قافلۂ سیرت نگاران!

قافلۂ سیرت نگاران!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

برادرم حافظ محمدادریس صاحب کی کتاب ’’رسولِ رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں‘‘ سیرت نبویؐ پر ایک وقیع دستاویز شمار ہوگی۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام بنی نوع انسانیت کی ہدایت کے اس وعدے کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے جو اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو زمین پر بھیجتے ہوئے ان سے کیا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ زمین پرمنصب خلافت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے تمھاری ذریت کے نفس کی خرابیوں اور شیطان کے وساوس کے مقابلے کے لیے ان کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انبیا ورسل کی شکل میں بھی اور کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں بھی۔ اس سلسلے کی تکمیل کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا۔ یہ بیان کیا گیا کہ آپ ہدایت اور دینِ حق کو دیگر تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں، خواہ یہ غلبہ اہل شرک کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔ ظاہر ہونے کے لیے آیا ہے مستور ہونے کے لیے نہیں۔
قرآن مجید میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان کردی گئی ہے کہ آپؐ خاتم النبیین ہیں۔ آپؐ نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا: لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہاں میں جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کی طرف سے کیے گئے دعووں کو ناقابل اعتنا سمجھتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے عرض کروں گا کہ آپؐ وہ ہستی ہیں جن کے حوالے سے انسانوں کو سمجھایا گیا کہ ’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری (حضرت محمدؐ کی) اتباع کرو، اللہ تم کو محبوب بنا لے گا۔‘‘ (آلِ عمران۳:۳۱) آپ کا یہ بھی اعزاز ہے کہ اللہ نے فرمایا: آج کے دن دین مکمل ہوگیا۔ نعمت کی تکمیل ہوگئی اور اللہ نے تمھارے لیے نظامِ زندگی کے طور پر اسلام کو پسند کرلیا۔ (المائدہ3-5)
آپؐ وہ ہستی ہیں جن کا مشن اسلام کی مکمل بالادستی ہے۔ اسلام وہ دین ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند کیا ہے۔ اس پسندیدہ دین کی تفصیلات قرآن کے ذریعے بیان کردی گئیں۔ آپؐ کے ذریعے ان پر عمل کرکے دکھایا گیا۔ اس عمل کو ہی ہم سنت کہتے ہیں۔ اس ہستیؐ کے ذریعے کہلوادیا گیا کہ میں تمھارے درمیان اللہ کی کتاب اور اپنا عمل چھوڑ کر جارہا ہوں اور اس ہستی سے محبت کرنے والوں کو اللہ نے اپنی محبت کا مستحق قرار دے دیا۔ اس کے بعد آخر کون ہوگا جو آپؐ سے اپنے تعلق کے اظہار کے لیے وہ کچھ نہ کر گزرے جو اس کے اختیار میں ہو۔
آپؐ سے تعلق کے اظہار کا بڑا اور بنیادی حوالہ تو علم الحدیث ہے۔ ہزارہا احادیث کا جمع کیا جانا، لیکن احتیاط کا عالم یہ کہ ان کی چھان پھٹک کے لیے ایک علم، اسماء الرجال اور جرح وتعدیل وجود میں آیا جو ان لوگوں کے نام ونسب اور علمی مقام ومرتبہ کی تحقیق پر مشتمل ہے جن سے احادیث روایت ہوئی ہیں۔ احادیث کے بے شمار مجموعوں میں سے معتبر ترین چھ مجموعے ہمارے سامنے ہیں جنھیں صحاحِ ستہ کہا جاتا ہے لیکن عاشقانِ رسولؐ ہر دور میں ان میں سے چنیدہ احادیث کے مزید مجموعے تیار کرکے عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
اس محبت نے حسان بن ثابتؓ کو مدحت محبوب رب العالمین کی اس منزل تک پہنچایا کہ جس پر بجاطور پر رشک کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں ثناء خوانانِ محمدؐ اپنی عقیدت کے موتی نعت کے قالب میں ڈھالتے ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں غیرمسلم بھی۔ایک طرف لوگ آپؐ کے بیان(حدیث) جمع کررہے تھے تو دوسری طرف آپ کے حالات زندگی (سیرت) کے بیان کیے جانے کا عمل جاری تھا۔ آپؐ کی ذات گرامی کو سمجھنے کے لیے نہ صرف اس زمانے کے حالات، جن میں سیاسیات، معاشیات اور اخلاقیات سبھی کچھ شامل تھا بلکہ آپؐ کے آباواجداد کی بلادِ عرب میں حیثیت کا تعین بھی ضروری تھا اور بالآخر آپؐ کی پوری زندگی کیسے گزری، تاکہ لوگوں کے درمیان قرآن مجید بھی موجود رہے، آپ کا بیان بھی اور اس بیانیے پر آپ کا عمل بھی۔
تاریخ اسلام میں قبل از ہجرت دارِ ارقم پہلا مکتب تھا اور بعد از ہجرت مسجد نبویؐ سے متصل صفہ (چبوترا) دوسرا۔ اس صفے پر لوگ جمع ہوتے، وہیں آپؐ سے یا ایک دوسرے سے اکتساب علم کرتے۔ آپؐ کے وصال کے بعد یہ چبوترا ہی آپؐ کے تذکرے کا محور بنا، یہاں وہ لوگ جنھوں نے آپؐ کا دور نہیں دیکھا تھا آپؐ کے بارے میں معلومات حاصل کرتے۔ یہیں کسی واقعہ کے بارے میں افراد کی مختلف آرا پر گفتگو ہوتی اور بات/واقعہ کی اصل صورت نکھر کر سامنے آجاتی۔ یہ مباحث ہی وہ غیرروایتی ذریعہ تھے، جو سیرت کی تدوین کا بنیادی ماخذ بنے۔
سیرت ابن ہشام اور ابن کثیر بے شک پہلے اور بنیادی حوالے ہیں لیکن ان بنیادی حوالوں کو سامنے رکھ کر مختلف لکھنے والوں نے اپنی طبع اور رجحان کے حوالے سے سیرت نگاری کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے اردو میں سیدسلیمان ندوی اور شبلی نعمانی کی کتابیں معرکے کی چیز ہیں۔ قریبی زمانے میں نعیم صدیقی کی محسن انسانیتؐ اور صفی الرحمن مبارک پوری کی الرحیق المختوم اپنی طرز کی بے مثال کتابیں ہیں۔ چودہ صدیوں سے سیرت نگاروں کا قافلہ رواں دواں ہے۔اس قافلے میں اپنی جگہ بنانے والے برادرِ عزیز حافظ محمد ادریس، جو زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور عملی زندگی میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں ان چند خوش قسمتوں میں سے ہیں جو جماعت اسلامی کی دعوتی وتنظیمی سرگرمیوں کے باوجود لکھنے کا کام مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا اصل کام آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ وصحابیاتؓ کے علاوہ عالم اسلام کی اہم شخصیات کی سیرت نگاری ہے۔
سیرت النبیؐ کے حوالے سے ان کی کتاب رسول رحمتؐ تلواروں کے سائے میں (پانچ جلدیں) مکمل ہونے کے بعد ان کی تازہ کاوش رسولِ رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں ہے، جس کی جلد اول کے بعد جلد دوم بھی چھپ چکی ہے۔ اس حصے کا آغاز پہلی ہجرت حبشہ سے ہوتا ہے۔ جب بلد الامین (مکہ) مسلمانوں کے لیے حلال کرلیا گیا تو اللہ نے آپؐ کی رہنمائی فرمائی کہ حبشہ ایک ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کو امان مل سکتی ہے۔ آپؐ کے کہنے پر مکہ سے ہجرت کرنے والوں میں حضرت عثمان غنیؓ اور ان کی اہلیہ رقیہؓ بھی شامل تھیں۔
حافظ صاحب نے ہجرت کو غیرمشروط اطاعت سے تعبیر کیا ہے۔ اس باب میں مہاجرین کی واپسی اور اس کا پس منظر بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ہجرت حبشہ ثانیہ کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔حضرت حمزہؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابوذر غفاریؓ کے قبول اسلام کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ شعبِ ابی طالب، کفر کے ظلم کی نشانی ہے۔ جبری سماجی ومعاشی مقاطعہ، جو ابوجہل اور ابولہب کی شیطنیت کی علامت تھا۔ معجزہ یہ ہوا کہ اس حوالے سے سردارانِ قریش کے معاہدے کو دیمک چاٹ گئی اور اہلِ ایمان کے شعب ابی طالب سے باہر آنے کی سبیل پیدا ہوئی۔
اس کتاب میں معجزہ شق القمر کا بھی ذکر ہے، جس میں سیدمودودیؒ کی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کے حاشیے کا حوالہ بھی موجود ہے۔ عام الحزن کے سال کے واقعات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ اس حصے میں حافظ صاحب نے جناب ابوطالب کی وفات کے دنوں کا تذکرہ جن الفاظ میں کیا ہے وہ ممکن ہی نہ تھا اگر وہ دعوت دین کے تقاضوں سے واقف نہ ہوتے۔
سفرِ طائف حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک دل دہلا دینے والا سفر ہے۔ اس کا تذکرہ داعی کی زبان پر رہتا ہے۔ حافظ صاحب نے اس تذکرے میں دعوت کے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ وادی نخلہ میں مانگی گئی دعا اس حصے کو دیگر تذکروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس حصے میں طائف سے مکہ واپسی سے پہلے آپؐ کے قیامِ نخلہ، پھر غارِ حرا اور قریشی سردار مطعم بن عدی کی امان میں آنے کے واقعے کو اگر پوری توجہ سے پڑھا جائے تو ماحول کے مطابق اپنی حرکیات کی ترتیب کی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے۔ مطعم بن عدی امان دیتا ہے، امان کے لوٹانے پر آپؐ سے ناراض ہوتا ہے۔ اس کا بیٹا جبیربن مطعم اس گروہ میں شامل ہوتا ہے جو ہجرت سے قبل آپؐ کو نعوذباللہ قتل کرنے کے ارادے سے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کیے بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود حسان بن ثابتؓ مطعم بن عدی کی وفات پر اس کا مرثیہ لکھتے ہیں۔ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم فتح بدر کے موقع پر فرماتے ہیں کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا تو میں اس کے کہنے پر قریش کے ۰۷ قیدیوں کو غیرمشروط طور پر رہا کردیتا۔ اس حکمت کی بدولت مطعمبن عدی کے کئی بیٹے ایمان لائے جن میں آپؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے جبیر بن مطعم بھی شامل تھے۔
اللہ کریم میرے بھائی حافظ محمد ادریس صاحب کی تمام علمی اور عملی کاوشوں کو قبول فرمائے اور ان کے قلمی جہاد کو ان کے حق میں توشۂ آخرت بنادے۔ آمین

مزید :

ایڈیشن 1 -