مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 47
صالح مجھ سے کہنے لگا:
’’ابھی تو یہ لوگ جہنم میں گئے ہی نہیں ۔ وہاں تو اس سے کہیں بڑھ کر عذاب ہوگا۔ ان کے گلے میں غلامی اور ذلت کی علامت کے طور پر طوق پڑا ہوگا۔ پہننے کے لیے گندھک اور تارکول کے کپڑے ملیں گے جو دور ہی سے آگ کو پکڑلیں گے۔ یہ آگ ان کے چہرے اور جسم کو جھلسادے گی۔ وہ اذیت سے تڑپتے رہیں گے مگر کوئی ان کی مدد کو نہ آئے گا نہ ان پر ترس کھائے گا۔ پھر ان کی جھلسی ہوئی جلد کی جگہ نئی جلد پیدا ہوگی جس سے انھیں شدید خارش ہوگی۔ یہ اپنے آپ کو کھجاتے کھجاتے لہو لہان کرلیں گے، مگر کھجلی کم نہ ہوگی۔
جب کبھی انہیں بھوک لگے گی تو انھیں کھانے کے لیے خاردار جھاڑیاں اور کڑوے زہریلے تھوہر کے درخت کے وہ پھل دیے جائیں گے جن پر کانٹے لگے ہوں گے۔ جبکہ پینے کے لیے غلیظ اور بدبودار پیپ، ابلتا پانی اور کھولتے تیل کی تلچھٹ ہوگی جو پیٹ میں جاکر آگ کی طرح کھولے گا اور پیاس کا عالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اس کو تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پینے پر مجبور ہوں گے۔ وہ پانی ان کی پیٹ کی انتڑیاں کاٹ کر باہر نکال دے گا۔
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جہنم میں فرشتے انھیں بڑے بڑے ہتھوڑوں سے ماریں گے۔ جس سے ان کا جسم بری طرح زخمی ہوجائے گا۔ ان کے زخموں سے جولہو اور پیپ نکلے گی وہ دوسرے مجرموں کو پلائی جائے گی۔ پھر ان کو زنجیروں میں باندھ کر کسی تنگ جگہ پر ڈال دیا جائے گا۔ وہاں ہر جگہ سے موت آئے گی مگر وہ مریں گے نہیں۔ اس وقت ان کے لیے سب سے بڑی خوش خبری موت کی خبر ہوگی مگر وہاں انھیں موت نہیں آئے گی۔ وقفے وقفے سے یہ سارے عذاب وہ ہمیشہ بھگتتے رہیں گے۔‘‘
میں یہ تفصیلات سن کر لرز اٹھا۔ صالح نے مزید کہا:
’’اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرنے سے قبل یہاں اوپر لایا جائے گا اور انہیں جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل بٹھادیا جائے گا۔ چنانچہ ان کے لیے سب سے پہلا عذاب یہ ہوگا کہ وہ اپنی آنکھوں سے سارے عذاب دیکھ لیں گے۔ پھر گروہ در گروہ اہل جہنم کو جہنم کی تنگ و تاریک جگہوں پر لے جاکر ٹھونس دیا جائے گا اور عذاب کا وہ سلسلہ شروع ہوگا جس کی تفصیل میں نے ابھی بیان کی ہے۔‘‘
’’تو کیا سارے اہل جہنم کا یہی انجام ہوگا؟‘‘
’’نہیں یہ تو بڑے مجرموں کے ساتھ ہوگا۔ دوسروں کے ساتھ ہلکا معاملہ ہوگا مگر یہ ہلکا معاملہ بھی بہرحال ناقابل برداشت عذاب ہی ہوگا۔‘‘
پھر اس نے ایک اور سمت اشارہ کیا۔ تو میں نے دیکھا کہ وہاں بعض انتہائی بدہیبت اور مکروہ شکل کے لوگ موجود ہیں۔ صالح ایک ایک کرکے مجھے بتانے لگا کہ ان میں سے کون شخص کس رسول کا کافر اور مخالف تھا۔ میں نے خاص طور پر نمرود اور فرعون کو دیکھا کیونکہ ان کا ذکر بہت سنا تھا۔ انھی کے ساتھ ابوجہل، ابولہب اور قریش کے دیگر سردار موجود تھے۔ ان سب کی حالت ناقابل بیان حد تک بری ہوچکی تھی۔ وقت کے یہ سردار اس وقت بدترین غلاموں سے بھی بری حالت میں تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ سچائی آخری درجے میں ان کے سامنے آچکی تھی مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ خدا کے مقابلے میں سرکشی کی اور مخلوق خدا پر ظلم و ستم کا راستہ اختیار کیا۔
اس وقت صالح نے مجھے ایک بہت ہی عجیب مشاہدہ کرایا۔ اس کے توجہ دلانے پر میں نے دیکھا کہ ان سب کے وسط میں ایک بہت بڑا دیو ہیکل شخص کھڑا تھا۔ اس کے جسم سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اور پورا جسم زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا۔ وہ ان سب سے مخاطب ہوکر کہہ رہا تھا کہ دیکھو اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور جو وعدے میں نے کیے تھے وہ سب جھوٹے تھے۔ آج مجھے برا بھلا نہ کہو۔ میں تمھارے سارے اعمال سے بری ہوں۔ میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ میرا تم پر کوئی اختیار نہ تھا۔ تم نے جو کیا اپنی مرضی سے کیا۔ اگر تم نے میری بات مانی تو اس میں میرا کیا قصور۔ تم لوگ مجھے مت کوسو بلکہ خود کو ملامت کرو۔ آج نہ میں تمھارے لیے کچھ کرسکتا ہوں اور نہ تم میرے لیے کچھ کرسکتے ہو۔
مجھے اس گفتگو سے اندازہ ہوگیا کہ یہ موصوف کون ہیں۔ میں نے اپنے اندازے کی تصدیق کے لیے صالح کو دیکھا تو وہ بولا:
’’تم ٹھیک سمجھے۔ یہ ابلیس ہے۔ اللہ کا سب سے بڑا نافرمان۔ آج سب سے بڑھ کر عذاب بھی اسی کو ہوگا۔ مگر باقی لوگوں کو بھی ان کے کیے کی سزا ملے گی۔‘‘
میں اوپر کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں اپنے عظیم رب کی شکر گزاری کررہا تھا جس نے مجھے شیطان کے شر اور دھوکے سے بچالیا وگرنہ زندگی میں بارہا اس ملعون نے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عافیت میں رکھا۔ میرا ہمیشہ یہ معمول رہا کہ میں شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا تھا۔ سو میرے اللہ نے میری لاج رکھی۔ مگر جنھوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور شیطان کو اپنا دوست بنایا وہ بدترین انجام سے دوچار ہوگئے۔
اسی اثنا میں صالح میری طرف مڑا اور بولا:
’’عبد اللہ چلو تمھیں بلایا جارہا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا کیوں؟
’’وہ بولا جمشید کو حساب کتاب کے لیے پیش کیا جانے والا ہے۔ تمھیں گواہی کے لیے بلایا جارہا ہے۔‘‘
’’میری گواہی؟‘‘
’’ہاں تمھاری گواہی۔‘‘
’’میری گواہی اس کے حق میں ہوگی یا اس کے خلاف۔‘‘
’’دیکھو اگر اللہ نے اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر وہ تم سے کوئی ایسی بات پوچھیں گے جس کا جواب اس کے حق میں جائے گا۔ اور اگر اس کے گناہوں کی بنا پر اسے پکڑنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ تم سے کوئی ایسی بات پوچھیں گے جو اس کے خلاف جائے گی۔ یا ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اور معاملہ کریں۔ حتمی بات صرف وہی جانتے ہیں۔‘‘
میری حالت جو ٹھہری ہوئی تھی ایک دفعہ پھر دگرگوں ہوگئی اور میں لزرتے دل اور کانپتے قدموں کے ساتھ صالح کے ہمراہ روانہ ہوگیا۔(جاری ہے)
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 48 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔