بچپن کی لڑائیاں بہن بھائیوں کی محبت کا اظہار ہوتی ہیں، ابا جی سائیکل پر دفتر جاتے انکے پاس ہمیشہ سائیکلوں کی ”مر سیڈیز“ ریلے سائیکل ہی رہی
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط35:
فوجی جوانوں کی دھرتی جہلم؛
ملتان ابا جی کی تعیناتی2سال تھی۔ ابا جی کی اگلی پوسٹنگ ملتان سے فوجی جوانوں کی دھرتی جہلم ہو گئی۔ یہ 1963ء کا سال تھا۔ میرا چھوٹا بھائی شہباز احمد حمید(پیار کا نام ”ببو“) اپریل کے مہینہ میں مشین محلے میں پیدا ہوا۔ وہ صلح کن، سیدھا سادہ اور بھلا مانس ہے۔ بچپن میں اسے گھوڑوں اور کتوں سے بہت پیار تھا۔ ہم لاہور میں تھے تو وہ اس نے کہیں سے کتے کا بڑا پیارا سا بچہ لے آ یا۔ میری والدہ کتا گھر میں رکھنے کے سخت خلاف تھیں کہ ان کا ماننا تھا کہ جہاں یہ جانور ہو وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔ شہباز نے کتے کے لئے اینٹوں کا گھر بنایا۔2 دن بعد جب وہ سو رہا تھا تو امی جی نے نوکر کے ہاتھ اس کتے کو گھر سے کہیں دور بھجوا دیا۔ جب شہباز اٹھا تو روتے ہوئے اپنے کتے کے بارے پوچھا تو امی جی کہنے لگیں؛”اس کی ماں آئی تھی اور اسے ساتھ لے گئی۔“وہ مان گیا تھا۔ اللہ نے اسے پیسے سے بھی خوب نوازا ہے۔ ماں، بہنوں اور میری بیوی کی خواہش کے باوجود اس نے شادی نہیں کی۔ وہ جس قسم کی لڑکی کی تلاش میں رہا اسے خوابوں میں بھی پانا ممکن نہیں تھا۔ بہرحال اللہ کی مثیت ہی سب کچھ ہے۔ شہباز کی پیدائش کے علاوہ جہلم کی ایک ہلکی سی اور یاد بھی ذھن میں رہ گئی ہے۔ ایک روز شام کو جب میری چھوٹی بہن فرح بچہ گاڑی میں بیٹھی تھی اور ہمارا ملازم لطیف بھی پاس ہی تھاتو میں نے کسی بات پر غصہ کھا کر بچہ گاڑی کو زور سے دھکادیا تو وہ قریب سے بہتے گندے نالے میں گر گئی تھی۔ یہ تو بھلا ہو لطیف کا اس نے بہن کو بچہ گاڑی سمیت باہر نکلا لیا لیکن مجھے ماں باپ دونوں سے ہی زندگی کی پہلی سخت ڈانٹ برداشت کر نا پڑی تھی۔ بچپن کی لڑائیاں بہن بھائیوں کی محبت کا ہی اظہار ہوتی ہیں۔
کوٹ میں شور یعنی شور کوٹ؛
اگست یا ستمبر1964ء میں والد ملازمت کے سلسلے میں شورکوٹ آگئے کہ kazar engnieers کا اگلا پراجیکٹ یہاں تھا۔کرائے کا مکان حویلی نما تھا۔ شورکوٹ ریلولے سٹیشن سے اس کا فاصلہ بمشکل آدھ میل ہو گا۔ اس گھر کا صحن بڑا وسیع تھا۔ سامنے برآمدہ اور برآمدے کے پیچھے چار بڑے بڑے کمرے۔ غسل خانہ اور لیٹرین صحن کے ایک طرف جبکہ باورچی خانہ صحن کے دوسرے کونے میں تھا۔ اس زمانے میں دیہاتی گھر ایسے ہی تعمیر کئے جاتے تھے۔ صحن کے بیچ میں شیشم کا گھنا درخت تھا اور درخت کے نیچے ہینڈ پمپ جس کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا تھا۔ گھر میں داخل ہو ں تو الٹے ہاتھ بڑا سا چبوترہ تھا جسے پنجابی زبان میں ”تھڑا“ کہتے ہیں۔ یہاں امی جی سردی کے موسم میں ہم بہن بھائیوں کو گرم پانی سے نہلا کر دھوپ میں کھڑا کرکے کپڑے تبدیل کیا کرتی تھیں۔ (اس زمانے میں پانی ڈرم میں لکڑیوں کی آگ پر گرم کیا جاتا تھا۔) سردی کے موسم میں بچے روز نہیں نہاتے تھے بلکہ جس دن دھوپ تیز ہوتی مائیں اسی دن بچوں کو نہلایا کرتی تھیں۔ اس گھر سے ابا جی کے دفتر کا فاصلہ تقریباً ایک میل ہو گا۔ وہ سائیکل پر دفتر جاتے تھے۔ ابا جی کے پاس ہمیشہ سائیکلوں کی ”مر سیڈیز“ ”ریلے“ ہی رہی۔ جو اُس زمانے کی سب سے مہنگی، مشہوراور غالباً واحد امپورٹیڈ سائیکل تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔