وصل کی ریل میسرنہیں ہونے پائی،ہم تیرے ہجر کی پٹری پہ کئی سال چلے،شاعر حضرات نے ریل کی پٹری کو موضوع سخن بنایا اور  خوب اشعار لکھے 

وصل کی ریل میسرنہیں ہونے پائی،ہم تیرے ہجر کی پٹری پہ کئی سال چلے،شاعر حضرات ...
وصل کی ریل میسرنہیں ہونے پائی،ہم تیرے ہجر کی پٹری پہ کئی سال چلے،شاعر حضرات نے ریل کی پٹری کو موضوع سخن بنایا اور  خوب اشعار لکھے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:27
 مکسڈ اور ڈبل گیج
اسی طرح ایک 3پٹریوں والی لائن بھی ہوتی ہے جو روایتی طور پر 2 بڑے گیج کی پٹریوں کے بیچ میں ایک اضافی پٹری بچھا کر بنائی جاتی  ہے۔ یہ ان ملکوں میں ہوتی ہے جہاں 2 مختلف گیج کی گاڑیاں چلتی ہیں۔ ان میں سے دونوں اطراف کی پٹریاں براڈ گیج کی ہوتی ہیں، اگر گاڑی میٹر گیج یا نیروگیج کی ہو تو وہ ایک پہلو والی اور ایک بیچ والی پٹری کو استعمال کر لیتی ہیں۔ اس طرح کی ریلوے لائنیں، سوئیٹزرلینڈ، جاپان، برازیل، کوریا، ویتنام اور بنگلہ دیش وغیرہ میں استعمال ہو رہی ہیں۔
شاعر حضرات نے تو ریل کی پٹری کو اپنا موضوع سخن بنایا اور اس پر خوب اشعار لکھے ہیں۔پٹری پر لکھے گئے 2 اور خوبصورت اشعار دیکھیں:
وصل کی ریل میسرنہیں ہونے پائی
ہم تیرے ہجر کی پٹری پہ کئی سال چلے        
گاڑی آتی ہے لیکن آتی ہی نہیں 
ریل کی پٹری دیکھ کے تھک جاتا ہوں میں 
پٹریوں کی دیکھ بھال
انجن اورگاڑی کو اپنی جگہ مضبوطی سے قا ئم رکھنے کی خاطر ان کے پہئے ایک خاص انداز اور زاوئیے سے بنائے جاتے ہیں۔ جو دونوں پٹریوں کے بیچ اندر کی جانب سے تھوڑا نیچے کی طرف لٹکے ہوئے ہوتے ہیں یہ ریل یا انجن کو باہر یا اندر کی طرف پھسلنے نہیں دیتے، اور اسے اپنی جگہ پر ہی جمائے رکھتے ہیں۔اگر ریل کی پٹری پر کوئی سخت شے مثلاً کسی بڑے پتھر یا فولاد کا ٹکڑا آجائے تو وہاں پہیہ اس سے ٹکرا کر اچھلتاہے اور گاڑی پھدک کر پٹری سے اْترجاتی ہے اور اس کے پیچھے آنے والے ڈبے بھی پٹری سے اْتر کر اْلٹ جاتے ہیں۔ جس سے مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے ریلوے کا عملہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے کہ پٹری ہمیشہ ہموار اور صاف سْتھری رہے اور اس پر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو اور نہ ہی پٹری کہیں سے ٹوٹی ہوئی ہو۔ پرانے وقتوں کے ڈاکو تو ریل کی پٹری پر درخت کے کٹے ہوئے تنے ڈال کر گاڑی کو رکنے پر مجبور کردیتے تھے اور پھرجی بھر کے گاڑیوں میں لوٹ مار کرتے۔ 
وہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ پٹری اور سلیپروں کے علاوہ گارڈروں کو آپس میں جوڑنے والی فش پلیٹیں بھی اپنی جگہ محفوظ ہیں اور ان کے نٹ بولٹ پوری طرح کسے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے وہ ایک چھوٹی سی ٹَرالی، جسے عام زبان میں ٹھیلا کہتے ہیں، استعمال کرتے ہیں۔ سادہ سی اس ٹرالی کے نیچے ریل گاڑی کے سائز کے 4ہلکے  پہیے لگے ہوتے ہیں جن کے اوپر ایک لکڑی کا پلیٹ فارم سا بنا کر اس پر ایک بنچ رکھ دیا جاتا ہے اور دھوپ سے بچنے کے لیے ایک بڑی سی چھتری تان دی جاتی ہے، سامنے سرخ جھنڈا بھی لہراتا رہتا ہے۔ اس ٹرالی پر محکمے کے تجربہ کار انجینئر یا سپر وائزر بیٹھے ہوتے ہیں جو نہ صرف قریب سے پٹری کا بغور جائزہ لیتے رہتے ہیں بلکہ اس میں سے آنے والی آوازوں پر بھی کان دھرے رکھتے ہیں۔ اس ٹرالی کو پیچھے سے پٹری پر دوڑتے ہوئے ریلوے کے دو ملازمین دھکیلتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ اس معاملے میں اتنے تجربہ کار ہوتے ہیں کہ کسی کا بھی پاؤں پٹری سے رپٹتا نہیں ہے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہو جائے تو وہ وہیں کہیں ٹھہر کر پٹری کے آس پاس اپنے ٹوٹ کر گِرے ہوئے دانت تلاش کر رہے ہوتے۔ جب یہ ٹرالی مناسب رفتار پکڑ لیتی ہے تو وہ دونوں بھی کسی بندر کی طرح پْھدک کر اس پر سوار ہو جاتے ہیں اور صاحب لوگوں کی بنچ کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ ٹرالی ایک آدھ کلومیٹر تک تو اپنے زور بازو پر ہی دوڑتی چلی جاتی ہے۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -