بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔آٹھویں قسط
برہنہ تصویریں لی جا رہی تھیں:
تحقیق شروع ہوئی توہر طرف کیمرے آن ہوگئے۔ برہنہ انسانی قیدیوں کی تصاویر لی جانے لگیں۔ ہر طرف سے کیمروں کی لائٹیں لگ رہی تھیں۔ ننگے قیدیوں کی تصویر کشی اور ان سے تحقیقات امریکیوں کے لیے بڑا تماشا تھا۔ میرے سر سے اچانک تھیلا اٹھایا گیا، اُف اللہ کیا وحشت ناک منظر تھا کہ ہم تمام بھائیوں کو ننگا کرکے عذاب دیا جا رہا تھا۔ کوئی کہاں پڑا ہوا، کوئی کہاں روندا ہوا، الٹا ننگا پڑا ہوا تھا۔۔۔اتنا وحشت ناک اور توہین آمیز منظر تھا کہ جسے یہاں میری زبان تعبیر کرنے سے عاجز ہے۔ ننگے مسلمان انسانوں کا (مادر پدر آزاد امریکی فوجی) مرد اور عورتیں تماشہ دیکھ رہے تھے۔
ساتویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
ایک میٹر اونچا کمرہ:
ایک بڑا خیمہ تھا جس میں ڈاکٹر موجود تھے۔ تصویر کشی اور تحقیق کا مرحلہ ختم ہوا تو ڈاکٹروں نے طبی معائنہ کرنا تھا۔ اس کے بعد مجھے دوبارہ یونیفارم پہنچایا گیا اور کھینچتے بھگاتے مجھے ایک جگہ لے گئے اور وہاں پر الٹا منہ کے بل پھینکا میرے ہاتھ اور پیر کھول دیئے اور تھیلا میرے سر سے ہٹا دیا گیا۔ فوجی میرے سر اور پاؤں پر بیٹھے ہوئے تھے اس کے بعد مجھے اٹھنے کا حکم دیا اور میں گردو غبار میں لپٹا ہوا تھا۔ تو دیکھا کہ ایک بڑا کمرہ تھا جس کی چاروں دیواریں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں اور زمین سے تقریباً ایک میٹر اونچا یہ کمرہ مستطیل تھا اور دو میٹر کے فاصلے پر خار دار تار سے اسے ڈھانپا گیا تھا ۔اس میں تقریباً بیس آدمیوں کی گنجائش تھی اور اس کی چھت پر ترپال بچھا ہوا تھا۔ آنکھیں خوب کھولنے کے بعد میں نے دیکھا کہ یہاں پر اس طرح کے کئی کمرے ہیں جو دیگر قیدی بھائیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ڈیوٹی پر مامور فوجی نے مجھے اشارہ سے وہ سامان بتایا جو کمرے کے اندر ہر قیدی کے لیے ہوتا تھا۔
اس میں ایک چادر ، دو ہلکے کمزور بستر، ایک پائجامہ، ایک جوڑا جراب، ایک جوڑا بوٹ اور ایک کیپ۔ میں نے جراب اور پائجامہ پہن لیا اور دونوں بستروں کے اندر لپٹ گیا اس لیے کہ شدید سردی تھی اور مجھ سے پیچھے رہنے والے بھائیوں کو بھی اسی طرح مراحل سے گزار کر یہاں لایا گیا۔ تقریباً صبح سے ایک گھنٹہ قبل ملا محمد صادق کو بھی یہاں لایا گیا وہ صوبہ ارزگان کے بلاغ گاؤں کا باشندہ تھا اور اس وقت چمن میں رہ رہا تھا۔ سابقہ سوویت یونین جہاد میں وہ جہادی کمانڈر اور اس وقت ہمارا امیر تھا۔ اس وقت اس کو شدید سردی لگ رہی تھی اور وہ کانپ رہا تھا۔ میں نے اس کو کپڑے تیار کرکے دیے اور پہننے مں مدد دینا چاہی تو اس نے منع کیا اور کہا کہ آپ مجھے مت دیکھیں میں خود تبدیل کر لوں گا۔
اذان کی آواز بلند ہوئی:
اس نے آس پاس سوئے ہوئے قیدی دیکھے جو بستروں میں لیٹے ہوئے تھے اور انتہائی پریشان ہوئے اور حیران ہو کر مجھ سے کہا کہ کتنی لاشیں پڑی ہیں وہ ان سوئے ہوئے قیدیوں کو مردہ سمجھ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ نہیں یہ تو سوئے ہوئے ہیں تھوڑی دیر بعد کمروں سے بآواز بلند اذانیں شروع ہوئیں۔ ملا صادق بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ابھی توہم دارالاسلام میں آگئے ہیں۔ لیکن امان اللہ بھائی نے یہاں پر کہا کہ یہ کیسی وحشی زندگی ہے کاش کہ ہم مر چکے ہوئے اس لیے کہ یہ وحشت تو کبھی بھولنے کے قابل نہیں۔ سراسر انسانیت کی ذلت اور رسوائی ہے لیکن میں ساتھیوں سے کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بھی بدتر ذلت اور رسوائی سے بچائے۔
قندھار میں تحقیق کا مرحلہ:
صبح ہوئی اور ہم نے نماز پڑھی اس کے بعد ہم نے آرام کرنا چاہا لیکن آرام کے لیے ہمیں نہیں چھوڑا گیا اور تحقیق کا مرحلہ شروع ہوا پہلے عرب بھائیوں کو لے جایا گیا اگرچہ مجھے اس تحقیق کے لیے نہ لے جایا گیا تحقیق کا طریقہ کار بڑا سخت اور تحقیر آمیز ہوا کرتا تھا۔ کمرے کے ایک طرف قیدیوں کو گھٹنوں کے بل کھڑا کرکے بڑی ذلت سے فوجی انہیں کمرے سے باہر کھینچتے تھے اور دوسری جگہ منتقل کرتے تھے جہاں ان سے تحقیق ہوتی تھی اور متعصب فوجی بڑی سختی سے پیش آتے تھے قیدیوں کے سروں کو تھیلے سے ڈھانپا جاتا تھا اور زمین پر انہیں بے دردی کے ساتھ گھسیٹا جاتا تھا کئی مرتبہ میرے گھٹنوں کا گوشت زمین پر رہ جاتا تھا کبھی ہمارے سروں کو دیواروں سے ٹکرایاجاتا تھا جبکہ ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
توہین آمیز مراعات:
صبح کو ہلال احمر کے نمائندے ہمارے پاس آئے اور انہوں نے ہماری بائیو گرافی یا شناخت اپنے پاس رجسٹر میں لکھی۔ ہمیں خط و کتابت کے لیے سفید فارم دیے لیکن ہم بڑی احتیاط اور شک کی نگاہ سے ان سے باتیں کرتے تھے اس لیے کہ ہمیں کافی ڈر تھا کہ شاید یہ بھی امریکی ایجنسی کے لوگ ہیں وہ لوگ ہماری حالت دریافت کرتے تھے۔ وہ ہلال احمر کے لوگ اچھے تھے۔ گھر والوں کے ساتھ خطوط کے ذریعے رابطہ میں بڑا کردار ادا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ طرح طرح کے وعدے کرتے تھے کہ وہ امریکیوں سے تمہارے لیے مراعات منظور کرائیں گے اور اس کے لیے انہوں نے ہمیں مطلوب اشیاء کے کارڈ بھی جاری کیے جس میں روٹی، دوائی، پانی، کتابیں اور زندگی کی دیگر اہم ضروریات درج تھیں۔ جب تک میں قندھار میں تھا آخرمیں انہوں نے چند کہانیوں کی کتابیں، شطرنج اور تین مہینے میں ایک مرتبہ سب کے سامنے ننگا غسل کرنے کی توہین آمیز مراعات دیں۔ ہم بہت ہی زیادہ مذہبی کتابوں، پانی اور انسانی حقوق کی پاسداری چاہتے تھے لیکن ہماری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی۔
چھ ماہ تک ہاتھ منہ دھونے نہیں دیا گیا:
دس فروری2002ء سے جولائی کی ابتداء تک میں قندھار میں تھا۔ اس عرصہ میں مجھے ہاتھ منہ دھونے نہیں دیا گیا اور اگر کبھی دھونے کی ہم کوشش بھی کرتے تو امریکی سخت سزا دیتے تھے اس وجہ سے ڈر کے مارے ہم ہاتھ منہ نہیں دھوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمیں سات سات قیدیوں کو باندھا گیا اور اس جگہ سے چند میٹر کے فاصلے پر بالکل ننگا کرکے کھڑا کیا گیا اور امریکی مرد اور خواتین ہمارے آگے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہمیں توہین آمیز غسل کرنے کے ایک عدد صابن اور ایک کوزہ پانی دیا گیا ۔بڑا عجیب خوفناک منظر تھا ہم سب ننگے تھے میں نے ساتھیوں سے بآواز بلند کہا کہ بھائیو! ہم اس پر مکلف نہیں ہیں اس لیے آپ لوگ غسل کریں اور آنکھیں یا تو بند رکھیںیا پھر نیچے رکھیں اورایک دوسرے کو نہ دیکھیں لیکن یہ کہاں تک ہو سکتا تھا یہ پہلا غسل تھا جو قندھار کے ائیرپورٹ پر ہمیں ایک دوسرے کے سامنے ننگا کھڑا کرکے کرایا گیا۔ اس کے بعد اور پہلے نہ تو ہم نے ہاتھ دھوئے اور نہ ہی چہرے پر پانی مارا۔
(جاری ہے۔ نویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔