جدید سوچ والے باباجی اور ہم
کچھ روز پہلے معروف انڈین مذہبی سکالر مولانا وحید الدین خان اللہ کے حضور حاضر ہوگئے مولانا وحید الدین مجھے دو وجوہات کی بنا پر بہت اچھے لگتے تھے۔ ایک ان کی کچھ شکل میرے مرحوم ابا جی سید محمد ابراہیم مشہدی سے ملتی تھی، کسی حد تک بولنے کا انداز بھی اور دوسری وجہ میری بیماری کے دنوں میں ان کے امید بھرے ویڈیو کلپس سوچیں ذرا!کسی سامنے بولنے والے شخص میں آپ کو اپنے مرحوم باپ کی شباہت نظر آئے تو وہ شخص کتنا پیارا لگے گا؟ بہت اچھا لگے گا۔
مولانا کی وفات پر پاکستان سے بہت سے لوگوں نے لکھا، ان کے ہم وطنوں نے بھی ان پر لکھا ہوگا جو ہم تک نہیں پہنچ پایا۔ مولانا پر تنقید کرنے والے بھی ہیں مگر میری زندگی میں انہوں نے اس وقت امید کا رنگ بھردیا جب میں بستر علالت میں پڑا رات کی تنہائیوں میں شیطان کے نرغے میں ہوتا تھا۔ نومبر 2020ء میں، میں نمونیہ کا شکار ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے کرونا ٹیسٹ کروایا،دو لیبز نے کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ نیگٹو دیا مگر میری طبیعت میں مسلسل علاج کے بعد بھی بہتری نہ ہوئی اور علاج لمبا ہوتا گیا۔ اللہ کریم ہے، اس کے کرم سے میں بیماری سے صحت یاب ہوکر اپنے روزمرہ کے کام بطریق احسن پورے کر رہا ہوں اور الحمدللہ رمضان کی برکتوں سے بھی مستفید ہوا۔ بیماری کے دوران شیطان آپ کے ساتھ ہوتا ہے جو اللہ کی رحمت سے مایوس کرنے اور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی ہوتا ہے۔ میرے اور شیطان کے درمیان کشمکش جاری رہتی، کبھی وہ غالب آجاتا تو مایوسی سے میری آنکھوں میں آنسو آجاتے، کبھی اللہ مجھے غالب کر دیتا تو امید کے آنسو آنکھوں سے بہہ نکلتے۔
اس کشمکش میں اللہ رب العزت جب مجھے غالب کرتا تو اس میں مفتی مانک کے امید بھرے پیغامات جو کسی نہ کسی طرح میرے سامنے آجاتے اور ان میں مولانا وحید الدین خان کے چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپس شامل تھے۔ مولانا وحید الدین کی شخصیت سے میں پہلے یوں واقف تھا کہ میری لائبریری میں ان کی کچھ کتب موجود ہیں جو ایک مایوس شخص کو متحرک رکھنے کے لئے سودمند ہیں۔ بیماری کے دوران ان کے دھیمے لہجے میں مختصر ویڈیو کلپس اللہ کی طرف سے مجھے بار بار ملتے۔ رب تعالیٰ کی یہ منشا تھی کہ میں امید کا دامن نہ چھوڑوں۔ اور ایسا ہوا بھی۔ میں کمرے میں اکیلا پڑا رہتا، اپنی بیگم کا امید بھرا جھانکتا چہرہ دیکھتا، مفتی مانک، ڈاکٹر اسرار اور مولانا کو سنتا، رب تعالیٰ سے صحت کی دعا مانگتا اس دوران میرے لئے دو لوگ بہت زیادہ متاثرکن رہے، میری بیگم اور مولانا۔ میری بیگم نے میری ادویات، کھانا، ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا، ڈاکٹر سے فون پر رابطہ رکھنا اور دوسری تمام ضروریات کا خیال رکھنا اور پریشانی کے باوجود امید بھرا چہرہ رکھنا جب کہ مولانا نے مجھے روحانی طور پر مایوسیوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ میں سمجھتا ہوں مولانا کو اللہ تعالیٰ نے جو طویل عمر عطا فرمائی اس سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کتابیں لکھیں، لیکچرز دیے، امن، بھائی چارہ اور امید کا یہ پیغام بنے رہے اور اپنی وفات تک متحرک زندگی گزاری۔ کرونا نے جہاں اور لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا مولانا کو بھی اس میں شامل کیا۔
مولانا بنیادی طور پر مدرسہ سے فارغ التحصیل تھے مگر اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مدرسہ سے فراغت کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ لوگوں کی ان سے توقعات زیادہ اور ان کا علم ناکافی ہے اس لئے انہوں نے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے 20سال صرف کرکے اپنے آپ کو اس قابل بنایا کہ لوگوں کے سوالات کے جوابات دے سکیں۔یہ ایک صبر آزما کام تھا مگر وہ اس میں کامیاب رہے کیونکہ وہ محنت کے وظیفے کے قائل تھے نہ کہ صرف منصوبہ بندی کے۔انہوں نے مختلف موضوعات پر 200سے زائد کتب لکھیں جن میں تذکیر القرآن کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا علم کتنا وسیع تھا۔موٹیویشنل اسپیکرز ان کے علم کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ ان کی تحریرو بیان سے خاطرخواہ استفادہ بھی کیا۔انہوں نے ”تربیت اولاد“کے نام سے جو کتاب لکھی اگرچہ ساری کتاب ہی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، مگر ایک جملہ ساری کتاب کا خلاصہ ہے pampering یعنی لاڈ پیار کو بچوں کی تربیت میں اپنے اوپر حرام کرلیں۔
اسی طرح ان کی مشہور کتاب ”رازحیات“کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے وہ ان کا صرف دس فیصد استعمال کرتاہے۔آدمی کو جب کام کا شوق ہو تو اس کے عقل کے دروازے کھل جاتے ہیں۔مقصد کو حاصل کرنے کی تڑپ اس کی قوت عمل کو بڑھا دیتی ہے. وہ اس کی خاطر قربانی کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنوں میں وہ کام کر لیتا ہے جس کو دوسرا شخص ہفتوں اورمہینوں میں بھی نہ کر سکے۔”انسان کی منزل“ کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جنتی انسان وہ ہے جو کانٹوں کے درمیان پھول بن کر رہے،جو اندھیروں میں روشنی کا مینار بن سکے،جو زلزلوں اور طوفانوں کے درمیان سکون کا راز پالے. جو نفرتوں کے درمیان محبت کا ثبوت دے،جو لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود یک طرفہ طور پر انہیں معاف کر دے،جو کھونے میں بھی پانے کا تجربہ کرے۔
مولانا کے فلسفہ زندگی پر تنقید بھی بہت ہوئی مگر مجموعی طور پر وہ مایوسی کے اس دور میں صحیح معنوں میں امید اور متحرک زندگی کے پیامبر بن کر جئے۔ انہوں نے اپنے سننے اور پڑھنے والوں کو یہ پیغام دیا کہ امید زندگی ہے، وہ ہر عمر کے لوگوں کے پسندیدہ تھے۔انہوں نے اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو زندگی کے اہم تقاضوں سے بھرپور طریقے سے روشناس کرایا۔انہوں نے ایک بامقصد زندگی گزاری۔ رب تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا جو ہم جیسے سست الوجود، کاہل، تقدیر کا شکوہ کرنے والے، محنت سے جی چرانے والے بے عمل لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والوں کو ان کی زندگی سے سبق سیکھ کر امید کے سفر پر گامزن رہنا چاہئے اور ان کی لکھی کتابوں اور ان کے لیکچرز سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے،، نئی راہیں، نئی منزلیں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔