حسن نصراللہ کی شہادت اور ایران !
فلسطین کی آزادی کی جنگ میں قربا نیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ حماس کا پشتیبا ن،ایران کا بازو حزب اللہ کے سربراہ حجتہ الاسلام والمسلمین سید حسن نصراللہ کی شہادت یقینا مزاحمتی اسلامی تحریک کے لئے بڑا دھچکا ہے۔قاسم سلیمانی اوراسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت غیر متوقع نہیں تھی] جس انداز سے اللہ کی اس جماعت نے اسرائیل کا جینا دوبھر کردیا تھا،طاقت کے نشے میں مدہوش غاصب ریاست کے دفاعی نظام کو توڑنے والے کی شہادت تو ہونا ہی تھی۔ قانون قدرت ہے ہر کسی کو اس دنیا سے چلے جانا ہے، مگر بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ کر مرنا ہے یا شہادت کا راستہ اختیار کرنا ہے، کئی معروف لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو نظر آ جائے گاکہ بنت رسول فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے اس فرزند نے شہادت کا راستہ اختیار کیا۔ دفاعی اور عالمی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل،لبنان اور غزہ میں جنگ مزید تیز ہو گی جو عالمی جنگ کا نقشہ بھی اختیار کرسکتی ہے۔1960میں بیروت کے نواحی قصبے میں پیدا ہونے والے مجاہد عالم دین حسن نصراللہ کوسید محمد عباس موسوی کی 1992ء میں اسرائیل کے ہیلی کاپٹر حملے میں شہادت کے بعد حزب اللہ کا سربراہ بنایا گیا اور زندگی بھر انہوں نے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔حزب اللہ کی مزاحمتی تحریک 1980میں تشکیل پائی۔ اسرائیل کے خلاف شاید حماس کے بعد واحد مزاحمتی جماعت حزب اللہ ہی ہے۔
حسن نصراللہ کی شہادت کا حکم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دیا۔ جہاں دنیا بھر کے رہنما موجود تھے۔ جنہوں نے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔اسرائیلی وزیراعظم کے خطاب کے دوران کئی ممالک کے وفود نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا،جبکہ اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے عالمی رہنماؤں سے خطاب میں امت مسلمہ کی بہترین ترجمانی کی اور واضح کیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں، ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اس حوالے سے سابق صدر جمہوری اسلامی آیت اللہ شہید ابراہیم رئیسی نے اسی سال مئی میں اپنی شہادت سے ایک ماہ پہلے پاکستان کادورہ کر کے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط اور گہرا کیا، اسی طرح ایران اور سعودی عرب نے اپنے سابقہ ادوار کی رنجشوں کو بھلا کر نئے سفارتی سفر کا آغاز کیا ہے۔ دونوں اطراف سے سعودی عرب اور ایران میں سفارتخانے بھی کھول دئیے گئے ہیں، اسی طرح سے قطر کے ساتھ بھی ایران نے اپنے تعلقات کو بہتر کر لیا ہے۔
ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے عالمی ضمیر کو بھی جھنجوڑا اورسوال کیا کوئی ہمیں بتائے کہ ایران نے کبھی کسی ہمسایہ ملک پر جا رحیت کی یا اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی؟ ایرانی صدر نے میڈیا سے گفتگو میں بھی اپنی پوزیشن واضح کی کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے ایٹمی معائنہ کاری (IAEA)نے ایرانی ایٹمی تنصیبات اور جوہری توانائی کے مراکزپر کیمرے نصب کر رکھے ہیں، جن کی اطلاعات اور فوٹیج ہمہ وقت انہیں ملتی رہتی ہے اور وہ دنیا کو ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں آگاہ کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے دنیا کو یہ بھی یاد دلایا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو ختم کیا تو ایران نے بھی عملداری سے انکار کیا،ایرانی صدر نے شکوہ کیا کہ امریکہ کے کہنے پر یورپی ممالک نے ایران پر مزید پابندیاں سخت کیں جس سے ملت اسلامیہ ایران کے مظلوم عوام کو ادویات اور دوسری اشیاء ضروریہ کی قلت ہوئی،لیکن قوم اپنے لیڈروں کے احکامات پر متفق ہوئی، اس کڑے دور سے بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ایران نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی جدوجہد کے نتیجے میں ایران کے نظام آمریت کو ختم کرکے اسلام اور قرآن کی روشنی میں جمہوری نظام پر اتفاق ہواتوملکی نظام میں ایک تبدیلی نظر آنا شروع ہوئی لیکن انقلاب کی ابتدا میں ہی ایران عراق جنگ شروع ہوگئی، عراق کو اکسایا گیا جس نے ایران پر حملہ کردیا،آٹھ سال تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں ایرانی شہید ہوئے اور بہت ساری املاک کو نقصان پہنچا،یہ سب کچھ امریکہ اور یورپی ممالک کے ایما پر عراقی صدر صدام حسین نے کیا۔امریکہ کے ہمنوا عرب ممالک نے بھی عراق کی مدد کی، اس وقت تو ایران نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا تھا جبکہ وہ اپنی دفاعی جنگ عالمی پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جذبہ شہادت کو سینے سے لگائے لڑی اور اللہ کے فضل و کرم سے ایرانی عوام نے یکجہتی اوریکسوئی سے عالمی سازشوں اور تخریب کاری کا مقابلہ کیا اور رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں دن بدن ترقی کر رہا ہے۔
ایرا ن بین الاقوامی قوتوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہمارے کن اقدامات کی بنیاد پر ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا اورپابندیاں مسلط کی گئیں، صرف اس لئے کہ امریکی نظام کی غلام،رضا شاہ پہلوی کی ظالمانہ بادشاہت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا؟اب ایرانی کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے خلاف پابندیاں واپس لیں پھر بات ہوگی۔ایران یہ بھی پوچھتا ہے کہ اسرائیل نے ہمارے گھر میں ہمارے مہمان حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہماری سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے شہید کیا۔شام میں ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا،ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کیا گیا، یہ سارے اقدامات سفارتی آداب کو نظر انداز کرتے ہوئے کئے گئے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایرانی صدر کی مختلف عالمی رہنماؤ ں سے ملاقاتیں سفارتی تعلقات میں بہتری لائیں گی۔ ایران چاہتا ہے کہ امریکہ اس سے تعلقات بنانے سے پہلے اپنی خباثتوں پر معافی مانگے۔ اسرائیل کی مذمت کرنے کی بجائے امریکہ نے غاصب صیہونی ریاست کی سرپرستی جاری رکھی ہوئی ہے،جس کی وجہ سے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے،ہم ایسے مظالم ہرگز برداشت نہیں کریں گے، اس وقت ایران دنیا بھر کی مزاحمتی تحریکوں کا مرکز ہے اور امریکہ اور اس کے حواریوں کا مخالف ہے۔یہ غلط نہیں ہو گا کہ ایران بہت بڑی اسلامی دفاعی قوت بن چکا ہے، جو امریکہ اور اس کے ساتھی ممالک برطانیہ فرانس جرمنی کے مقابلے میں مظلوموں کی حمایت میں میدان میں ہے۔