بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔تیرہویں قسط
قرآن مجید کو دیکھ کر روتا تھا:
عبداللہ خان صوبہ ارزگان کے ضلع چار زینو کے رہنے والے ہیں اور ان کا اصل نام خیر اللہ ہے ان کو خیر اللہ خیر خواہ کے نام پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ قندھار میں جب مجھ سے تفتیش کی جاتی تھی تو مجھے الٹا لٹایا جاتا تھا اور میرے سامنے امریکی فوجی قرآن مجید کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اڑاتا تھا اور ان کے ساتھ کتا اسے منہ میں لیتا تو ہم سب اللہ اکبر کی آواز لگاتے تھے۔
ایک مرتبہ جب ہم نے کتے کے منہ میں قرآن پاک دیکھا تو سب نے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ کتا گھبرایا اور قرآن مجید چھوڑ کر بھاگ گیا ۔اس پر فوجی نے قرآن مجید اٹھایا اور میری طرف پھینکا تو وہ جا کر باتھ روم میں لگا۔ میں قرآن مجید کو دیکھ کر روتا تھا اور اسے مخاطب کرکے یہ کہتا تھا ’’ اے قرآن مجید! تیرا کوئی قصور نہیں۔ تیرے ساتھ وحشی انسان بڑی زیادتی کر رہا ہے اور میں اس پر گواہ ہوں اور میرے ساتھ اس لیے زیادتی ہو رہی ہے کہ میں تجھ پر عمل کر رہا ہوں۔ اے قرآن کریم! ہم دونوں ایک دوسرے کی حالت دیکھ رہے ہیں۔ کل قیامت کے دن میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں تمہارے متعلق اور تم میرے متعلق گواہی دینا کہ جابر فرعونی امریکی قوت نے ہم پر کیا زیادتی کی تھی‘‘
بارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
متوکل صاحب سے ملاقات:
ایک دن مجھے تفتیش کیلیے لے جایا گیا تو ایک تفتیش کار نے پوچھا کہ ’’آپ متوکل صاحب (طالبان دور کے وزیر خارجہ جنہیں امریکہ نے افغانستان سے گرفتار کرکے گوانتاناموبے میں قید کر دیا۔ پھر بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کر دیا) کو جانتے ہیں؟ ان کا احترام کرتے ہیں؟ اور کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان سے آپ کی ملاقات ہو؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ مجھے شک ہو اکہ وکیل احمد متوکل صاحب بھی پکڑے گئے ہیں۔ میں نے پوچھا’’متوکل صاحب کہاں ہیں اور ان سے کیسے ملاقات ہو سکتی ہے؟‘‘
تفتیش کار نے بتایا کہ ’’وہ ہماری تحویل میں ہیں۔ آپ چاہیں تو ہم لے آئیں؟‘‘
میں نے کہا’’ضرور۔۔۔‘‘ میں ان سے اس لیے ملنا چاہتا تھا کہ معلومات لے سکوں اور ان سے طالبان بھائیوں کی حالت زار کے بارے میں پوچھ سکوں‘‘ مگر مجھے اس امر کا پتہ نہیں تھا کہ ہماری ملاقات سے امریکی فوج کا مقصد کیا تھا؟ کچھ دیر بعد متوکل صاحب کو لایا گیا۔ ان کے ہاتھ میں ایرانی بسکٹ بھی تھے جو وہ بطور تحفہ میرے لیے لائے تھے۔ علیک سلیک کے بعد باتیں شروع ہوئیں میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اس لیے بسکٹ کھانا ممکن نہ تھا۔ میں نے ان کا تحفہ قبول کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا مگر یہ بسکٹ میں اپنے ساتھ بھی نہ لے جا سکتا تھا۔ دس منٹ گفتگو کے بات متوکل صاحب رخصت ہوئے اور مجھے واپس لے جایا گیا۔
رہائی کے بدلے امریکی جاسوس بننا ہوگا:
اس ملاقات سے مجھے اندازہ ہوا کہ بہت جلد گوانتاناموبے لے جایا جاؤں گا گو کہ متوکل صاحب نے ایسی کوئی واضح بات نہیں کہی تھی مگر میرا گمان یہی تھا۔ اس کے دوسرے دن مجھے پھر تفتیش والے کمرے میں لے جایا گیا۔ یہ قندھار میں میری تفتیش کا آخری مرحلہ تھا۔ تفتیش کار نے مجھے بتایا کہ یکم جولائی کو گوانتاناموبے کے لیے آپ کی پرواز ہوگی۔ ہم ان قیدیوں کو گوانتاناموبے بھیجتے ہیں جو مرتے دم تک وہاں رہیں گے اور موت کے بعد بھی یہ گارنٹی نہیں کہ ان کی میت وطن واپس لائی جائے گی یا نہیں؟ اب یہ آپ کے پاس آخری موقع ہے بتائیں گھر جانا ہے یا گوانتاناموبے؟ گھر واپسی کے لیے اس تفتیش کار نے اپنی پرانی شرائط دہرائیں۔ باالفاظ دیگر مجھے کہا کہ آپ کو رہائی کے بدلے امریکی جاسوس بننا ہوگا۔
’’ اللہ مجھے اس کام سے بچائے‘‘ تفتیش کار نے سوچنے کے لے پھر ایک دن کی مہلت دی اور کہا کہ خوب سوچ سمجھ کر کل جواب دے دو۔ میں نے بغیر کسی تامل کے جواب دیا ’’ کل بلانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے سوچ لیا ہے میں کسی قسم کی مصلحت سے کام نہیں لوں گا کیونکہ میں خود کو قصور وار نہیں سمجھتا۔ آپ کی مرضی جہاں لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں ‘‘
میرا جواب سننے کے بعد مجھے واپس خیمے میں لایا گیا۔ میں اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ کب مجھے گوانتاناموبے روانہ کیا جائے گا۔ اس کے اگلے دن میری ڈاڑھی، سر کے بال اور مونچھیں پھر مونڈ دی گئیں۔
برہنہ فوٹو گرافی:
یکم جولائی2002ء کی شام بہت زیادہ تعداد میں امریکی فوجی آئے اور ہم میں سے آٹھ افرادکو قطار میں کھڑا کرکے سروں پر کالے تھیلے چھڑھائے گئے۔ کانوں میں روئی ٹھوسی گئی اور ہاتھ باندھے گئے۔ ہم آٹھ افرادکو ایک دوسرے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں ہمارے کپڑے اتارے گئے اور ہماری برہنہ فوٹو گرافی شروع ہوئی۔اس کے بعد سرخ رنگ کے کپڑے اور سرخ بوٹ پہنچائے گئے ۔ہاتھ پاؤں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈالی گئیں۔ ہتھکڑیاں ایسی سخت تھیں کہ ہم اپنے ہاتھوں کو حرکت تک نہ دے سکتے تھے۔کچھ دیر بعد ہمیں مار مار کر اور دھکے دے دے کر جہاز میں سوار کرایا گیا جہاں ہم سب کو ایک مشترکہ زنجیر سے باندھ کر اس کو تالا لگا دیا گیا۔ زنجیر کو اس قدر کس کر باندھا گیا تھا کہ کوئی بھی ساتھی حرکت نہ کر سکتا تھا۔ نہ آگے نہ پیچھے نہ دائیں نہ بائیں۔ ایک نئے عذاب نے ہمیں گھیر لیا۔ جہاز نے اڑان بھری ، ہر قیدی کے سامنے دو فوجی کھڑے ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی فریاد بھی بڑھتی گئی۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔