سفر کٹھن ضرور ہے !

سفر کٹھن ضرور ہے !
 سفر کٹھن ضرور ہے !

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سید مراد علی شاہ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبہ سندھ کے وزیر اعلی منتخب ہو چکے۔ پہلے مرحلے پر کابینہ تشکیل دے دی گئی ۔ وزیر اعلی کو خود بھی ادراک ہے اور وہ محسوس بھی کرتے ہیں کہ صوبہ میں انتظامی لحاظ سے انہیں قدم قدم پر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا ذکر بھی انہوں نے اپنی تقاریر میں کیا ہے۔ انہیں تو آغاز ہی میں رینجرز کو پورے سندھ میں اختیارات دینے کا معاملہ در پیش ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بوجوہ رینجرز کو اندروں سندھ ان کارروائیوں سے فاصلے پر رکھنا چاہتی ہے جو پولس کر سکتی ہے۔ لیکن وفاقی حکومت اور رینجرز وہ اختیارات حاصل؛ کرنا چاہتے ہیں جو فرائض کی ادائیگی کے لئے قانونی طور پر پولیس کو حاصل ہیں۔ وزیر اعلی ، اگر رینجرز کو اندروں سندھ یہ اختیاتفویض کردیتے ہیں تو حکمران جماعت کا ایک بڑا گروہ اعتراض کرتا ہے، اگر نہیں کرتے ہیں تو وفاقی حکومت کے علاوہ رینجرز حکام بھوئیں تانتے ہیں۔ یہ بڑی آزمائش ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جب وزیر اعلی یہ کہتے ہیں کہ کرپشن ضرور موجود ہے لیکن اس کے بارے میں جو گمان قائم کیا گیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ محکمہ تعلیم اور صحت میں وہ ایمرجنسی نافذ کریں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ انہیں احساس ہے کہ ان دونوں شعبوں کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے سرکاری افسران اور اپنے وزراء کی نیندیں بھی خراب کردی ہیں کہ وہ صبح جلدی اٹھنے والے فرد ہیں اور نو بجے دفتر پہنچ جائیں گے، افسران بھی طے کرلیں۔سندھ میں رواج بنا دیا گیا ہے کہ دفاتر میں وزراء کی اکثریت ایک یا دو بجے کے بعد آتی ہے اور افسران بھی ان کی دیکھا دیکھی تا خیر سے دفتر آنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وقت کی پابندی کرانا ایک چیلنج ضرور ہے لیکن نظم و ضبط قائم کرنے کے لئے ایک بہترین نسخہ ہے۔ جب یہ نظم پیدا ہوجائے گا کہ وزراء اور افسران وقت کی پابندی کریں گے تو آدھے سے زیادہ معاملات خود بخود بہتر ہو جائیں گے۔ لیکن وزیر اعلی ان وزراء سے کس طرح نپٹیں گے جو مغرب کے بعد سے ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں جن کے لئے رات بھی کم پڑ جاتی ہے اسی لئے صبح دیر تک بستر پر پڑے رہتے ہیں۔ بہرحال ، وزیر اعلی کو اپنی ترجیحات کا پوری طرح احساس ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں گوش گزار کرانا ضروری ہے کہ حضور ، اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔صوبہ سندھ کے انتظامات کو سید قائم علی شاہ نے بے جا مداخلتوں کے باجود اپنی صلا حیتوں کے مطابق چلایا۔ وہ صوبہ کے انتظامی ڈھانچہ کو اتنا فعال نہیں کر سکے جس کا تقاضہ صوبہ کی ضروریات کرتی ہیں۔ سید مراد علی شاہ کو درج ذیل اقدامات تو کرنا ہی ہوں گے تب کہیں جاکر یہ صوبہ مثالی صوبہ بن سکے گا۔


(1) صوبہ میں جو بھی زبانیں بولنے والے لوگ مستقل رہائش رکھتے ہیں، ان کے درمیان اعتماد سازی کرنا ہوگی۔ وزیر اعلی کو علم ہے کہ صوبہ سندھ میں سندھی، اردو، پنجابی اور پشتو زبان بولنے والے لوگ رہائش رکھتے ہیں لیکن سرکاری افسران اور بعض وزرا ء نے اس صوبہ کے معاملات کو اس طرح چلایا کہ جیسے یہ یک لسانی صوبہ ہو۔ یہ عملا تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی احساس کیا گیا یا دلایا گیا کہ یہ کثیر اللسانی صوبہ ہے، اس کی ضروریات اسی طرح پوری کرنا ہوں گی ۔ اردو ، پنجابی اور پشتو بو لنے والوں کو یہ عام سی شکایت ہے کہ انہیں سرکاری ملازمتوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ شکایت ان لوگوں کو بھی ہے جو سندھی زبان بولتے ہیں لیکن سفارش نہ ہونے کی بنیاد پر وہ نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ یہ اعتماد سازی کی مہم لوگوں کو حکومت کے قریب لے جائے گی۔ جب لوگ یہ محسوس کریں گے کہ حکومت ہر کارروائی بلا امتیاز کرتی ہے تو لوگ بھی وزیر اعلی اور ان کی حکومت کو امتیازی حیثیت سے یاد کریں گے۔


2)) اعتماد سازی کی دوسری مہم ان سرکاری افسران کے لئے ضروری ہے جنہیں اہلیت کے باوجود نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ کاسہ لیسی، خوشامد سے فاصلہ ر کھتے ہیں اسی لئے نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے اور ان میں احساس محرومی گھر کر گیا ہے۔ افسروں کی تقرری صرف قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر کی جائے ۔ سفارشوں کو زہر تصور کیا جائے۔


3)) کاشت کاری چوں کہ صوبہ کی معیشت میں اہمت ترین حیثیت رکھتی ہے، کاشت کاروں کی اعتماد سازی کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں جب ضرورت کا پانی ہی وقت پر میسر نہیں ہوگا تو ان کی مالی حیثیت تو متاثر ہی ہوگی لیکن صوبہ کی معیشت کو بھی دھچکا لگے گا۔ وزیر اعلی کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ صوبہ بھر میں جہاں جہاں غیر قانونی واٹر کورس جاری ہیں انہیں فوری طور پر بند کرائیں اور محکمہ آبپاشی نہروں کے آخری حصوں میں موجود کاشتکاروں کی زمینوں کو بھی ضرورت کا پانی فراہم کیا جائے ۔ محکمہ آبپاشی کے افسران نے جس طرح اپنی اپنی سلطنتیں قائم کی ہوئی ہیں ، اجارہ داریاں قا ئم ہیں، انہیں ختم کرایا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ کاشت کاری کے لئے پانی کسی قیمت پر بھی فروخت نہیں ہونے دیا جائے گا۔


4)) وزیر اعلی کہتے ہیں کہ پانچ چھ ہزار اسکول بند ہیں انہیں بھی کھلوانا ہے، اسکولوں سے بچوں کے چلے جانے کا معاملہ بھی دیکھنا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اولیں ترجیح یہ ہونا چاہئے کہ جو اساتذہ ، ملازمت کر رہے ہیں (ابھی ان کی اہلیت اور قابلیت کی بات نہیں کرتے) انہیں پابند کیا جائے کہ وہ پابندی کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کریں۔ جب اساتذہ وقت کی پا بندی کریں گے تو تن دہی کے ساتھ کام بھی کر سکیں گے۔ موجودہ سیکریٹری فضل اللہ پے چو ہو نے ( موصوف پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے بہنوئی ہیں ) سر توڑ کوشش کر لی کہ اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ اپنے فرائض انجام دیں۔ ان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ انہوں نے بائیو میٹرک نظام نافذ کیا جسے ناکام بنا دیا گیا۔ اس نظام کو ناکام بنانے میں جہاں بعض اساتذہ کا مفاد تھا وہیں محکمہ تعلیم کے افسران نے بھی اسے ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ شکایات عام ہیں کہ محکمہ تعلیم کے افسران ایسے اساتذہ کی پردہ پوشی کرتے ہیں جو اپنی ڈیوٹیوں سے غیر حاضر رہتے ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ افسران اپنے چھوٹے اور معمولی مفاد کی خاطر پوری قوم کے کتنے بڑے غیر معمولی نقصان کے ذمہ دار ہو رہے ہیں۔ سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں جو رضاکارانہ طور پر مانیٹرنگ کے لئے اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ محکمہ تعلیم صوبہ کا ملازمتیں فراہم کرنے والا سب سے بڑا محکمہ تصور کیا جاتا ہے۔


5))صحت کے ناکارہ نظام سے بھی وزیر اعلی واقف ہیں اسی لئے تو وہ اسے اپنی ترجیحات میں شامل کرتے ہیں۔ ہر سطح پر اسپتال موجود ہیں، بجٹ موجود ہے، ڈاکٹر اور نرسیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف موجود ہے لیکن کام کوئی نہیں کرتا۔ ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں ہوتے، مریض آتے ہیں اور لوٹا دئے جاتے ہیں تاکہ وہ نام نہاد ماہر ڈاکٹروں کو ان کے نجی کلینک پر رجوع کریں۔ جہاں دوائیں موجود ہوتی ہیں ، وہ ضرورت مندوں کو نہیں دی جاتی ہیں۔ اکثر اسپتالوں سے وہ میڈیکل اسٹوروں پر فروخت کر دی جاتی ہیں اور مریضوں کو دوائیں بازار سے خریدنے کے لئے نسخہ تھما دیا جاتا ہے۔ کیوں نہیں شہروں اور دیہاتوں میں رضاکاروں کی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دی جاسکی ہیں جو جائزہ لیں اور محکمہ کو رپورٹ پیش کردیں۔ گزشتہ کابینہ میں جن صاحب کے پاس محکمہ صحت تھا ، موجود کابینہ میں انہیں محکمہ تعلیم دے دیا گیا۔ دیکھنا تو یہ تھا کہ محکمہ صحت میں ان کی کارکردگی کیسی تھی؟
ان سارے کاموں کے لئے اس تماش گاہ میں مضبوط قسم کی بلا خوف و خطر مانیٹرنگ کی ضرورت ہو گی۔ وزیر اعلی خود بھی روزانہ کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر عوام سے ضرور ملاقاتیں کریں گے خواہ وہ ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو تو وہ خود نمایاں فرق محسوس کریں گے۔ عام لوگوں سے ملاقاتوں کا طریقہ کار طے کیا جا سکتا ہے کہ ضرورت مند لوگ ملاقات کئے لئے پہلے وقت لیں اور پھر ملاقات کے لئے پہنچ جائیں ۔ صفر کٹھن ضرور ہے ، وزیر اعلی خود انگریزی کہاوت کا ذکر کرتے ہیں کہ تنہا میں تیز ضرور چل سکتا ہوں لیکن سب کو ساتھ لے کر دور تک جا سکتا ہوں۔ ابھی ان کی صلاحیتوں کی آزمائش ہے۔ ابھی آغاز محبت ہے، انجام بھی انہیں خود ہی لکھنا ہوگا۔

مزید :

کالم -