حضرت پیر سید نصیر الدین نصیرؒ
آسمانِ علم وحکمت کے یہ نیّرِ تاباں14نومبر1949ء کو سرزمینِ گولڑہ شریف پرطلوع ہوا کہ جس تابندہ کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی سے ایک جہاں منور ہونا تھا۔آپؒ نے ابتدائی تعلیم آستانہء عالیہ گولڑہ شریف کے علم ومعرفت کے روح پرور ماحول میں اپنے بزرگوں کی سرپرستی میں حاصل کی۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ درسیات کی اکثر کتب نامور مدرس حضرت مولانا فتح محمد گھوٹوی سے پڑھیں۔فنِ قراَت وتجوید میں استادالقّراء حضرت قاری محبوب علی لکھنوی سے کمال حاصل کیا۔جبکہ بخاری شریف،مسلم شریف اور فنون کی بعض اہم کتب ،معروف کتاب’’ مہرِ منیر ‘‘کے مؤلف حضرت مولانا فیض احمدؒ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔آپؒ کی شخصیت کو جلا بخشنے اور نکھارنے میں آپؒ کے دادا جان حضرت سید غلام محی الدین المعروف بابوجی سرکارؒ کی ذاتی توجہ اور باطنی تصرفات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔حضرت پیر سید نصیر الدین نصیرؒ خود حضرت بابو جی سرکارؒ کے بارے ارشاد فرماتے ہیں کہ’’بلا شبہ آپؒ کی قدر افزائیوں اور خصوصی نوازشات نے مجھے علم وادب کے میدان میںآگے بڑھنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ بخشا۔‘‘
حضرت پیر سید نصیر الدین نصیرؒ اپنے والدِ محترم حضرت غلام معین الدین المعروف بڑے لالہ جیؒ کے 1997ء میں وصال کے بعد مسندِسجادگی پر جلوہ افروز ہوئے۔اور تا دمِ واپسیں ،اس شان سے مسند نشین رہے کہ جس کی مثال بہت کم ملتی ہے،آپؒ نے حقیقی معنوں میں مسندِ سجادگی پر بیٹھنے کے تمام تر تقاضوں کو کماحقہ پورا کیا۔آپؒ روائتی سجادہ نشین نہ تھے بلکہ مجددِ ملت مہر علی شاہؒ کی روحانیت ومعرفت اور علم وسلوک کی انمول دولت کے حقیقی وارث ہونے کے ناطے’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری‘‘کا عملی ثبوت پیش کیا۔
سلسلہ چشتیہ تونسویہ کے روحانی پیشوا حضرت خواجہ صوفی جمال الدین تونسویؒ المعروف دیوانہء سرکار(خانقاہ دارالجمال،دیپال پور)بھی پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کی اسی رسم شبیری کا تذکرہ اپنی مجالس میں بڑے فخر کیساتھ کیا کرتے تھے اور اگر کبھی کوئی آپؒ کے آستانہ پر مرید ہونے کے لیے آتا تو آپؒ اکثراسے پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کی خدمت میں بھیج دیتے اور اسے فرماتے کہ’’ پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کو میرا سلام کہنا اور انہیں عرض کرنا کہ مجھے دیپال پور سے صوفی جمال الدین دیوانہ نے آپؒ کے دستِ شفقت پر بیعت ہونے کیلئے بھیجا ہے۔‘‘یاد رہے کہ صوفی جمال الدین تونسویؒ وہ ہستی ہیں کہ جنہیں 1994ء میں دورانِ حج مدینہ شریف میں ’’سنہری جالیوں‘‘کے سامنے پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کی موجودگی میں حضورِ اقدسﷺنے خصوصی طور پرایک خوبصورت’’تسبیح‘‘ عطا فرمائی،جو آپؒ کے تبرکات میں محفوظ ہے ۔
پیر سید نصیر الدین نصیرؒ ،موجودہ دور کے خانقاہی نظام سے مطمئن نہ تھے ۔اِس دور میں ماسوائے چند ایک درگاہوں کے پیر صاحبان اور سجادگان کو(معذرت سے)صرف اور صرف اپنے اسلاف کی ’’کمائی‘‘ کھانے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں۔بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گاکہ محض مال ودولت اور ظاہری شان وشوکت،نمود ونمائش اور اپنی’’نفری‘‘ بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات،اِدھر اُدھر کے بے سود کاموں میں صرف کرنے کی وجہ سے،تصوف وفقر کے خوبصورت اور دلکش چہرے پر دبیز پردے ڈال رکھے ہیں۔کس قدر روشن دور تھا کہ جب یہی ’’خانقاہیں ‘‘رشد وہدایت کی مرکز ہوا کرتی تھیں۔جبکہ اب تو صرف ’’تجارتی مراکز‘‘ کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔اور اولیائے کرام وبزرگانِ دین کے یہ روحانی مراکز،ایسے ناخلف اور نااہل افراد کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکے ہیں کہ جن میں علم وعمل اور رضائے الہٰی کے عناصر نظر نہیں آتے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے شائداسی تناظر میں فرمایا تھا کہ
زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن
پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دینِ اسلام کی بے لوث خدمت اور عشقِ مصطفےٰﷺ سے مزین تھا۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کی یاد میں ہونے والے ریفرنس کے موقع پر پڑھا جانے والا سید مزمل حسین کے مضمون سے لی گئیں چند سطور پیشِ خدمت ہیں۔
’’بہت سے لوگوں نے کہا کہ ۔۔۔خورشید چھپ گیا ہے ستارے اداس ہیں۔۔۔ان کا یہ کہنادرست دکھائی دیتا ہے ۔پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کو سورج سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔کیوں؟۔۔۔اس لیے کہ انہوں نے روائتی خانقاہی نظام سے منسلک رہتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کی۔انہیں سورج سے اِس لیے تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ اِن کی کرنیں ہر سُو پڑیں۔وہ ایک پیرزادے تھے چاہیے تو یہ تھا کہ اِس نظام میں رہ کر زندگی گزار دیتے،لیکن انہوں نے سوچا کہ میں پیر تو ہوں لیکن ذرا منفرد پیر بننے میں کیا حرج ہے؟اِس کے لیے انہوں نے اپنے جد امجد پیر مہر علی شاہؒ سے پوچھا ہوگا تو ان کی جانب سے لازماََ رہنمائی ملی ہوگی۔پیر مہر علی شاہ بھی تو منفرد تھے ۔پیر مہر علی شاہ نے بھی تو روائتی نظام سے ہٹ کر سفر کیا تھا۔انہوں نے بھی تو اپنے وقت کے سب سے بڑے فتنے جس کی زد براہِ راست ختم نبوت کے عقیدے پر پڑی تھی،کا بھر پور محاسبہ کیا تھا۔پیر مہرعلی شاہؒ نے بھی تو شاعری کا سہارا لیا تھا اور اپنے پیغام کو لافانی بنا دیا تھا اور پیر سید نصیر الدین نصیرؒ نے بھی شعوری طور پر اِسی راہ پر سفر کیا ۔پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کی نظر نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ اُن کے زمانے کا ایک فتنہ امتِ مسلمہ میں افتراق کا ہے ۔اور اُن کے زمانے کا دوسرا بڑا فتنہ اُمت کے دلوں سے حبِ رسولﷺ کو ختم کرنا ہے۔
پیر سید نصیر الدین نصیرؒ نے اپنی زندگی انہی دو فتنوں کے سد باب کیلئے صَرف کردی۔انہوں اس کیلئے تقریرو تحریر کا بھر پور استعمال کیا۔اللہ تعالیٰ نے اِنہیں جو وجاہت عطا فرمائی تھی اِس کا استعمال کیا اور بھرپور انداز میں اُمت کے اتحاد کی بات کی ۔انہوں نے حبِ رسولﷺ کو مزید پختہ کرنے کیلئے اپنی زبان اور قلم کا خوب استعمال کیا۔
پیر سید نصیر الدین نصیرؒ ایسے افراد کے پاس بھی چلے جایا کرتے تھے جن کے باعث انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا،لیکن مجال ہے کہ ان کے جذبے میں کمی آئی ہو۔وہ کہا کرتے تھے کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کے اندازِ گفتگو کا یہ عالم تھا کہ وہ مختلف اجتماعات میں سامعین کے غلط معتقدات پر بھر پور تنقید کیا کرتے تھے لیکن انداز اتنا دل نشین ہوتا تھا کہ لوگ اجتماعات کے بعد بدمزہ نہیں ہوتے تھے،بلکہ ان کے ہاتھ چومنے کیلئے دوڑے چلے آتے تھے۔‘‘
پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کے بارے میں صاحبزادہ محمد محب اللہ نوری ’’طلوعِ مہر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’پیر سید نصیر الدین نصیرؒ عہدِ حاضر کے عبقری انسان تھے،وہ علم وادب کے مرجع البحرین،سادات کے گوہرِ آب دار،بارگاہِ غوثیت کے مقبول،اسلاف کی میراث،اخلاف کیلئے مشعلِ راہ،اہل دنیا کیلئے سراپا استغناء اور احباب کیلئے مہر ومحبت۔۔۔جدید وقدیم علوم پر ان کی گہری نظر تھی،وہ قطبِ عالم حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کے فیضان کے امین اور اِسرارِ طریقت کے رمزشناس تھے۔‘‘
پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کو بیک وقت سات زبانوں پر عبور حاصل تھا۔آپؒ ایک قادرالکلام اور منفرد لہجے کے عظیم شاعر بھی تھے ۔انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں ہونے والا مشاعرہ پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کی زندگی کے چند اہم اور خاص مشاعروں میں سے ایک تھا،جس میں احمد ندیم قاسمی ایسے جید اور معروف شعراء کرام تشریف فرما تھے،قاسمی صاحب نے اسی موقع پر کہا تھا کہ’’قبلہ پیر صاحب جس محفل میں موجود ہوں وہاں پر علم وادب کے متوالے اس طرح اکٹھے ہو جاتے ہیں ،جیسے شمع کے گرد پروانے۔‘‘
پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیوکے زیرِاہتمام۔۔۔جشنِ عید میلادالنبیؐ کے سلسلہ میں نعتیہ مشاعرہ ہو یایومِ عاشور کے موقع پر محفلِ مسالمہ۔۔۔کوئی پرگرام ایسا نہ تھا جس میں پیر سید نصیر الدین نصیرؒ نے خصوصی طور پر شرکت نہ کی ہو۔اس حوالے سے معروف شاعر اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین افتخار عارف سے استفسار کیا گیا کہ پاکستان ٹیلیویژن پر ہونیوالے مشاعروں میں پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کو مشاعرے کی صدارت صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ ایک معروف درگاہ کے سجادہ نشین ہیں۔؟اس پر افتخار عارف نے کہا کہ ’’پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کو صدارت ان کے علمی ادبی اور روحانی مرتبے کی بنیاد پر ملتی ہے۔پیر صاحب ایسی محافل میں ہماری خواہش پر تشریف لاتے ہیں،وگرنہ بے پناہ مصروفیت کی بِنا پر اُن کیلئے ایسی محافل میں آنا مشکل ہوتا ہے،پیر صاحب ذاتی طور پر بھی اسے زیادہ پسند نہیں کرتے۔‘‘
پیر سید نصیر الدین نصیرؒ فارسی زبان کوزیادہ پسندکرتے تھے شائد اس لیے کہ ہمارے اسلاف کی زیادہ تر کتابیں فارسی زبان میں تھیں۔کتب کا مطالعہ کثرت سے کرتے ،ایک لمحہ بھی فراغت کا ملتا تو کتاب کی ورق گردانی شروع کردیتے۔قدیم شعراء کرام اور اساتذہ کے دیوان آپؒ کے زیرِ مطالعہ رہتے تھے،اور ہزاروں شعر ازبر تھے۔یہی وجہ تھی آپؒ کے کلام میں مولانا جامی،عمر خیام،انیس،ابو سعید ابوالخیر،شیخ سعدی ،مولانا روم،خاقانی،مرزابیدل دہلوی،خواجہ میر درد،مرزا غالب،سرمد،دبیر،اور امجد حیدر آبادی ایسے اکابرین علم وادب کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔
آپؒ نے ایک نہیں،کئی کتابیں اربابِ علم ودانش کے ذوقِ مطالعہ اور عوام الناس کی اصلاح کیلئے لکھیں۔جن میں نثر میں ’’نام ونسب‘‘بڑی ضخیم اور مفصل کتاب ہے ،جسے بہت زیادہ شہرت ملی۔فارسی میں رباعیات کا مجموعہ’’آغوشِ حیرت‘‘ اور’’الرباعیات المدحیہ‘‘ ۔اور منظوم کلام میں ’’دیں ہمہ اوست‘‘مجموعہ نعت۔اس کے علاوہ۔۔۔رنگِ نظام۔۔۔فیضِ نسبت۔۔۔عرشِ ناز۔۔۔جبکہ غزلیات میں۔۔۔’’پیمانِ شب‘‘اور’’دستِ نظر‘‘خاص کر شامل ہیں۔اس کے علاوہ آپؒ نے ’’متلاشیانِ حق ‘‘کیلئے اچھوتے اور منفرد موضوعات پر کئی مقالے بھی تحریر فرمائے۔آپؒ کے بیان اور خطابات پر مشتمل ہزاروں سی ڈیزبھی امتِ مسلمہ کیلئے نایاب سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہم کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب آپؒ نے ایک مرتبہ حضرت بابا بلھے شاہؒ کے عرسِ مقدس کے موقع پر ہم کواپنی زیارت،شرفِ ملاقات اور دربار شریف کے اندر قدم بوسی کیلئے بلوایا تو آپؒ نے نعت کے تقدس اور محافلِ نعت کے متعلق سیر حاصل گفتگواور ارشادات فرمائے،جو ہمارے کانوں میں آج بھی رس گھول رہے ہیں۔آپؒ نعت کے حوالے سے یہ بھی فرمایا کرتھے کہ نعت شریف کا مقصد حضورِ اقدسﷺکی سیرت طیبہ کا اتباع ہے۔جبکہ آج امتِ مسلمہ رسولِ عربیﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنے کے بجائے صرف نعت سننے اور سنانے پر گزارہ کررہی ہے۔حالانکہ حضور پر نورؐکی سیرتِ مطہرہ کے ہر پہلو پر عمل کی ضرورت ہے،پہلے سنت رسولؐ پر عمل پیرا ہونا چاہیے اس کے بعد دیگر معامالات ہونے چاہئیں۔اگر پہلے سنتِ رسولؐ پر مکمل عمل ہو اور اس کے بعد نعتِ مصطفےٰﷺ ہو ،تو اس سے مزہ دوبالا ہوجا تا ہے،ورنہ صرف نعت پر گزارہ کرنا اور اسلامی اقدار کو پورا کرنا بے فائدہ چیز ہے۔آج حکومت صرف ایک دن سرکاری سطح پر ’’سیرت کانفرنس‘‘کا انعقاد کرکے یہ سمجھتی ہے کہ ہم نے محسنِ انسانیت ،ھادیء عالمﷺکے شایانِ شان کام کردیا ہے۔اس طرح کا عمل نہیں ہوناچاہیے۔یہاں قرآن و سنت کا نظام ہونا چاہیے۔پھر اس امت کو اس نظام کا عادی بنایا جائے تاکہ اسلام کی تعلیمات پر مکمل طورپرعمل ہو سکے۔
آپؒ نے قارئین کے ذوقِ مطالعہ،اصلاح اوراپنی تعلیم کو عام کرنے کے جذبہ سے سہ ماہی’’طلوعِ مہر‘‘کے سے نام ایک میگزین بھی شروع کیا تھا جو آستانہ ء عالیہ گولڑہ شریف سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔آپؒ کی خصوصی کاوشوں سے جدید وقدیم علوم کی تحصیل کے سلسلہ میں’’جامعہ مہریہ نصیریہ‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان یونیورسٹی کا قیام بھی کیا گیا ہے،جس کاافتتاح آستانہء عالیہ خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ کا فیض یافتہ آستانہء عالیہ سیال شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ حمید الدین سیالوی مدظلہ العالی نے اپنے دستِ مبارک سے فرمایاتھا۔آخر کار سرزمینِ گولڑہ شریف سے طلوع ہونے والا یہ’’آفتاب‘‘17 صفر1430ھ بمطابق13فروری2009ء بروز جمعۃالمبارک کو اپنے رفیقِ اعلیٰ سے ملنے کیلئے غروب ہوگیا۔اس وقت آپؒ کی مسندِ سجادگی پر آپؒ کے فرزندِ اکبرصاحبزادہ سید غلام نظام الدین جامی گیلانی جلوہ افروز ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔