’’مجھے چھوڑ دو۔۔۔‘‘ایک ڈاکٹر کے ساتھ پیش آنے والا وہ پُراسرار واقعہ جس نے اسکی راتوں کی نیندیں اڑا کررکھ دی تھیں

’’مجھے چھوڑ دو۔۔۔‘‘ایک ڈاکٹر کے ساتھ پیش آنے والا وہ پُراسرار واقعہ جس نے ...
’’مجھے چھوڑ دو۔۔۔‘‘ایک ڈاکٹر کے ساتھ پیش آنے والا وہ پُراسرار واقعہ جس نے اسکی راتوں کی نیندیں اڑا کررکھ دی تھیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: فیصل وقاص

ممکن آپ میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جنہوں نے ہا سٹلوں میں کئی سال گزارے ہوں اور ان کے ساتھ بھی ایسا کوئی ہولناک واقعہ پیش آیا ہو۔میرے ساتھ جو واقعہ رونما ہوا،اس نے مجھے ابھی تک الجھا رکھا ہے۔جب بھی میں کسی ہاسٹل کو دیکھتا ہوں میرے ذہن پر دستک ہونے لگتی ہے۔
یہ واقعہ میرے ساتھ اگست 2009میں رونما ہوا جب میں میڈیکل کالج کے پہلے سال میں تھا۔یہ بات اس وقت کی ہے جب میرے سالانہ امتحان ہو رہے تھے اور کچھ ہی دنوں کے بعد کالج میں طالب علموں کا نیا بیج آنے والا تھا۔اس دورانیے میں کالج کے ہی ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا۔
کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو ہاسٹل کی عمارت کے بارے میں تھوڑا بتانا چاہوں گا۔ یہ ایک سوسالہ بہت بڑی تکونی شکل میں تین منزلوں پر مشتمل عمارت تھی۔میرا کمرہ عمارت کے گراؤنڈ فلور پر بائیں طرف نچلے کونے کی طرف آخری کمرہ تھا،جس کا نمبر 11تھا ۔اس عمارت کا ہر وہ کمرہ جو کونے پر واقع تھا وہ دوسرے کمروں سے ذرا مختلف انداز کا تھا،سائز میں ذرا بڑا اور اس کی دیوار کسی بھی دوسرے کمرے کے ساتھ ملحقہ نہیں تھی۔
میرا کمرہ بھی اس عمارت کے کونے پر آخری تھا ،میرے اور دوسرے کمرے کے درمیان تھوڑا فاصلہ تھا اور کمرے کی دیوار میں ایک کھڑکی نصب تھی جہاں سے عمارت کی موجود خالی جگہ اور عمارت کا پیچھے والا حصہ دکھائی دیتا تھا۔
میرا کمرہ سائز میں کافی بڑا تھا جس میں کم از کم چار افرادبا آسانی رہائش پذیر ہو سکتے تھے، کمرے میں پچھلی جانب بھی ایک دروازہ اور اس کے ساتھ بڑی جسامت کی موٹے شیشے والی کھڑکی نصب تھی۔کمرے کے پیچھے ایک چھوٹی سی بالکونی تھی جس میں لوہے کی جالی لگی ہوئی تھی۔
میرے ہاسٹل کی عمارت کے چاروں اطراف بڑے بڑے درخت اور جھاڑیاں تھیں اور یہ ایک بہت ہی دلکش نظارہ کا سماں تھا۔اگر آپ بالکونی میں بیٹھ کر کتاب پڑھ رہے ہوں تو آپ کو وہاں کوئی بھی تنگ کرنے والا نہیں ہوتاتھا۔ان دنوں چھٹیوں پر سب لوگ اپنے گھروں کوچلے گئے مگر چند لوگ جن میں 3یا 4لوگ وہاں پڑھائی کے لیے رک گئے۔میرا گھر بھی ہاسٹل سے کافی دور تھا تو میں نے بھی دوسرے بچوں کی طرح سوچا کہ آنے جانے پہ وقت ضائع کرنے کی بجائے یہاں ہی رہ کرپڑھائی کر لی جائے۔
پورا ہاسٹل خالی تھا ،صرف ہم تین چار لڑکے ہی تھے۔ میں اپنے کمرے میں اکیلا ہی تھا۔اس دن اکیلا ہونے کے باعث میں کمرے کا پچھلادروازہ اور کھڑکی بند کر کے رات کے 11بجے پڑھنے میں مصروف تھا۔ میرے کمرے میں صرف پڑھنے والے میز کی ایک ہی لائٹ چل رہی تھی کہ مجھے اچانک بالکونی والی پچھلی طرف سے کسی کے جھاڑیوں میں چلنے کی آواز سنائی دی۔پہلے تو میں نے اس آواز کو اتنا سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا کیونکہ مجھے اس بات کا علم تھا کہ وہاں جھاڑیوں میں بہت سارے جانور جن میں سانپ، سور، کتے، بندر وغیرہ رہتے ہیں اس لئے میں نے اس آواز پر کوئی توجہ نہ دی۔
اس وقت پورے ہاسٹل میں خاموشی کا عالم تھا ۔اس لمحے یہ آواز اس آواز سے کچھ ذیادہ نہ تھی جو کے جانوروں کے جھاڑیوں میں چلنے کی آواز پہلے آیا کرتی تھی۔اسلیے میں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی،لیکن مجھے اس بات کا علم تھا کہ یہ آواز بالکل میرے کمرے کی پچھلی بالکونی کی طرف سے آ رہی تھی، یہ آواز لمحہ بہ لمحہ میرے قریب آتی محسوس ہو رہی تھی۔
لیکن مجھے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کمرے کا پچلا دروازہ اور کھڑکی بند ہے ،کوئی بھی جانور موٹی دیوار اور لوہے کی جالی عبور کر کے اندر نہیں آ سکتا۔یہ شور تقریباََپانچ منٹ کے لیے رک گیا اور پھر مجھے اپنے کمرے کے پچھلے دروازے کو رگڑنے کی آواز سنائی دی جیسے کوئی جنگلی جانور دروازے کو نوچ رہا ہو۔اسی لمحے میرے کان کھڑے ہو گئے اور میری ساری توجہ اس آواز کی جانب ہو گئی۔
میرا بستر پچھلے دروازے سے کافی دور تھا لہذا میں صرف یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اصل میں یہ ماجرا کیا ہو رہا تھا۔یہ رگڑنے کی آواز 3سے4منٹ تک رکتی اور پھر دوبارہ شروع ہو جاتی۔جب اس آواز کی گونج بہت زیادہ اور دورانیہ طویل ہو گیا تو میں نے اپنی کتاب بند کر دی پر وہاں ہی بیٹھا رہا۔اس آواز میں پھنکار نے اور غرانے کی آواز نہیں تھی بس رگڑنے کی ہی آواز آرہی تھی۔ایسا لگ رہا تھاکہ جیسے کوئی اندر آنے کی کوشش کر رہا ہو۔آوازکی شدت میں ہر گزرتے ہوئے لمحے میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا، کھڑکی پر بھی کسی چیز کا کوئی سایہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
20منٹ میں حالات اتنے پریشان کن ہو گئے کہ میں اپنے بستر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا کیونکہ یہ آواز اس طرح کی ہو گئی تھی کہ جیسے کوئی سنگدلی کے ساتھ دروازے کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔اس دوران مجھے کسی انسان کے کراہنے کی آواز آئی ۔یوں لگا جیسے کوئی کہہ رہا ہو ’’مجھے چھوڑ دو۔۔۔‘‘ایسا لگا جیسے کوئی مرنے والا آخری بار زور لگا کر کچھ کہنا چاہتا ہے ،لیکن ساتھ ایک عجیب سی غراہٹ سنائی دی ،پھر خاموشی چھا گئی ہے۔میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔کہ یہ کون ہوسکتا ہے ،کیونکہ کسی کا دروازے تک پہنچنا مشکل تھا۔
میں جلدی سے کمرے سے باہر نکلا اور جو دو کمروں کے درمیان میں کھڑکی تھی وہاں سے جھک کر اپنے کمرے کے اس دروازے کو دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا ۔میں وہاں دس منٹ تک کھڑا ہو کر یہ سوچتا رہا کہ جب وہاں کوئی نہیں تو پھر دروازے کو کون رگڑ رہا ہے؟۔ میں واپس اپنے کمرے میں آ گیا لیکن اس وقت حیران رہ گیا کہ دروازہ رگڑنے کی آوازیں ابھی بھی آ رہی تھیں حا لانکہ شدت میں کچھ کمی تھی ۔ہر دو منٹ کے بعد وہی آواز آنا شروع ہو جاتی تھیں۔سچ تو یہ ہے کہ میں بہت خوف زدہ ہوگیا تھا ۔
میں نے وہاں سے بھاگ جانے ہی میں عافیت جانی ۔ میرے ساتھی طالب علم منزل کے دوسرے اختتام کے کونے والے کمرے میں تھے۔میں اس کے کمرے میں چلا گیا اور ان پر اپنا خوف اپنے جسم اور شکل سے ظاہر نہیں ہونے دیا۔
میں نے اپنے ساتھی طالب علم کو اپنے کمرے میں آکر اکٹھے پڑھنے کے لیے مدعو کیا لیکن اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا کے میرے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔وہ اس بات پر راضی ہو گیا اور اپنی کتابیں اٹھا کر میرے کمرے میں آ گیا۔اس نے پچھلے دروازے کے ساتھ والا آخری بستر پسند کیا اور وہاں بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیا۔
دروازے کو رگڑنے کی آوازیں یقینی طور پر کم ہو چکی تھیں لیکن بالکل ختم نہیں ہوئی تھیں۔یہاں تک کہ میرے دوست نے اس کا ذکر مجھ سے کیا لیکن اس نے اس آواز پہ کوئی زیادہ توجہ نہیں دی۔تقریباََ20منٹ کے بعد بالکونی میں بالکل رات کی خاموشی چھا گئی ۔روزانہ معمول کے مطابق میں نے اپنی لائٹ والی بیٹری لی اور پچھلے دروازے کو کھول دیا لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا ۔جبکہ دروازے کے پاس خون کے قطرے بھی موجود تھے ،کسی بھی جھاڑی میں کچھ بھی نہیں تھا ۔کوئی جانور بھی نہیں تھا ۔ میں ساری رات اس پیش آنے والے خوفناک واقعے کی وجہ سے سو نہیں سکا تھا۔بلکہ کئی راتیں اسی خوف میں ڈوبی ہوئی گزرگئیں ۔
میری زندگی کے بہت سارے تجربات اس کمرے کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن یہ جو ہولناک حادثہ میرے ساتھ اس رات رونما ہوا ایسا میرے ساتھ پوری زندگی میں کبھی نہیں ہوا۔میں آج تک حیرانی سے سوچتا ہوں کہ وہ کون تھا؟اور میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا اور اگر میں اس وقت دروازہ کھول دیتا تو کم از کم یہ حقیقت تو جان سکتا تھا جس کے خیال نے مجھے ابھی تک الجھا رکھا ہے ۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔