لوگوں نے اس بے دردی سے میری نئی گاڑی کو کھڑکایا کہ پہچان میں ہی نہ آتی تھی، بیوی نے ہر وقت مجھے گھر میں پا کر گھورنا شروع کر دیا

لوگوں نے اس بے دردی سے میری نئی گاڑی کو کھڑکایا کہ پہچان میں ہی نہ آتی تھی، ...
لوگوں نے اس بے دردی سے میری نئی گاڑی کو کھڑکایا کہ پہچان میں ہی نہ آتی تھی، بیوی نے ہر وقت مجھے گھر میں پا کر گھورنا شروع کر دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:318
اپنی پرانی عادتوں کے پختہ ہونے اور نئی عادتوں کو نہ اپنانے کی وجہ سے 2مہینے میں لوگوں نے اس بے دردی سے میری نئی گاڑی کو کھڑکایا تھا کہ پہچان میں ہی نہ آتی تھی۔ پہلے پہل جب کوئی آ کر مجھ سے ٹکراتا تھا تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بھائی اور دوست فتویٰ صادر کر دیتے تھے کہ غلطی آپ ہی کی ہے کہ آپ بر وقت سامنے سے ہٹے کیوں نہیں تھے۔ اب میں کیا کہتا۔ میں تو پہلے ہی صراط مستقیم پر چل رہا تھا اب اس کو چھوڑ کر اور کہاں ہٹ جاتا۔
 غرض 2 مہینے میں کوئی ایک درجن چھوٹے بڑے حادثات کرنے اور کروانے کے بعد میں نے یہاں کی ڈرائیونگ کے خو بصورت رازوں کو نہ صرف پا لیا بلکہ اپنا بھی لیا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کے بعد میرا کبھی بھی کوئی حادثہ نہ ہوا، بس کبھی کبھار میرا ایک آدھ مہربان اپنا کوئی پرانا حساب چکانے کے چکر میں گاڑی کو ہلکا پھلا رگڑا لگا جاتا۔
یہ سب کچھ مکمل ہوا تو اپنے نام نہاد جملہ شوق پورے کرنے شروع کیے۔ ڈھیر ساری کتابیں پڑھ لیں، اور مسلسل اپنا اکلوتاپی ٹی وی چینل بھی دیکھ لیا،جہاں سوائے گھسی پٹی خبروں، حکمرانوں کی خوشامدوں اور تھکے ماندے پروگراموں کے اور کچھ نہ تھا۔باہر سے لائے ہوئے پانی کے جدید فوارے دکھا اور چلا کر اپنی باغبانی کا شوق بھی پورا کر لیا، لیکن گرمیوں کے طویل دن تھے کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتے تھے۔شام تو گویا روٹھی ہوئی تھی اور میلوں دور تھی۔
ایک دن میں اپنے آپ سے پوچھ بیٹھا کہ”میں نے اپنی اتنی مصروف زندگی کیااسی لیے چھوڑی تھی کہ میں دن بھر نشیؤں کی طرح بستر پر پڑا اینٹھتا رہوں۔“ بیوی نے ہر وقت مجھے گھر میں پا کر پہلے توچپ چاپ پھر کھلم کھلا ناگواری سے گھورنا شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ کوئی مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے میں ان لوگوں کے گھریلو معاملات اور کچن کی سرگرمیوں میں نہ صرف دخل اندازی کرتا تھا بلکہ ان کے بنائے ہوئے کھانوں میں کیڑے نکالتا اور حالات کو بہتر کرنے کے لیے اکثر و بیشتر ہدایات نامہ بھی جاری کرتا رہتا تھا، جو ظاہر ہے ان کی رموز سلطنت میں کھلم کھلا دراندازی تھی۔ بہانے بہانے سے پتہ نہیں دن میں کتنی ہی دفعہ مجھے ملازمت اختیار کرنے کی ترغیب اور تلقین کی جاتی تھی۔
آخر ایک دن خود ہی انتہائی درجہ کی ندامت طاری ہو گئی اور میں نے خود کلامی کی کہ یہ سب کچھ وہ تو نہیں ہے جس کو بہانہ بنا کر میں وہ گلیاں اور چوبارے چھوڑ آیاتھا۔ وہ وطن کی خدمت کرنے کا جذبہ اور دعویٰ کون سے سرد خانے کی نذر ہوا، جس کو بہانہ بنا کر وہاں سے چلا تھا۔ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا،کیونکہ ابھی گھر بیٹھنے کی عمر بھی نہیں تھی۔
 غرض ایک بار پھر فائلیں کھنگالیں گئیں اور پرانی ملازمتوں کے سرٹیفکیٹ اور تعلیمی اسناد اکٹھی کر کے اپنا بائیو ڈیٹا ترتیب دیا اور پھر ایک دن سب کچھ بریف کیس میں رکھ کر اپنا بہترین سوٹ پہنا اور سیدھا شوکت خانم ہسپتال چلا گیا، وہاں جانے کی 2وجوہات تھیں، ایک تو یہ کہ لاہور میں اس وقت وہ ہی ایک اعلیٰ معیار کا ہسپتال تھا، دوسرا عمران خان جب ہمارے کنگ فیصل ہسپتال کا نظام دیکھنے ریاض آئے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ ا گر کبھی آپ لوگوں کا پاکستان واپسی کا ارادہ ہو تو شوکت خانم ہسپتال چلے آنا وہاں آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
وہاں ملنے والے سارے متعلقہ افسروں نے مجھے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ ہسپتال آپ کے معیار کا نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ یہاں آپ کو ملازمت اتنی آسانی سے ملنے والی بھی نہیں ہے۔ اندرونی سیاست کے بھی کچھ نقشے کھینچے گئے جس کا اختتام اسی بات پر ہوتا تھا کہ یہاں آ کر آپ پریشان ہی ہوں گے، اپنے لیے کہیں اور بہتر مواقع تلاش کر لیں۔میں نے وہاں کے افسران بالا کو دنیا کے بہترین کینسر ہسپتال میں اپنے 23 سالہ تجربے کی دہائی بھی دی، لیکن مجھے چائے کا ایک کپ پلا کر رخصت کر دیا گیا۔ شاید انسانی فطرت کے مطابق یہاں بھی ہر کوئی اپنی ملازمت کے بارے میں قدرے محتاط اور فکرمندتھا اور میری وہاں آمد پر ان کو غالباً کچھ تحفظات اور تشویش ہو گئی تھی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -