پاک۔ بھارت جنگ 1971ء
آج 2دسمبر 2024ء ہے اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کو گزرے 53برس ہو چکے ہیں۔ دسمبر 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا دیا گیا تھا۔ اس سازش میں انڈیا کا رول بڑا گمبھیر اور تاریخ ساز تھا۔
میجر جنرل حکیم ارشد قریشی مرحوم اس جنگ میں مشرقی پاکستان کے شمال مغرب میں سعد پور نامی ایک شہر میں مقیم پاک آرمی کی 26ایف ایف بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر تھے یعنی ان کا رینک لیفٹیننٹ کرنل تھا۔ دسمبر 1971ء کے اس سانحے کے بعد حکیم ارشد قریشی پاکستان واپس آکر میجر جنرل کے رینک تک پہنچے اور ایک کتاب ”پاک۔ بھارت جنگ 1971ء“ کے نام سے لکھی۔ اس جنگ پر بہت سے پاکستانی، بھارتی اور غیر ملکی مصنفین نے کتابیں لکھیں جن میں کئی خودنوشت سوانح عمریاں بھی تھیں۔ لیکن یہ سب انگریزی زبان میں تھیں۔ جنرل قریشی کی یہ کتاب جس کا ذکر اوپر کیا گیا، یہ بھی انگریزی زبان میں تھی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی تھی۔ اس کا ترجمہ میں نے اردو میں کیا۔ جنرل صاحب 2اگست 2008ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ یہ ترجمہ میں نے 2007ء میں مکمل کرکے ان کے حوالے کر دیا تھا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہو سکا۔ اس ترجمے کا تعارف ”گزارشِ مترجم“ کے نام سے کتاب کا حصہ ہے جسے سطورِ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
گزارشِ مترجم
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971ء میں جو جنگ ہوئی تھی اس کی شروعات بھارت نے کی تھیں۔ بھارت نے 21نومبر 1971ء کو مشرقی پاکستان پر زمینی حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے کے 12دن بعد پاکستان نے 3دسمبر 1971ء کو بھات کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا اور اس طرح یہ جنگ ملک کے دونوں بازوؤں (مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان) میں شروع ہو گئی۔ یہ آل آؤٹ وار تھی جس میں گراؤنڈ، نیول اور ائر فورسز نے حصہ لیا۔ خیال یہ کیا جاتا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے دفاع پر منحصر ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مغربی پاکستان کی طرف سے انڈیا پر جو حملہ کیا جائے گا اس کا زور اور مومنٹم بھارت کے شمال مغربی اضلاع(امرتسر،فیروزپور، گورداسپور وغیرہ) کو زیرِ قبضہ لے آئے گا اور اس طرح بعد میں جب جنگ بندی ہو گی تو مشرقی پاکستان کے جن علاقوں پر بھارت نے قبضہ کیا ہوگا ان کے بدلے میں طرفین کے ان علاقوں کا ”لین دین“ ہو جائے گا اور دونوں اطراف کی افواج جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر واپس چلی جائیں گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ مغربی پاکستان کی طرف سے انڈیاپر جو فضائی اور زمینی حملے کئے گئے ان کو انڈیانے کامیابی سے روک لیا جبکہ مشرقی پاکستان میں وہاں کے دارالحکومت ڈھاکہ پر 16دسمبر 1971ء کو انڈیا کا تسلط ہو گیا۔
ڈھاکہ پر قبضہ کے بعد پاکستان نے جنگ بند کر دی اور ہتھیار ڈال دیئے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور ہمارے 90000قیدی انڈیا کی قید میں چلے گئے۔ ان 90ہزار قیدیوں میں آدھے (45000) وردی پوش تھے اور باقی آدھے سویلین تھے۔ انڈیا نے ان کو اڑھائی سال کے بعد واپس پاکستان بھیج دیا۔ اس جنگ کے دوران انڈیاپر اندرا گاندھی کی حکومت تھی جو وزیراعظم تھیں اور پاکستان پر صدر اور کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان حکمران تھے۔ انڈین آرمی کے کمانڈرانچیف کا نام جنرل سام مانک شا تھا جو ایک پارسی آفیسر تھے!
اس جنگ کو گزرے اب نصف صدی سے زیادہ صدی ہو چکی لیکن اس کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔1971ء کے بعد اگرچہ پاکستان نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی، جوہری دھماکے بھی کئے اور درجنوں میزائل بھی ایجاد اور ٹیسٹ کئے لیکن پاکستان آہستہ آہستہ معاشی زوال کی جانب گامزن رہا۔ یہ انحطاط آج بھی نمایاں ہے اور دیکھا جا سکتا ہے۔
اس جنگ پر برصغیر کے بہت سے لکھاریوں نے کتابیں لکھیں۔ بہت سے غیر ملکی مصنفین نے بھی زورِ قلم دکھایا۔ پاکستانی مصنفین نے جو کتابیں لکھیں ان میں میجر جنرل حکیم ارشد قریشی مرحوم کی کتاب The 1971 Indo-Pak War ایک بہت فکر انگیز اور متوازن تحریر ہے۔ جنرل صاحب 1971ء کی اس جنگ میں مشرقی پاکستان کے ایک شمال مغربی ڈسٹرکٹ ہیڈکوار دیناج پور میں مقیم ایک انفنٹری بٹالین (26ایف ایف) کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔ وہ اگست 1970ء میں وہاں پہنچے۔ انہوں نے سرنڈر ہونے تک انڈین آرمی کے حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن 16دسمبر 1971ء کو ہیڈکوارٹر ایسٹرن کمانڈ، ڈھاکہ کی طرف سے ملنے والے احکامات کے تحت ہتھیار ڈال دیئے۔
سرنڈر کے بعد لیفٹیننٹ کرنل حکیم ارشد قریشی کو پہلے رانچی اور پھر آگرہ کی جیل میں اڑھائی سال تک قید رکھا گیا…… واپسی پر ان کو پروموشن ملتی رہی اور وہ میجر جنرل کے رینک تک پہنچے، ایک انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کی اور پاکستان رینجرز کے کمانڈانٹ بھی رہے۔
انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کو 2002ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔ شائد 2005ء میں جنرل صاحب نے مجھے اس کا اردو ترجمہ کرنے کو کہا۔ میں نے نصف درجن سے زیادہ انگریزی ملٹری ہسٹری کی کلاسیکل تصانیف کا ترجمہ کیا ہے لیکن جنرل مرحوم کی یہ تحریر اتنی ہمہ پہلو، دلچسپ لیکن ادق تھی کہ اس کو اردو میں ڈھالنے کا کام میرے لئے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ چیلنج اس لئے کہ جنرل صاحب کو ضد تھی کہ ان کی اردو بھی انگریزی کی طرح ہمہ پہلو، ہمہ رنگ اور ہمہ صفت موصوف ہے۔ میرے ساتھ ان کی متعدد نشستیں ہوئیں۔ وہ اپنے اردو ترجمے پر ڈٹ جایا کرتے تھے اور میں اس زعم میں مبتلا تھا کہ سالہا سال کی ترجمہ کاری میں جھک نہیں مارتا رہا۔
قارئین اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے اور جنرل مرحوم کے درمیان پروفیشنل کشمکش کا اگر کوئی سراغ لگا سکیں تو مجھے خوشی ہو گی۔ عسکری اعتبار سے وہ سرتاپا انفنٹری سولجر اور جنگ آزمودہ اور میں سرتاپا عسکری حوالے سے ایک بے عمل لکھاری…… اس ”عمل اور بے عملی“پر بحث و مباحثہ نے میرے اس ترجمے کو تقریباً دس برس تک شائع ہونے سے روکے رکھا۔ دریں اثناء ان کا انتقال ہو گیا۔ اب سن یاد نہیں لیکن ایک دن ان کی اہلیہ محترمہ مسز فریدہ ارشد کافون آیا۔ میں حاضر ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کتاب جس کا ترجمہ آپ نے کیا تھا، ہنوز اشاعت و طباعت کی منزل سے نہیں گزری۔ اس کے لئے کچھ کریں ……
سطورِ ذیل میں کتاب کے ترجمے کو میں نے جنرل مرحوم کی خواہش کے مطابق اعراب بندی سے ”مسلح“ کر دیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ترجمہ سادہ ہونا چاہیے جبکہ میرا جواب یہ ہوتا تھا کہ آپ پہلے اپنی ’انگلش‘ کو سادہ کریں۔ پھر ان کا اصرار تھا کہ انگلش کو سادہ کرنے کا مطلب مفہوم و معانی کی گہرائی اور گیرائی کا خون ہو گا!…… اور میرا جواب پھر یہی ہوتا تھا کہ اردو کو سادہ کرنے کا مطلب بھی یہی کشت و خون ہو گا اور اس کی ”چھاپ تلک“ چھین لی جائے گی۔ آخر میں وہ اس بات پر رضامند ہوگئے تھے کہ اعراب لگا کر اس کی ”چھاپ تلک“ برقرار کردیں تاکہ پڑھنے والوں کو کم از کم قرأت میں تو آسانی ہو۔
……قارئین دیکھیں گے کہ میں نے اعراب بندی تو کر دی ہے لیکن مشکل الفاظ و تراکیب کو آسان نہیں کر سکا اور یہ انگریزی متن (Text) کی مجبوری تھی۔ ایسا کرتا تو ایک فقرے کی ادائیگی کے لئے ایک پیراگراف کی ضرورت پڑتی!…… یہ فیصلہ قارئین پرچھوڑتا ہوں کہ میں اس لسانی اور معنوی چیلنج میں کتنا کامیاب یا ناکام رہا ہوں ……