماء پر گونڈہ سے بلایا گیا۔اصغر نے ڈیڑھ دو سال وہاں کام کیا پھر ادارے کا مستقبل تاریک دیکھ کر گونڈہ واپس آ گئے۔ ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد سے اصغر کا تعلق سر تیج بہادر سپرو کے توسط سے ہوا جو اصغر کے مدّاح تھے۔ اصغر 1930 ءسے 1936 ءیعنی اپنی موت تک اکیڈمی سے وابستہ رہے۔اصغر نے شاعری کو کبھی پیشہ نہیں بنایا بلکہ وہ دوسروں کو شاعری سے طرح طرح سے روکتے تھے۔ان کا خیال تھا مشاعروں میں وہی شعر اٹھتا ہے جو سب کی سمجھ میں آ جائے اور ایسا شعر عموماًسطحی ہوتا ہے۔وہ اپنی غزلیں بھی خود پڑھنے کے بجائے دوسروں سے پڑھواتے تھے۔اصغر بلڈ پریشر کے مریض تھے ان پر 1934 ء میں فالج کا حملہ ہوا جس سے وہ جلد صحتیاب ہو گئے لین 1936 ء میں اسی مرض کے مزید حملے جان لیوا ثابت ہوئے۔
اصغر کی غزل میں حسرت کی سادگی پسندانہ شیرینی،فانی کی بالغ نظری،لطافت اور موسیقیت اور تصوف کی چاشنی گھلی ملی نظر آتی ہے۔ان کا کلام پڑھنے والا فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس میں خیال یا مضمون کی خوبی زیادہ ہے یا لطافت اور حسن بیان کی۔ان کے یہاں شاعری کا حاصل یہی ہے کہ پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو عرفانی نغموں سے بھر دیا جائے۔اور اس کی روح کو سرشار کیا جائے۔ان کی شاعری میں ہوس کا کوئی شائبہ نہیں،ہر جگہ حسن تخیل،حسن نظر اورحسنِ ادا کی جلوہ نمائی ہے۔جوش اور سرمستی اصغر کے تغزل کی جان ہے۔عشقیہ اشعار میں وہ تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتے اور معمولی خیال کو بھی دلکش بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ان کی شاعری کا لب و لہجہ نشاطیہ اور طربیہ اور رقص معنی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ان کے کلام میں شدّت جذبات کے باوجود اک طرح کا ٹھہراؤ اور ضبط ہے۔ان کا تصوف مولویت کی بے روح فقہ پرستی کے خلاف ایک شدید ردّعمل ہے ان کی نگاہ میں قوّت، ضبط کا نام ہے نہ کہ انتشار کا۔اردو غزل میں اصغر نشاطیہ شاعری کی بہترین مثال ہیں۔
ان کے کلام سےمنتخب اشعار ملاحظہ کیجیے
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکس کس چیز کا آئینۂ حیرت میں نہیں
تیری صورت میں ہے کیا جو میری صورت میں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک ادا اک حجاب اک شوخی
نیچی نظروں میں کیا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتا ہے راز عشق و محبت انہیں سے فاش
آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا
ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو
پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داستاں ان کی اداؤں کی ہے رنگیں لیکن
اس میں کچھ خون تمنا بھی ہے شامل اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا
پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستر خاک پہ بیٹھا ہوں نہ مستی ہے نہ ہوش
ذرے سب ساکت و صامت ہیں ستارہ خاموش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں
جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں زاہد
بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار
نالوں میں رسائی ہے نہ آنہوں میں اثر ہے