امریکی صدر کی کامیاب زندگی کے راز،ٹرمپ کی کہانی ، انہی کی زبانی ... دوسری قسط
مارکیٹ میں پھیلا ہوا یہ تاثر کچھ غلط بھی نہیں تھا کہ آنے والے دموں میں ٹرمپ کو بالاخر ہالی ڈے کا نظام سنبھالنا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی اس کی تشخص کرنا قبل از وقت ہے۔ جیسا کہ اس کے حالیہ سٹاک کی قیمت کے مطابق میں 2بلین ڈالر تک اس نظام کوسنبھالنے کے لئے خرچ کرسکتا تھا۔ ہالیڈے کے تین کسینو ہی اس سودے کے مطابق کافی مالیت کے حامل تھے۔ کمپنی کے پاس تین لاکھ کمرے اس کے علاوہ تھے۔
میرے لئے ایک آپشن یہ تھی کہ اگر سٹاک کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کو بیچ کر بھی میں کافی نفع کما سکتا تھا۔ اگر آج اس بات کا فیصلہ کر لیتا تب بھی مجھے سات بلین ڈالر کا نفع ہو سکتا تھا۔ ایک اور آپشن یہ تھی کہ اگر ہالی ڈے والے مجھ سے یہ شیئر واپس بھی لینا چاہتے تو اس میں بھی کافی مارجن مل جاتا۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ساڑھے نو بجے ابراہم ہرش فیلڈ نے مشورہ کرنے کے لیے فون کیا۔ ابراہم رئیل اسٹیت کی دنیامیں کامیاب ترین ڈویلپر کے طور پر مشہور ہے۔ وہ سیاست میں آنا چاہتا ہے۔ لہٰذا وہ بطور سیاستدان کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے مجھ سے مشورہ بھی چاہتا ہے اور رہنمائی بھی۔ بدقسمتی سے ابراہم سیاستدان بننے سے زیادہ ایک ڈویلپر کے طور پر زیادہ کامیاب انسان ہے مگر اس پر سیاست کرنے کا بھوت سوار ہے۔ اس خزاں میں اس نے گورنر کے مقابلے میں ایسے امیدوار کو لڑانے کی کوشش کی جوکمزور تھا ۔گورنر نے فنی بنیادوں پر عدالت سے اس کی ووٹنگ مسترد کرا دی تھی ۔چونکہ گورنر سے میرے ذاتی تعلقات ہیں۔ اب وہ چاہتا ہے کہ میں اس کے اور گورنر کے بیچ معاملات کو حل کرا دوں۔ وہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ کیا اسے اسی پارٹی میں رہتے ہوئے سیاسی امیدوار کا ساتھ دینا چاہئے یا پارٹی تبدیل کرلے۔ تقدیر اس وقت جیتنے والے امیدوار کا ساتھ دے رہی تھی اور ایک اچھا فیصلہ ہی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا تھا۔ میں نے ابراہم کو جمعرات کے روز میٹنگ کرنے کا مشورہ دیا تاکہ اس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکے۔
صبح دس بجے میں نے ڈان رمس کو شکریہ کے لیے فون کیا۔ ڈان امریکہ میں WNBCریڈیو پر کامیاب ترین شو کرنے والا ایک کامیاب کمپیئر ہے ۔وہ انابیل ہل فنڈز کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے کے لیے سرگرم کردار ادا کرتا ہے۔اسکو فون کرنے کا سبب کیا تھا ،یہ بھی سن لیجئے۔
میں نے پچھلے ہی ہفتے ایک خبر پڑھی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جارجیا کی خاتون مسز ہل اپنے فارم ہاؤس کو نیلام سے بچانے کے لیے تگ و دو کر رہی تھیں۔ اس کے 65سالہ شوہر نے چند ہفتے پہلے اس وجہ سے خودکشی کر لی تھی کہ انشورنش کی رقم ادا ہونے سے فارم کو نیلام ہونے سے بچایا جا سکے گا۔ یہ ان کی آبائی جائیداد تھی جو کئی سال سے نسل در نسل ان تک منتقل ہوتی آئی تھی۔ لیکن انشورنس کے پراسس میں کافی تاخیر ہو رہی تھی۔ یہ پیچیدہ اور افسوسناک صورتحال تھی۔ لہٰذا میں نے ان کی مدد کا ارادہ کیا۔ یہاں ابھی بہت سے لوگ موجود ہیں جو دیانتداری اور اخلاص سے دوسروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بینکنگ والے اس مجبور عورت پر مزید ظلم کرنے والے تھے۔ این بی سی کے توسط سے میں نے جارجیا میں فرینک سے رابطہ کیا۔ وہ بہت پر عزم اور متحرک نوجوان ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ مسز ہل کی مدد کرے گا۔ فرینک نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے اس سلسلہ میں بنک سے ڈائریکٹ بات کرنی چاہئے لہٰذا اگلی صبح میں نے بینک کے وائس پریذیڈنٹ سے بات کی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نیویارک کا ایک بزنس مین ہوں اور میں مسز ہل کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے معذرت کر لی اورکہا’’دیکھیں اب اس معاملہ میں کافی تاخیر ہو چکی ہے۔ فارم کی نیلامی ہو کر رہے گی اور کوئی بھی اس کو نہیں روک سکتا۔‘‘
یہ سن کر میرے کان تپ گئے میں نے کہا’’میری بات غور سے سن لو ۔اگر تم لوگوں نے نیلامی نہ روکی تو میں ذاتی طور پر تم لوگوں پر مسٹر ہل کے قتل کا مقدمہ کراؤں گا کیونکہ تم لوگوں کے دباؤ کی وجہ سے انہوں نے خودکشی کر لی ہے ۔ آپ لوگوں نے اسے بہت زیادہ ڈرایا تھا۔‘‘
یہ سنتے ہی وائس پریذیڈنٹ کی آواز کپکپائی اور مجھے اندازہ ہوا کہ وہ نروس ہوگیا ہے۔‘‘
’’ مسٹر ٹرمپ مجھے کچھ وقت دیں آپ پریشان نہ ہوں میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
میں نے فرینک اور مسز ہل نے مل کر میڈیا کو اس معاملہ میں ایک سٹوری تیار کرکے دی جو اگلے روز اخبارات میں شہ سرخیوں سے شائع ہوئی۔ اس کا لامحالہ اثر ہوا۔ فرینک نے ریڈیو پروگرام پر اپیل بھی کی اور ایک ہفتہ کے اندر 60ہزار ڈالر کی خطیر رقم جمع ہوگئی جو ہم نے کرسمس کے تحفہ کے طور پر مسز ہل کو دینے کا پروگرام بنایا تھا۔ میں نے مسز ہل سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ یہ فارم کسی صورت نیلام نہیں ہونے دیا جائے گا ۔اس دوران ہم نے کافی فنڈز حاصل کرلئے تھے اورمیں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر مارگیج کی مطلوبہ رقم کم بھی پڑی تب بھی میں خود اس رقم کا بندوبست کردوں گا۔
جاری ہے۔ تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں