پرانا اور نیا سال؟
ایک سال اور گزر گیا۔ یہ کالم ایک سال کے بعد لکھ رہا ہوں اور ذہن میں گزشتہ سال کی فلم چل رہی ہے جو اس سے پہلے سالوں ہی کی طرح تھا کہ جب سے ہوش سنبھالا یہی سنتے چلے آئے کہ حالات سنگین اور ملک خطرے میں ہے، یہی سنتے سنتے 1971ء کا سانحہ ہو گیا اور پھر موجودہ پاکستان کو سنبھالنے کا مسئلہ ہوا، نظر ذوالفقار علی بھٹو پر گئی اور اقتدار ان کو سونپ دیا گیا۔ بڑے لیڈر تھے ملک کو سنبھال لیا اور ترقی بھی کی لیکن ذہانت کے باوجود اپنے ہی ساتھیوں کو نہ سنبھال سکے۔ اس کے باوجود حالات اس وقت تک ٹھیک ہی رہے جب تک بھٹو نے ایک سال قبل ہی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا اور یہ ان کے گلے پڑ گیا اور نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ جان بھی دے دی، تب سے اب تک استحکام کی تلاش میں ہیں اور آج جب نئے سال کا دوسرا روز ہے تو اسلام آباد میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی مشترکہ کمیٹی کا اجلاس ہوگا، اس میں بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی، حکمران اتحاد کا قول ہے کہ معیشت پٹڑی پر آ گئی ہے اور استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
توقعات اور مایوسی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، دیکھیں کیا ہوتا ہے، اگرچہ سال بھر کوشش ہوئی لیکن کبھی بات نہ بنی اور حالت ابتر ہوتی چلی گئی، اب حکمرانوں کے بقول استحکام مل گیا۔گزرا سال ایسا تھا جو ہمارے لئے اچھا نہیں تھا، ہم عوام جن کو غلام کہا جاتا ہے،پھڑپھڑاتے رہے اقتدار والے ہمارے نام پر اپنا اقتدار پکا کرتے رہے اور محرومی اقتدار کے صدمہ والے مسلسل اسی کوشش میں لگے رہے کہ حکمرانوں کو پیر جمانے کا موقع نہ ملے اور احتجاج کرتے رہے،اسی دوران 9مئی ہو گیا اور پھر 24اور 26نومبر کے واقعات ہوئے،فاصلے بڑھ گئے لیکن پھر بھی بعض حلقوں کی کوشش سے بات مذاکرات تک آ گئی اور آج دوسرا دور ہے، اس سے کوئی بڑی امیدو ابستہ نہیں کی جا رہی لیکن ہم جیسے رجائیت پسند حضرات دل سے دعا کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں کہ ملک میں استحکام کی کوئی شکل بنے اور امن و امان کی صورت پیدا ہو۔
گئے سال کی باتیں اور نئے سال سے توقعات ساتھ ساتھ ہی چلتی ہیں، ہم جیسے اور ہمارے بھائی جو عوام کہلاتے ہیں، یہی سوچتے ہیں کہ کبھی کوئی سال ہمارے لئے بھی آئے گا جب عام آدمی کی پریشانیاں اور مسائل کم ہوں اور وہ سکھ کی روٹی تو کھا سکیں چاہے سوکھی ہی کیوں نہ ہو، گئے سال سے نئے سال میں منتقل ہونے والے سال میں بھی کوئی فرق نہیں پڑا، گیس نایاب اور مہنگی ہے تو قیمت بھی زیادہ ہے جبکہ بجلی کا بل دینا مشکل نظر آتا ہے، گئے سال سے فائیلر، نان فائیلر کا شور تھا اور اب باقاعدہ منظوری بھی مل گئی کہ نان فائیلر چاہے وہ اہل ہیں یا نہیں اگر فائیلر نہیں ہوں گے تو ٹیکس نادہندگان میں شامل ہو کر ”اچھوت“ بن جائیں گے۔ ایف بی آر والوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس کیٹگری کو دفن ہی کر دیں، حالانکہ یہ بالکل بے قصور ہیں کہ خود اس ملک کے قانون کے مطابق جس کی آمدنی ٹیکس کے مطابق نہیں وہ گوشوارے بھرنے کے لئے بھی مجبور نہیں ہیں، اگرچہ یہ سب بھی بالواسطہ لگائے جانے والے ٹیکس ادا کرنے پرمجبور ہیں کہ بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے ودہولڈنگ کے نام پر وہ بھی انکم ٹیکس دیتے ہیں۔
گزشتہ برس بھی تعمیرات ہو رہی تھیں، اب بھی جاری رہیں گی، تب بھی کروڑوں مالیت کی گاڑیاں سڑکوں پر تھیں وہ اب چلتی رہیں گی، ایسی ایک ایک گاڑی پانچ پانچ مرلے والے،پانچ پانچ گھروں کی مالیت کے برابر ہے۔ یوں یہ ملک (ریاست) غریب ہے لیکن اس میں بسنے والے مراعات یافتہ لوگ امیرہیں، نچلے طبقے کی نہ پہلے کوئی سنوائی تھی اور نہ اب نئے سال میں ہو گی، یہ مخصوص خاندانوں کا ذکر دور ایوبی سے شروع ہو کر اب تک جاری ہے، ابتداء 22خاندانوں سے ہوئی اور اب کئی 22خاندان آباد و شاد ہیں اور عوام کی حالت نہیں بدلی۔ حکمران تواتر سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ مہنگائی کم ہو گئی لیکن بازار میں اس کا اثر نظر نہیں آتا بلکہ اشیاء خوردنی اور ضرورت اور مہنگی ہوئی ہیں، انتظامیہ کسی مافیا پر قابو نہیں پا سکی۔
حالات کا دباؤ ہو تو وہ ہر طرف نظر آتا ہے کھیلوں میں بھی ہم اب نئے سرے سے کوشش کررہے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ امید نظرنہیں آتی، ہاکی جسے کبھی قومی کھیل کا درجہ حاصل تھا اتنی زوال پذیر ہو گئی کہ کسی شمار میں نہ رہی۔ اب قدرے بہتر ہوئی ہے تو فنڈز سہولتوں اور ملک میں کھیل کے انتظامات پر سوال اٹھ رہے ہیں، فٹ بال کبھی شمار ہی نہ ہوا، اولمپکس میں حالت یہ ہے کہ ایک سونے کا تمغہ جیتا تو ملک بھر سے انعامات کی بارش ہو گئی، کرکٹ ابھی تک سانپ سیڑھی کے کھیل کا مزہ لے رہی ہے، ذرا سنبھلتی ہے تو پھر اسے نظرلگ جاتی ہے اور جھگڑے تنازعے جو ہمارا قومی شعار ہے اس پر عمل ہوتا ہی رہتا ہے، دیکھیں نئے سال میں کھیلوں کا کیابنتا ہے؟
مایوسی گناہ ہے۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہر دم بہتری کی توقع رکھنا چاہیے، میں بھی سوچتا ہوں کہ پھر سے امید بہار رکھ لینے سے کیا بگڑجائے گا۔ قسمت نے جو لکھا وہ تو ہونا ہے لیکن اسے جلدی سے لے آنے کی کوشش بھی تو ہم ہی کرتے ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھیں، عراقی، مصر، شام، اردن، لیبیا اور لبنان کی کیا صورت بنی اور کیا حیثیت ہے اور (اسرائیل نے غزہ کا کیا حشر کر دیا،رک نہیں رہا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب ختم کرکے رہے گا اور پھر قبضہ کر لے گا،ہم مذمت کرتے رہیں گے) اب ہماری باری ہے کہا جا رہا ہے،بہترتو یہ ہے کہ ہم سابقہ سالوں کے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگیں اور مستقبل کے لئے توبہ کرکے عمل کریں، غفلت فائدہ نہیں نقصان پہنچاتی ہے۔ گئے سال ہم مسلسل عرض کرتے رہے، قومی اتفاق ہو،کسی نے کان نہ دھرا،اب تو ہماری ایٹمی اور میزائل سازی کی باتیں ہو رہی ہیں، ہم امریکہ کے ساتھی اور دوست ہیں،مگر وہ؟ اللہ نگہبان ہو۔