ایک اوپننگ بیٹسمین کا نام ”بد روح“ رکھ دیا گیا، آؤٹ ہی نہ ہوتا، ہماری باری ہی نہیں آتی تھی، آج لوگ کر کٹ کے میدانوں سے جیبیں بھرتے ہیں 

 ایک اوپننگ بیٹسمین کا نام ”بد روح“ رکھ دیا گیا، آؤٹ ہی نہ ہوتا، ہماری باری ...
 ایک اوپننگ بیٹسمین کا نام ”بد روح“ رکھ دیا گیا، آؤٹ ہی نہ ہوتا، ہماری باری ہی نہیں آتی تھی، آج لوگ کر کٹ کے میدانوں سے جیبیں بھرتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:127
 کلب میں خرم حفیظ، سیلم تاج،(سیلم تاج بہت اعلیٰ اوپنگ بیٹسمین تھا۔ اسے آؤٹ کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ وہ آؤٹ نہ ہوتا تو ہماری باری ہی نہیں آتی تھی۔ اتفاق دیکھئے میچ کی ابتدا ء میں ہی اس کا کیچ ڈراپ ہو جاتا تھا۔ امجد بخاری مرحوم نے اس کا نام ہی ”بدروح“ رکھ دیا تھا۔) ناصر عباس، سعید خاں، اکبر خاں، جاوید اسلم، عظمت بھائی، شاہد یوسف، احد نواز، خلیل الرحمان،عتیق گوہر،جاوید برکی، سلمان ثانی(دنیا سے رخصت ہو کر ہمیں اپنی یادوں کو چھوڑ گیا ہے۔)، عبدالشکور، ممتاز خان،ذوالفقار گاموں، ندیم زماں، قیصر بھائی(بہت سلجھے ہو شخص تھے)، سہیل بھائی، مظفر محمود، طارق ٹڈا، طارق جبرو، فیصل وحید، مینو بھائی، شعیب وغیرہ اچھے کھلاڑی تھے۔ فیصل،ذوالفقار، جاوید تو کینیڈا سیٹل ہو چکے ہیں، عارف بھائی امریکہ ہیں اور ابرار بھائی اپنے ابدی گھر جا چکے ہیں۔ نامور سپورٹس جرنلسٹ اور سپورٹس میگزین کے ایڈیٹر محترم سلطان فیاض حسین کلب کے سربراہ تھے۔وہ کمال درویش منش، ہنس مکھ، شفیق، پڑھے لکھے، خاندانی انسان تھے۔ کرکٹ سے انہیں عشق تھا۔گراؤنڈ کی صفائی بھی کر نے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ کبھی بھی کسی سلیکٹر کے پاس جا کر اپنے کلب کے کھلاڑی کو سلیکٹ کروانے کے لئے منت ترلہ نہیں کرتے تھے۔ خوددار انسان تھے۔اسی لئے بہت سے کھلاڑی کلب چھوڑ کر دوسرے کلبوں میں چلے گئے۔ ان میں سلیم تاج، ناصر عباس نمایاں تھے۔ کر کٹ سنٹر میں کھیلنے والے بہت سے کھلاڑیوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی بھی نمائندگی بھی کی۔جن میں بابر اعظم، اکمل برادرز(عمر، عدنان، کامران) وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے ایک سابقہ کر کٹ کپتان اظہر علی بھی کچھ عرصہ اسی کلب سے وابستہ رہے۔ اظہر بابر اور خرم کے ماڈل کالج میں شماریات کے پروفیسر ”محمد رفیق“ کا فرزند تھا۔ یہ اپنے بیٹے کو موٹر سائیکل پر گراؤنڈ تک لاتے تھے۔ سلطان صاحب اگر اُس وقت تک زندہ ہوتے تو بہت مسرور ہوتے۔ میں نے زندگی بھر ان جیسا بے لوث اور محبت کرنے والا سپورٹس آر گنائیزر نہیں دیکھا۔لوگ کر کٹ کے میدانوں سے جیبیں بھرتے ہیں مگر انہوں نے ذاتی جیب سے کرکٹ سنٹرکو پروان چڑھایا۔ آج ان کی لگائی گئی اس پینری سے لوگ ہزاروں روپے روزانہ کما رہے ہیں۔
 سلطان صاحب کی حس مزاح بھی بہت کمال تھی۔ بر جستہ محاورہ بات کہنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ کہنے لگے تقسیم ہند سے پہلے میں ممبئی تھا وہاں میرے ایک کزن کسی کوٹھے پر گئے۔ مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ وہاں میرا سامنا ایک خاتون سے ہوا۔ میں نے اس سے نام پوچھا؛”شرماتے بولی”زینہ۔“ میرے منہ سے برجستہ نکلا؛’پھر تو۔“ (جملہ سینسر کر دیا گیا ہے)عظمت بھائی عمر میں ہم سب سے بڑے تھے اور میچ والے دن اکثر لیٹ ہو جاتے تھے۔ سلطان صاحب انہیں گھر سے بلانے جاتے تو اکثر یہی جواب ملتا کہ وہ نہا رہے ہیں۔ایک روز یہی جواب ملا تو سلطان صاحب گراؤنڈ واپس آکر کہنے لگے؛”یار!i think azmat bhai is very found of?. )جملہ سینسر کر دیا گیا ہے)ہنسی کا فوارہ پھوٹا جو عظمت بھائی کو شرمندہ کر گیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -