اشرف غنی کا طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار،ایران نے امن معاہدہ مسترد کر دیا،معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو اتنی بڑی فوج افغانستان بھیجیں گے جو کبھی کسی نے دیکھی نہ ہو:ٹرمپ
واشنگٹن،کابل، تہران(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) افغان صدر اشرف غنی نے امریکا طالبان معاہدے کے حوالے سے کہا ہے کہ طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔کابل میں خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ انٹر افغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے، صدر اشرف غنی نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ مذاکرات کی پیشگی شرط نہیں بن سکتا۔انہوں نے کہا کہ امریکا قیدیوں کی رہائی میں مدد فراہم کر رہا ہے لیکن اس پر فیصلے کا اختیار افغان حکومت کا ہے۔ اشرف غنی نے کہا کہ انٹر افغان مذاکرات کے لیے اگلے 9 دنوں میں مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی جائے گی۔دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جلد طالبان رہنماوں سے ملاقات کروں گا، افغانستان سے جلد فوج واپس بلانا شروع کر دیں گے، اگر معاہدے میں بری چیزیں ہوئیں تو ہم اتنی بڑی فوج واپس افغانستان لے کر جائیں گے جو کسی نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی، امید ہے اس کی نوبت نہیں آئے گی۔وائٹ ہاؤس میں اپنے خطاب کے دوران امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے امن معاہدے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں طالبان رہنماوں سے ملاقات کریں گے تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ملاقات کب اور کہاں ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ معاہدے کے بعد ان کے نیٹو اتحادی بھی خوش ہیں اور اپنی افواج واپس بلا رہے ہیں۔ 28 ممالک اس اتحاد میں ہیں اور وہ افغانستان سے نکلنے پر خوش ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ خاتمے کے قریب ہے۔ امریکہ کے صدر نے افغان طالبان کی جنگی صلاحیت کی بھی تعریف کی اور کہا کہ طالبان بہت اچھے فائٹر ہیں مگر وہ بھی تھک گئے تھے۔ 19 برس ہوگئے، پورے 19 سال جو بہت طویل عرصہ ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب یہ طالبان اور افغان حکومت پر ہے کہ آگے بڑھیں اور مسائل حل کریں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان کو یقین ہے کہ طالبان کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو اس بات کا اظہار کرے کہ وہ (معاہدے کے فریق) وقت ضائع نہیں کر رہے۔ امریکی صدر نے معاہدے کی خلاف ورزی پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اب بھی کچھ برا ہوتا ہے تو ان کی افواج اتنی قوت سے واپس جائیں گے جو کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔صدر نے کہا کہ رواں برس مئی تک افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں پانچ ہزار تک کمی کی جائے گی۔دوسری طرف ایران نے ایک روز قبل قطر میں ہونے والے امریکہ طالبان میں طے پائے جانے والے امن معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسی کسی بھی پیش رفت کا خیرمقدم کرتا ہے جو افغانستان میں امن و استحکام میں مددگار ثابت ہوتاہم افغانستان میں غیر ملکی فوج کی موجودگی غیر قانونی ہے اور اس ملک میں جنگ اور عدم تحفظ کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ایران کی وزارت خارجہ کی جانب سے گزشتہ روز جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن معاہدہ ہمسایہ ممالک کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف اور صرف طالبان سمیت ملک کے سیاسی گروہوں کی شرکت اور افغانستان حکومت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امریکی و غیر ملکی افواج کا انخلا امن اور سلامتی کے حصول کے لئے ضروری ہے،ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق ان افواج کے انخلا کی بنیاد فراہم کرنے والی کوئی بھی کارروائی اس ملک میں امن عمل میں سود مند ہوگی۔ایران اس حوالے سے افغانستان کی قیادت اور خودمختاری کے تحت کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
اشرف غنی