خواجہ آفتاب عالم بٹ کا ادبی،صحافتی اور سیاسی سفر
انسانی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک ظاہر اور دوسرے باطنی۔ ظاہر وہ جسے صرف دیکھ کر لوگ متاثر ہوتے ہیں لیکن باطنی خوبیاں کسی سے ملاقات کے بعد یا معاملات کے وقت ہی لوگوں کو متاثر کرتی ہیں، ظاہری خوبصورتی کا اثر عارضی ہوتا ہے جبکہ باطنی خوبیوں کا اثر پائیدار اور دیر پا ہوتا ہے اور یہی باطنی خوبیاں کسی بھی فرد کو متاثر کن یا مثالی شخصیت کا روپ دیتی ہیں،ایسی ہی مثالی شخصیت کا روپ دھارنے والی شخصیات میں عہدِ حاضر کے جواں فکر شاعر، کالم نگار، صحافی، ہر دلعزیز نظامت کار خواجہ آفتاب عالم بھی شامل ہیں۔ ان کی شخصیت سچائی، محنت و مشقت، توجہ ویکسوئی، مثبت رویہ، انصاف پسندی، فرمانبرداری، صبر و توکل، خوش مزاجی خدمت و محبت، اعتدال و میانہ روی، ایمانداری جیسی کئی خوبیوں سے مزین ہے،وہ اپنی شاعری کی طرح ایک سچا اور کھرا انسان دکھائی دیتا ہے،ان کے شعری اسلوب کے حوالے سے وسیم عالم مرحوم لکھتے ہیں کہ”آفتاب عالم کی شاعری بہت سادہ مگر گہری ہے۔ وہ جہاں شاعری کے سفر میں سچائی کا ساتھ دیتے ہوئے دو قدم آگے چلتا ہے وہیں جھوٹ کے خلاف اس کی آواز بڑی توانا اور مضبوط ہے اس کے شعروں میں محبت کے لئے محبت اور نفرت کے لئے نفرت بالکل صاف نظر آتی ہے کہیں بھی منافقت کا رنگ دکھائی نہیں دیتا۔“
خواجہ آفتاب عالم نے اپنا پہلا مشاعرہ تقریباََ ۵۹۹۱ء میں محمد علی جناح لاء کالج گوجرانوالہ میں پڑھا، اس مشاعرے میں نظیر احمد بے نظیر مرحوم کے توسط سے پنجابی کے نامور شاعر امین خیال مرحوم سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔ جس کے بعد کئی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ نظیر احمد بے نظیر مرحوم کے کہنے پر ہی انہوں نے امین خیال مرحوم کی شاگردی اختیار کی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد پنجابی سے اُردو شاعری کا شوق پیدا ہُوا تو انہیں خیال صاحب نے گوجرانوالہ کے ادبی اکھاڑے کے پہلوان جان کاشمیری کی صحبت میں دے دیا۔اس کے باوجود جو فیض وسیم عالم مرحوم کی شفقت، محبت اور صحبت سے ملا شائد کسی اور سے نہ مل سکا۔وسیم عالم مرحوم ان کے زندگی کے کٹھن راستوں کے ہمراز بھی تھے۔ بہت پہلے میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ان کے بہت سے شاگرد بھی ہیں۔ جن میں سے کئی انہیں اپنا اُستاد ماننے سے ہچکچاتے ہیں کہ شاید وہ بھی اب بڑے شاعر ہو گئے ہیں مگر ان کے کلام کو پڑھ کر آج بھی ہر لفظ سے وسیم عالم کے زورِ قلم کا نشاں ملتا ہے۔ جان کاشمیری کے اس شعر کے مصداق:
اپنی پہچان سے پُر چھاپ بدل لیتے ہیں
لوگ اُستاد تو کیا باپ بدل لیتے ہیں
کوئی ادیب تو صحافی بن سکتا ہے مگر کوئی صحافی ادیب نہیں بن سکتا یقینا خواجہ آفتاب عالم پہلے ادیب بنے اور بعد میں صحافی، انہیں شعبہ صحافت میں گوجرانوالہ کے سینئر صحافی اکرم ملک، آصف صدیقی اور منیر قریشی جیسی بے لوث شخصیات کی سرپرستی حاصل رہی۔ خواجہ آفتاب عالم ۱۹۹۱ء میں جب سیکنڈائر کے طالب علم تھے تو اس دوران ہی وہ اپنے شہر کے مقامی اخبار ”سفیر“ سے بطور نمائندہ خصوصی منسلک ہو گئے۔ داؤد تاثیر کے کہنے پر ہی وہ کالم نگاری کی طرف راغب ہوئے۔خواجہ آفتاب عالم ایک ماہر قانون دان کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت کچھ کر گزرنے کامضبوط ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ ۴۹۹۱ء سے ادبی،سیاسی،فلاحی اور مذہبی پروگرامز میں نظامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں،اسی دوران ان کے اندر مخلوقِ خدا کی خدمت کا جذبہ بیدار ہُوا تو ان کی شخصیت پر سیاسی رنگ بھی ظاہر ہونے لگا۔ وہ کشمیری گھرانے سے تعلق کی بنا پر مسلم لیگ (ن) سے وابستگی رکھتے ہیں اور میاں نواز شریف کو اپنا محبوب لیڈر تصور کرتے ہیں۔ ان کاجرمِ وفا یہ ہے کہ وہ ابتک اپنی تین عدد کتب”’ہر دلعزیز قومی رہنما“،”قومی سوچ کے حامل قومی رہنما“ اور ”ایک بہادر شخص“ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں لکھ کر اپنے محبوب کی بارگاہ میں وفا کے گلدستے پیش کر چکے ہیں، ان تینوں نثری کتب میں کئی سالوں سے سیاسی،مذہبی اور ادبی پروگراموں کی کمپیئرنگ کے دوران آنکھوں دیکھے تمام تر حالات و واقعات کا تذکرہ موجود ہے کیونکہ کمپیئرنگ کے میدان میں ان کا نعم البدل کوئی نہیں، جوشیلا اندازِ بیاں ہے،جاندار جملے بولتے ہیں، سامعین کی طرف توجہ دلانے کے فن پر مہارت رکھتے ہیں، ان کے بارے میں برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی پروگرام کی تیاری کے بغیر بھی اسٹیج کو اس کے معیار کے مطابق سنبھال سکتے ہیں۔
خواجہ آفتاب عالم سیاست سے وابستگی رکھتے ہوئے اُن جھوٹے مشیروں، پیروں اور ٹھیکیداروں کی طرح نہیں جن کا مستقبل داغ دار ہے، وہ اپنے ادبی،صحافتی اور شعبہ وکالت کی طرح صاف ستھری سیاست پر یقین رکھتے ہیں، وہ دوسروں کے کام آنا اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں، وہ جسے دل سے اپنا ایک بار مان لیتے ہیں پھر اُسے زندگی کی تاریک راہوں پر تنہا نہیں چھوڑتے، ان کی شخصیت خلوص و وفا کا پیکر ہے۔ مجھے یاد ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں جب مسلم لیگ(ن) کے قائدین کو کرپٹ قرار دینے پر جیلوں میں بھیجا گیا اور دیگر اراکین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلاگیا تو ایسے کڑے حالات میں بھی خواجہ آفتاب عالم ن لیگ کی اعلیٰ قیادت اور دیگر اراکین کی عدالتی پیشیوں پر مکمل طور پر شرکت کرتے رہے جو کارکنان میں کم شخصیات کو یہ اعزاز جاتا ہے جس کا ثبوت ان کی کتاب”ایک بہادر شخص“ کے تصویری البم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ انہی کے محبوب قائد میاں نواز شریف کی دوبارہ حکومت آنے پربھی ان کی صلاحیتوں اور قلمی کاوشوں کا اعتراف نہ کیا گیا جبکہ انہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لائرز فورم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل پنجاب،مرکزی سیکرٹری جنرل نواز یوتھ فورس بھی مقرر کیا گیا اس کے باوجود بھی وہ موجودہ حکومت سے خفا نظر آتے ہوئے عہدوں سے زیادہ پاکستان کے روشن مستقبل کے ضامن دکھائی دیتے ہیں اور کئی محرومیوں اور ناکامیوں کی عکاسی کرتے ہوئے ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
اک نوالے کی خاطر یہاں
کر رہے خود کشی لوگ ہیں
ان کو عالمؔ سزا کون دے
چور ہی منصفی لوگ ہیں
خواجہ آفتاب عالم حُسنِ گفتار کے غازی اور مثبت کردار کے حامی بھی ہیں،ایسے میں وہ اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات،سماجی،مذہبی رویوں اور سیاسی سرگرمیوں کو ایک شاعر کی نظر سے دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ کوئی بھی موضوع ایسا نہیں ہے جو ان کی فکر اور قلم کی بصیرت تک رسائی نہ حاصل کر پایا ہو۔امجد حمید محسنؔ کے مطابق ”خواجہ آفتاب عالم کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسو س ہوتا ہے کہ وہ قاری کو مشکل پسندی کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ سادگی ان کی شاعری کا حُسن ہے۔ ان کی کتاب ”قطعاتِ آفتاب“ پر نظر ڈالیں تو ایک احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ آفتاب عالم جابجا زمانے کے دکھ کو اپنا دکھ تصور کر رہے ہیں، سماجی رویوں میں تبدیلی پر افسردہ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دعوے داروں کو چھوڑ کر خود اپنی منزل کی طرف نکلنا ہو گا اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد فضا میں سانسیں لینے پر نفرت، بغض کو دور کر کے خوبصورت رشتوں کی تعمیر کرنا ہو گی۔“ خواجہ آفتاب عالم مثبت سوچ کے شاعر ہیں اپنی اسی مثبت سوچ کو لے کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔