اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 137
یہاں بانس او رناریل کے ایک آڑھتی سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہاں سے گوالیار کا شہر پچاس کوس کے فاصلے پر ہے۔ وہ چھکڑے پر ناریل اور کچے کیلے لے کر گوالیار کی جانب جانے والا تھا۔ میرے پاس کوئی اشرفی تو کیا پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ میرا لباس بھی جگہ جگہ سے پھٹ رہا تھا۔ میں نے اس آڑھتی کو بتایا کہ مجھے ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا تھا۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا ہوں۔ اس نے ہمدردی کے طور پر مجھے اپنی گٹھڑی میں سے ایک دھوتی اور کرتہ نکال کر پہننے کو دیا اور اپنے چھکڑے پر بیٹھ کر گوالیار تک سفر کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ پچاس کوس فاصلہ ہم نے دو دنوں میں طے کیا۔ تیسرے روز دن کی روشنی میں دور سے گوالیار شہر کی فصیل نظر آنے لگی تو میری جان میں جان آئی۔ فصیل کے چار بڑے بڑے دروازوں کے اندر بندھیا چل کی پہاڑیوں کے دامن میں یہ شہر آباد تھا۔ اس شہر پر چندل خاندان کے راجہ چندل ویر کی حکمرانی تھی۔ خلجی فوجوں نے ابھی اس شہر کا رخ نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ دہلی میں امراء اور شاہی خاندان کی باہمی سازشیں اور چپقلش تھی۔ جس کا حال میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 136 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
گوالیار شہر کے بازار کشادہ مگرگلیاں تنگ و تاریک اور اونچی نیچی تھیں۔ اس شہر کا راجہ چندل ویر ایک کٹر برہمن راجہ تھا جو بھگوان شو کا پجاری تھا۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق بھگوان شو تخریب کی علامت ہے۔ وہ بڑا متعصب تھا اور دوسرے مذہب کے لوگوں پر بڑی سختی کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے گولیار شہر میں مسلمانوں کے جو چند ایک گھرانے تھے وہ نقل وطن کرکے دہلی کی طرف کوچ کرچکے تھے۔ میں جس آڑھتی کے ساتھ گوالیار میں آیا تھا۔ اس نے مجھے اپنی حویلی میں ٹھہرالیا۔ میں نے اس پر یہی ظاہر کیا تھا کہ میں ہندو برہمن ہوں۔ میرا مقصد وہاں سے کسی قافلے کے ساتھ شامل ہوکر دہلی کی طرف کوچ کرنا تھا۔ میرے پاس سفر خرچ بالکل نہیں تھا۔ میرا ارادہ شہر میں محنت مزدوری کرکے کچھ پیسے کمانے کا تھا۔ اس وقت مجھے اپنا پرانا سانپ دوست قنطور بہت یاد آرہا تھا۔ اس کا دیا ہوا سانپ کا قیمتی مہرہ بھی مجھ سے ضائع ہوچکا تھا۔ اگر میرا ناگ دوست قنطور میرے ساتھ ہوتا تو مجھے اتنی مصیبتیں نہ اٹھانی پڑتیں اور وہ گولیار کے کھنڈروں میں جاکر اپنے مطیع سانپ کی مدد سے زمین میں دفن شدہ خزانے کی کچھ دولت بھی بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا تھا۔
اب تو میں اپنی طاقت ہی کھوچکا تھا۔ ایک اعتبار سے میں بے بسی اور لاچاری کی زندگی بسرکررہا تھا۔ جب میرے ہندو آڑھتی میزبان کو پتہ چلا کہ میں دہلی جانا چاہتا ہوں تو اس نے بڑی فراخ دلی سے م جھے سفر خرچ دینے کی پیشکش کی اور میں نے بھی بڑی فراخدلی سے اسے قبول کرلیا۔ مجھے دہلی سے کسی قافلے کی آمد کا انتظار تھا۔ ہندو آڑھتی کا نام شیوا پاند تھا۔ یہ ایک ادھیر عمر کا کٹر برہمن ہندو تھا۔ جس کی ایک ہی بیٹی سوئیکارنی نام کی تھی۔ ان ہی دنوں اسے ایک ایسا مرض لاحق ہوگیا کہ وہ بستر کے ساتھ لگ گئی۔ میں جنگل میں جاکر اس کے لئے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرکے لایا۔ اس کا علاج کیا اور وہ پھر سے صحت مند ہوگئی۔ لڑکی کا باپ شیواپاند مجھ سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے مجھے کہا کہ میں اس کی بیٹی سوئیکارنی سے شادی کرلوں۔ سوئیکارنی اگرچہ بہت خوبصورت برہمن زادی تھی مگر میں کوئی ایسی دوسری مخلوق تھا اور اس سے شادی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ میرے دل کو پکا یقین تھا کہ ایک نہ ایک روز میری کھوئی ہوئی غیر فانی طاقت مجھے ضرور واپس مل جائے گی اور اس لحاظ سے میرا کسی فانی مخلوق کے ساتھ شادی کرنا مناسب نہیں تھا۔ ویسے بھی ایک خانہ بدوش تھا۔ تاریخ کے ناقابل عبور صحراؤں کا مسافر تھا۔ میں کسی لڑکی سے شادی رچا کر اس کی زندگی فراق کے لق و دق۔۔۔ ریگزاروں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے یہ کہہ کر شیواپاندیا کو ٹال دیا کہ میرے اپنے ہی خاندان کی ایک لڑکی سے منگنی ہوچکی ہے۔ اسے میری بات کا یقین آگیا۔ اتفاق سے سوئیکارنی کے لئے گولیار شہر کے ایک برہمن پنڈت کے بیٹے کا رشتہ آگیا۔ میں ابھی پاندیا کی حویلی میں سے دہلی سے آنے والے قافلے کا انتظار ہی کررہا تھا کہ سوئیکارنی کی پنڈت کے بیٹے سے شادی ہوگئی۔ میں زیادہ وقت شہر اور شہر سے باہر جنگل اور کھیتوں میں گزارا کرتا کیونکہ گھر میں رہتے ہوئے مجھے خدشہ تھا کہ کہیں برہمن پاندیہ میرا اصل مذہب ظاہر نہ ہوجائے۔ اس میں کوئی خطرناک بات نہیں تھی لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے میزبان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے جب کہ وہ مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ بھی پیش کرچکا تھا۔ سوئیکارنی کے بیاہ کو بمشکل چار پانچ روز ہی گزرے ہوں گے کہ ایک دن شام کو حویلی میں لوٹا تو وہاں کہرام مچا ہوا تھا۔
سوئیکارنی کا خاوند مرگیا تھا۔ وہ اپنی نئی بیاہتا دلہن کو لے کر اپنے سسرا ل کی جانب آرہا تھا کہ کسی دشمن نے پیچھے سے خنجر گھونپ کر اس کا کام تمام کردیا۔ چار پانچ روز کی بیاہی دلہن بیوہ ہوگئی لیکن اس وقت میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ جب میں نے سنا کہ نوجوان بیوہ کو اپنے مردہ شوہر کے ساتھ ہی چتا پر جلانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اس زمانہ میں ستی کی رسم عام تھی اور خاص طور ر برہمن عورتیں اپنے مردہ شوہروں کا سرگود میں رکھ کر جل کر راکھ ہوجاتی تھیں۔ عام طو رپر کٹر مذہبی ہندو بیوہ عورتیں خوشی خوشی آگ میں جل جاتی تھیں کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ وہ اگلے جنم میں اپنے شوہر کی بیوی بن کر ظاہر ہوں گی لیکن قدیم ہندوستان میں رہتے ہوئے ایسے واقعات بھی میری نظر سے گزرے کہ بعض ہندو بیوہ عورتیں چتا پر جلنا نہیں چاہتی تھیں مگر برہمن اور رشتے داروں نے انہیں زبردستی آگ کے شعلوں میں دھکیل دیا۔
شیواپاندیا کی لڑکی چونکہ برہمن زادی تھی۔ اس لئے مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے اپنے مرنے والے شوہر کے ساتھ خوشی خوشی ستی ہوجائے گی لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ جب میں اس کے پاس تعزیت کے لیے گیا تو میں نے دیکاھ کہ ابھی اس کے سرخ و سپید نازک ہاتھوں پر مہندی کا رنگ بھی پھیکا نہیں پڑا تھا۔ وہ سفید چادر میں لپٹی سرجھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے سیاہ بال کھلے تھے۔ مانگ کا سیندور بکھر چکا تھا۔ ماتھے کی بندیا مٹادی گئی تھی اور کلائیوں کی چوڑیاں بھی توڑ دی گئی تھیں۔ اس کے قریب ہی کچھ ہندو رشتہ دار عورتیں بیٹھی اشلوک پڑھ رہی تھیں۔ میں سوئیکارنی کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور اس کے خاوند کی موت پر افسوس کا اظہار کرنے لگا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور اس کی پلکوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اس کے چہرے پر غم سے زیادہ خوف و دہشت تھی۔ اس کے خاوند کی لاش دوسرے کمرے میں پڑی تھی اور برہمن پنڈت اور پجاری اس کو نہلانے کے بعد اس پر خوشبوئیں مل رہے تھے۔ اشلوک پڑھنے والی عورتیں ایک مٹی کا گول برتن اٹھا کر لے آئیں جس میں لوہان اور عود سلگ رہے تھے اور درمیان میں شوجی مہاراج کی مورتی رکھی تھی۔ عورتوں نے بیوہ سوئیکارنی کے سر کے گرد اس برتن کو سات بار پھرایا اور اس کے خاوند کی لاش والے کمرے میں چلی گئیں۔
جونہی کمراہ خالی ہوا برہمن لڑکی سوئیکارنی نے میرا بازو زور سے پکڑلیا اور دہشت سے سہمی ہوئی خشک آواز میں کہا
’’مجھے بچالو۔ میں چتا پر جل کر مرنا نہیں چاہتی۔ بھگوان کے لئے ہری لعل مجھے بچالو۔‘‘
میں نے اپنا نام وہاں ہرہ لعل بتای تھا۔ یہ سن کر میں کانپ سا ٹھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ عورت ستی ہونے سے نہ بچ سکے گی اور اسے ہر قیمت پر پنڈت اور اس کے رشتے دار آگ میں جھونک دیں گے۔
میرے دل میں اس کے لئے شدید ہمدردی پیدا ہوگئی اور میں نے اسے ہر قیمت پر اس مذموم رسم کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے اس سے کہا ’’فکر نہ کرو میں تمہیں یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے تکنے لگی۔ جیسے اب اسے خیال آرہا تھا کہ میں اسے اس جہنم سے کیسے نکال سکوں گا۔ اشلوک پڑھتی عورتیں وہی مٹی کا برتن لئے پھر اندر آگئیں اور اسے زمین پر رکھ کر منتروں کا جاپ کرنے لگیں۔ میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا آیا اور سوئیکارنی کے باپ کے پاس جاکر فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ رورہا تھا۔ میں اسے صبر کی تلقین کرنے لگا لیکن میرا دماغ بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا کہ سوئیکارنی کو اس حویلی سے کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ یہ حویلی شہر کے کونے پر ایک گلی کے شروع میں واقع تھی اور اس کی ڈیوڑھی میں گھوڑے بندھے رہتے تھے۔
اگرچہ اصولی طور پر مرنے والے کا کریا کرم اس کے ماں باپ کے گھر میں ہونا چاہیے تھا مگر یہ کسی خاص گوت کے برہمن تھے جن کے ہاں اگر بڑی اولاد کی شادی کے بعد لڑکا شوراتری سے پہلے پہلے فوت ہوجائے تو کریا کرم لڑکی کے گھر والے کرتے ہیں تاکہ منحوس لڑکی کا سایہ بھی اب اپنے سسرال کے گھر پر نہ پڑنے پائے۔ یہی وجہ تھی کہ کریا کرم کی ساری رسومات سوئیکارنی کے باپ کے گھر میں ادا ہورہی تھیں۔ مرنے والے کے رشتے دار بھی جمع تھے اور ماتم ہورہا تھا۔ ہندو عورتیں ٹولیاں بنا کر بیٹھی تھیں اور انوچی آواز میں بین کررہی تھیں۔ رات کا اندھیرا ہوتے ہی بیوہ سوئیکارنی کو کمرے میں لے جاکر چتا پر ستی ہونے کے لئے تیار کیا جانے لگا۔ اس کو زعفرانی ساڑھی پہنائی گئی۔ بالوں میں کافور لگایا گیا۔ سات ناریل اس کے آگے توڑے گئے اور اس کے خاوند کی لاش کے گرد سات پھیرے لگوائے گئے۔ اس سارے وقت میں سوئیکارنی کا نازک جسم موت کے خوف سے بید مجنوں کی طرح لرزتا رہا۔
شہر کے باہر شمشان بھومی میں چتا تیار ہوچکی تھی۔ وقت گزررہا تھا۔ ایک بے گناہ لڑکی کو آگ میں جلانے کی ساری تیاریاں زور شور سے ہورہی تھیں۔بدنصیب برہمن لڑکی نے اپنی زندگی کی امید صرف اس وعدے سے باندھ رکھی تھی۔ میں نے اس کی زندگی بچانے کا اس سے وعدہ کیا تھا اور اب مجھے اپنی جان پر کھیل کر بھی اس کی زندگی کو بچانا تھا۔
یہ میں پہلے ہی طے کرچکا تھا کہ دہلی سے جو قافلہ جلا ہے وہ دس روز بعد گوالیار کی سرائے میں اترے گا اور پھر وہیں سے ایک تازہ دم قافلہ چھکڑوں، گھوڑوں اور اونٹوں پر سامان اور مسافر لاد کو چار روز بعد دہلی کی طرف روانہ ہوگا۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ میں سوئیکارنی کو گوالیار سے کالنجر کی طرف نکل جاؤں گا اور وہاں سے کسی قافلے میں شریک ہوکر دہلی کی طرف کوچ کروں۔ رات کے بارہ بجے تک بے چاری سوئیکارنی کو دو بار غش آیا۔ تشتے دار یہی کہتے کہ بے چاری کو اپنے پتی کی موت کا کتنا دکھ ہے۔ بار بار غش کھا رہی ہے۔ حالانکہ سوئیکارنی کو چتا میں جل کر راکھ ہونے کے خوف سے غش آرہا تھا۔ سبھی رشتے دار سوئیکارنی کو منحوس ڈائن بھی کہہ رہے تھے اس نے بیاہ کے پانچ روز بعد ہی اپنے خاوند کو کھالیا۔ چنانچہ کوئی بھی عورت زیادہ دیر اس کے پاس نہیں بیٹھتی تھی۔ یہ بات میرے حق میں فائدبہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی۔(جاری ہے)