ائر فورس میں جدید ترین طیاروں کی شمولیت

ائر فورس میں جدید ترین طیاروں کی شمولیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان ایرو ناٹیکل کمپلیکس نے دو نشستوں والے 14 جے ایف17تھنڈر طیارے پاکستان ائر فورس کے حوالے کر دیئے ہیں اور یوں دفاعی پیداوار میں ایک اہم سنگ ِ میل کامیابی سے عبورکر لیا ہے۔فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل مجاہد انور خان نے طیارے ائر فورس کے حوالے کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جے ایف17تھنڈر بلاک تھری کی تیاری کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے اور یہ طیارہ2022ء میں فضاؤں میں اڑان بھر رہا ہو گا، ایر چیف مارشل مجاہد انور خان نے اِس سلسلے میں چین کے کردار اور تعاون کی تعریف کی۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ چین سے جے20 سمیت دیگر جنگی طیاروں کے حصول کے لیے بھی غور کر رہے ہیں۔ روس چین اور دیگر ممالک کے ساتھ فضائی دفاع کے شعبے میں تعاون پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ پاک فضائیہ نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ میں دشمن پر پروفیشنل جنگی صلاحیت کی برتری ثابت کی۔ چین کے سفیر نونگ رونگ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جے ایف17تھنڈر  بلاک تھری بہت اہم منصوبہ ہے،دفاعی پیداوار میں تعاون ہماری دوستی کی بہترین مثال ہے۔
دفاعی سازو سامان کی تیاری میں پاکستان تدریجاً آگے بڑھ رہا ہے ائر فورس میں اِس وقت ایک سو جے ایف تھنڈر سیریز کے طیارے آپریشنل ہیں جن کی کارکردگی بہترین ہے۔ فضائیہ کے سربراہ نے اپنے خطاب میں جس ”سوئفٹ ریٹارٹ“ آپریشن کا حوالہ دیا ہے یہ وہ مشن تھا جب 27 فروری2019ء کو بھارت کے ایف16 طیارے کو نشانہ بنا کر پائلٹ کو گرفتار کیا گیا،جو بالا کوٹ پر حملے کے لیے آیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ جو بلاک تھری طیارے دو برس میں تیار ہوں گے وہ اُن رافیل طیاروں سے بھی بہتر ہوں گے،جو بھارت نے فرانس سے خریدے ہیں اور ان کی ڈلیوری بھی بھارتی ائر فورس کو شروع ہو گئی ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو جب اپنے طیارے کے گرائے جانے کی اطلاع ملی تھی تو انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا تھا کاش ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے،اس حادثے کے بعد ہی انہوں نے فرانس سے کہا تھا کہ وہ جلدی جلدی چند رافیل طیارے بھارت کے حوالے کر دے۔ہمارے لیے مقام اطمینان  و مسرت ہے کہ بھارت کے اس نئے طیارے کے مقابلے کا طیارہ بھی دو سال میں پاکستان میں تیار ہو گا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کو ایک تلخ تجربہ اُس وقت ہوا جب آغازِ جنگ کے ساتھ ہی امریکہ نے نہ صرف پاکستان کو ہر قسم کے اسلحے اور گولہ بارود کی سپلائی روک دی، بلکہ فاضل پرزے تک دینے سے بھی انکار کر دیا، حالانکہ اُس وقت پاکستان امریکہ کا بہت قریبی اتحادی تھا اور امریکہ پاکستان پر غیر ملکی حملے کی صورت میں امداد کا پابند تھا، لیکن بھارتی حملے کی یہ عجیب و غریب توجیح کی گئی کہ امریکہ صرف کسی کمیونسٹ ملک کے حملے میں پاکستان کی امداد کر سکتا ہے،بھارت چونکہ کمیونسٹ نہیں اِس لیے امریکہ امداد کا پابند نہیں۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ وار زون کو جنگی ہتھیار سپلائی کرنا امریکہ کی پالیسی نہیں ہے،کیونکہ اس سے جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ امریکہ کی اس پالیسی کے سامنے آنے کے بعد پاکستان نے اس کے بعد اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے چین سے رابطہ کیا، اس کے تعاون سے محدود پیمانے پر دفاعی سازو سامان کی اندرونِ ملک تیاری بھی شروع کر دی جو  اب بڑھتے بڑھتے اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ جدید ترین لڑاکا طیارے پاکستان کے اندر بن رہے ہیں اور ایک منصوبہ مکمل ہونے کے ساتھ ہی اگلے منصوبے کا بھی آغاز کر دیا جاتا ہے۔ یوں دفاعی سازو سامان کی تیاری میں پاکستان نہ صرف مسلسل آگے بڑھ رہا ہے،بلکہ اپنی افواج کی ضروریات پوری کرنے کے لیے چین کے علاوہ روس سے بھی جدید طیاروں سمیت جدید اسلحے کی خریداری کے لیے اقدامات کرتا رہتا ہے، چند سال سے روس کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں بھی ہو رہی ہیں اور ان کا فائدہ یہ ہے کہ دونوں ممالک میں جدید ترین جنگی مہارتوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔چند سال سے روس نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت پر بھی پابندی ختم کر دی ہے جو سالہا سال سے نافذ چلی آ رہی تھی۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکہ سے ایف16 طیارے خریدے گئے تھے،لیکن ان طیاروں کی خریداری کے ساتھ بعض تلخیاں بھی وابستہ ہیں، ایف16 طیاروں کی پہلی کھیپ ملنے کے بعد مزید پچاس ایف16 طیارے خریدنے کے لیے پاکستان نے پوری رقم ادا کر دی تھی اور طیارے پاکستان آنے کے لیے ہینگروں میں پارک تھے کہ اچانک امریکی حکومت نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور طیاروں کی سپلائی روک دی۔ کئی سال تک طیارے نہ بھیجے گئے اور پاکستان مسلسل تقاضا کرتا رہا تو یہ مضحکہ خیز پیش کش کی گئی کہ پاکستان اِن طیاروں کی قیمت کے بدلے گندم خرید لے۔دوسری مرتبہ صدر اوباما کے دور میں پاکستان کو  بارہ ایف 16 طیارے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستان کو مطلع بھی کر دیا گیا لیکن بھارتی لابی کی کوششوں سے کانگرس اس سودے کے آڑے آ گئی اور اس نے صدر اوباما کو پابند کر دیا کہ طیارے پاکستان کو صرف نقد ادائیگی پر دیئے جا سکتے ہیں کسی دوسرے اکاؤنٹ میں یہ رقم ایڈجسٹ نہیں کی جا سکتی۔ اُس وقت پاکستان نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں کچھ رقوم وصول کرنا تھیں، کانگریس کے فیصلے کی وجہ سے طیاروں کی یہ کھیپ بھی پاکستان کو نہ مل سکی،اب پاکستان کو امریکہ سے کسی جدید طیارے کی خریداری کی ضرورت نہیں رہی۔ جے ایف 17 تھنڈ ر کی سیریز کے طیارے شروع میں چین سے حاصل کئے گئے اور اب یہ پاکستان میں بن رہے ہیں اور اپ ڈیٹ بھی کئے جا رہے ہیں، اس سیریز کا جدید ترین طیارہ جے20 ہے، جس کے بارے میں ائر چیف نے انکشاف کیا ہے کہ اس کی چین سے خریداری پر بھی بات چیت ہو رہی ہے، جو ایک خوشخبری ہے اور توقع ہے کہ پاکستان اب تیزی سے ائر فورس کی دفاعی ضروریات خود پوری کرنے کے قابل ہو گا اور ایسے ”دوستوں“ پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا، جو آزمائش کی گھڑی میں بھول بھلیوں میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں۔یہ پاکستان کے لیے تشکر و امتنان کی گھڑی ہے اور پاکستانی قوم پر اللہ رب العزت کے احسان کا شکر اور چین جیسے دوستوں کا شکریہ واجب ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -