پچیسویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی
ترجمہ : نظام الدولہ
میرے اندر حساسیت تھی یا ذمہ داری؟ میں یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ مجھے آغا جی کی مدد کئے بغیر اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ہے۔ یہ ثابت کرنا ہے کہ میں خود کما اور زندہ رہ سکتاہوں۔
عجیب بات ہے کہ میرے بڑے بھائی نور صاحب کی سوچ اس کے برعکس تھی۔ انہیں یقین تھا کہ آغا جی کی بدولت انہیں یہ آسائشیں ہمیشہ حاصل رہیں گی۔ حالانکہ آغا جی کے لیے کاروبار چلانا اور اخراجات پورے کرنا دشوار اور تکلیف دہ ہو چکا تھا۔ آغا جی کا تو ایمان تھا کہ لڑکیوں کو سکول کا لج نہیں جانا چاہئے۔ نور صاحب مجھے اس بات پر اکثر قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ میں بہنوں کے معاملہ میں آغا جی سے ناحق بحث کرتا ہوں کہ لڑکیوں کو سکول اور کالج میں ان کے پسندیدہ مضامین پڑھنے کے لیے جانا چاہئے۔میں بہنوں کی پڑھائی کے حق مین تھا اس لئے وہ مجھ پر تنقید کرتے۔
چوبیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان حالات میں گھر چھوڑنا کسی مہم جوئی سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔ ایک ایسا شہرجہاں جاننے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی مجھے ملازمت حاصل کرنے کا طریقہ آتا تھا،نہ کسی قسم کی معلومات تھیں۔ میں پونا کے ایک ایرانی کیفے میں بیٹھ گیا اور چائے کا آرڈر دیا۔ یہ زندگی کا پہلا اتفاق تھا جب مجھے احساس ہوا کہ پونا آنے کا فیصلہ درست ہے کیونکہ یہاں میں گمنامی کے ساتھ مرضی کی زندگی جی سکتا تھا ۔ ملازمت جیسی بھی ہوتی،کم از کم آغا جی کے خوف کا شکار تو نہ ہوتا۔ میری ملازمت سے ان کے تفاخر کو زد نہ پہنچتی۔ یہاں لوگ مجھے سرور خان کے بیٹے کے طور پر نہیں جانتے تھے۔ میں نے کیفے کے مالک سے فارسی میں بات کی تو وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے سرسری طور پر پوچھا’’کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہاں کسی کو اسسٹنٹ کی ضرورت ہو۔‘‘
اس نے پوچھا ’’تمہارے لئے۔۔۔‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ میں نے کندھے اچکا کر کہا تو اس نے مجھے ایک ریستوران کا پتہ دیا جو یہاں سے قریب تھا ۔اس نے بتایا کہ ریستوران ایک اینگلو انڈین کا ہے۔ وہاں قسمت آزمائی کرو تو شاید بات بن جائے۔
یہ سردیوں کی خوبصورت صبح تھی ۔ سورج بادلوں میں سے جھانک رہا تھا۔ بادل تیزی سے بھاگ رہے تھے جیسے انہیں کہیں جلد پہنچنا ہے۔ بڑا خوبصورت منظر تھا۔ جلدی تو مجھے بھی تھی۔ میں نے بل ادا کیا ۔ایرانی کیفے سے نکل کر موسم کا لطف اٹھاتے ہوئے مطلوبہ ریستوران کی طرف چل پڑا۔ میں آج تک اس دن کو یاد کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے شہر کی گہماگہمی میں ایسی صبح پھر شاید نہ آئی ہو۔
میں کافی تیز چلنے کا عادی ہوں لہٰذا جلد ہی ریستوران تک پہنچ گیا۔ ریستوران کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ ماحول خاصا نفیس تھا۔ یہاں باقاعدگی سے آنے والوں کے لیے اس کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہوتے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں بھی انگریزی ناشتہ کروں۔ ریستوران میں داخل ہوتے ہی بہت اچھا احساس ہوا۔ میز یں قرینے سے میز پوش سے ڈھکی ہوئیں اور ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر تھیں۔ ایک ویٹر گاہکوں کو ناشتا سرو کررہا تھا۔ وہ ٹرے میں آملیٹ اور بریڈ لئے ایک سے دوسری میز پر جاتا۔ مجھے آملیٹ ہمیشہ سے مرغوب رہا ہے۔ اس کی مہک نے کھانے کی اشتہا بڑھا دی اور دل مچلا کہ پہلے ناشتہ کرلینا چاہے۔ لیکن میں نے بھوکے جذبات کو فوراً تھپکی دی۔ ’’نہیں پہلے کام۔۔۔‘‘ میں اپنے مطلوبہ لوگوں کو تلاش کرنے لگا۔ معاً دیکھا کہ ایک جوڑا کیش کاؤنٹر کے عقب میں کھڑا باتیں کر رہا ہے۔ میں ان کے پاس گیا اور کاؤنٹر پر کھڑا ہوگیا۔ وہ دونوں کسی گاہک کے بارے میں باتیں کر رہے تھے لہٰذا میرا نوٹس نہیں کیا۔ پھر چونک کر جب خاتون نے میری جانب دیکھا تو میں نے انگریزی میں ان سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے ایرانی کیفے والے نے ان کا حوالہ دیا ہے۔
خاتون میری بات سن کر مسکرائی تو اسکے رخساروں میں گڑھے پڑ گئے۔ وہ دلکش خاتون تھی۔ اس نے دلربا انداز سے اونچے لانبے شوہر کی طرف مسکرا کر دیکھا ’’لڑکا انگریزی اچھی بول لیتا ہے۔ اسے کنٹین کے ٹھیکیدار کے پاس بھیج دیتے ہیں۔‘‘
اس کا نام ویسلے تھا۔ اس نے محتاط نظروں سے مجھے دیکھا۔ بیوی کی سفارش نے اس کو میری طرف متوجہ کر دیا اور اس نے میرا تعارف سننے کے بعد کہا’’تم شمالی مغربی صوبہ سرحد سے آئے ہو۔‘‘
میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے بتایا کہ کینٹین کا ٹھیکیدار بھی پشاور کا ہے مگر اب پونا میں رہتا ہے۔ وہ اچھا اور معزز شخص ہے۔ یہ سن کر مجھے خوف سا محسوس ہوا کیونکہ میں کسی ایسے شخص کے پاس بھی نہیں جا سکتا تھاجو پشاور کا رہنے والا ہو۔بہرحال وہ آغا جی کو جانتاہی ہوگا اور یہ تعارف میرے لیے مسئلہ پیدا کر سکتا تھا۔
تاہم میں نے اپنی سوچوں اور تحفظات کو ایک جانب رکھا اور مسٹر ویسلے کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ وہ میری سفارش بھی کر دیں۔ وہ مان گئے۔ اب میرا دوسرا اہم قدم رہائش تلاش کرنا تھا۔ میں نے مسٹر ویسلے سے ہی رہ نمائی لی کہ وہ مجھے کسی سستے اور معیاری ہوٹل کا پتا بتا دیں تاکہ میں وہاں رہ سکوں۔ انہوں نے مجھے ایسے ہوٹل میں بھیج دیا جو ان سہولتوں سے آراستہ تھا میں بھی ایک ایسا ہی ہوٹل چاہتا تھا۔
میرا خیال تھا ہوٹل پہنچ کر میں آرام سے سو کر تھکن اتارنے کے بعد اگلی صبح کے لیے تروتازہ ہو جاؤں گا۔ بستر پر سوتے ہی اماں کاچہرہ آنکھوں میں اتر آیا۔ مجھے رہ رہ کر ان کی یاد ستانے لگی کہ میرے رنج میں وہ اپنی صحت کھو بیٹھیں گی۔ نیند کوسوں دور بھاگ گئی اور میں آرام سے سو بھی نہ سکا۔ مجھے اماں بے تحاشا یاد آئیں۔ آنکھیں دل بھرنے سے بھر گئیں۔ جب بھی مجھے نیند نہیں آیا کرتی تھی تو اماں مجھے لوری سنا کر سلاتی تھیں۔ لیکن اس رات میں لوری سنے بغیر سونے کی کوشش کرتا رہا۔ بالاخر جب ذہن پھر اس نکتہ پر پہنچا کہ میں تو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے گھر سے نکلا ہوں اور جب میں کچھ بن جاؤں گا تو اماں اور آغا جی کے رنج بھی دور کر دوں گا۔ اس خیال کے آنے کے بعد مجھے نیند نے قبول کرلیا ور میں سو گیا۔