گریٹر اسرائیل کے قیام تک جنگ جاری رہے گی
جنگ شروع ہے اکتوبر2023ء جب حماس نے اسرائیل کے اندرگھس کر حملہ کیا، راکٹ داغے،کئی اسرائیلیوں کو قیدی بنایا۔یاد رہے سارے اسرائیلی،یعنی اسرائیل میں رہنے والے یہودی نہیں ہیں ریاست اسرائیل میں عرب مسلمان بھی شہری ہیں۔عیسائی بھی اسرائیلی شہری ہیں۔دروز، بہائی اور شاید قادیانی بھی اسرئیل کے شہری ہیں۔پوری دنیا میں بنی اسرائیل،یعنی اولاد یعقوب علیہ الصلاۃ و سلام کی تعداد ایک کروڑ44لاکھ یا اس سے کچھ اوپر ہے جن میں 70 لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ ریاست اسرائیل میں بستے ہیں ویسے اسرائیل کی آبادی90لاکھ کے قریب ہے، تمام بنی اسرائیلی یہودی نہیں ہیں،لیکن اسرائیل یا د نیا کے مختلف ممالک میں بسنے والی آلِ یعقوب کو یہودیوں کے نام سے ہی پہچانا جاتا ہے، حالانکہ حضرت یعقوب علیہ الصلاۃ و سلام کے12بیٹے تھے جو آلِ یعقوب یعنی بنی اسرائیل کہلائے۔یہودا، ایک بیٹا تھا،جس کے قبیلے کے لوگ یعنی یہودا کی اولاد یہودی کہلائی۔ باقی بھائیوں کی اولاد اپنے اپنے مورث کے نام سے پہچانی گئی۔اڑھائی ہزار سالہ جلاوطنی یا دور انتشار میں یہ قبائل امتدادِ زمانہ کا شکار ہو کر تاریخ کی گرد میں مٹتے چلے گئے لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی اپنی شناخت قائم رکھی۔ اسرائیلی آج بھی اپنی قدیمی شناخت پر اصرار کرتے ہیں یہ شناخت کس طرح قائم ہے دنیا کو کچھ زیادہ کیا تھوڑا بہت بھی معلوم نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ اقوام کے ظلم کا نشانہ بنتے رہے ہیں، اپنی حرکات و سکنات اور مکروہ رویوں کے باعث یہ جہاں بھی گئے انہیں جس قوم نے بھی پناہ دی، انہوں نے اسی کو خراب کیا، برباد کیا، ان کی ایسی ذلیل حرکات اور رویوں کے باعث انہیں مکروہ اور ذلیل گروہ کے طور پر گھٹیا تصور کیا جاتا رہا ہے اس لئے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے یہ اپنی قدیمی شناخت چھپانے کی پالیسی پر گامزن رہے اس طرح یہ کسی بھی سوسائٹی میں گھل مل کر اپنی بقاء کو یقینی بناتے رہے ہیں،صدیوں سے ایسے رویے کے باعث دنیا ان کی اصلیت، یعنی اسرائیلی شناخت سے باخبر نہیں رہ سکی ہے،لیکن وہ خود ہمیشہ ایک منظم گروہ کے طور پر زندگیاں گزارتے رہے ہیں اسرائیلی کہیں بھی ہو، کسی بھی ملک میں ہو وہ ہر حالت میں جنگ میں جاتے ہیں وہ مذہبی الہامی جذبات کے تحت بندوق اٹھاتے ہیں، بم برساتے ہیں ان کے جذبات میں شدت ہے مذہبی،نسلی بقاء کے لئے جدوجہد، ریاست اسرائیل کے لئے بے پناہ محبت، یہ ایک زمین کے ٹکڑے سے محبت نہیں ہے، بلکہ ایک الہامی سرزمین،الہامی وعدے کی تکمیل اور عظمت کے دورِ رفتہ کی بحالی کا معاملہ ہے۔اسرایلیوں نے2500 سال تک اپنے دورِ انتشار میں عظیم اسرائیل کے قیام کے الہامی وعدے کو سینوں میں محفوظ رکھا۔اپنی نسلی شناخت برقرار رکھی۔ دربدر ہونے کے باوجود اپنے گروہی مفادات کی پاسداری کی۔اپنے آپ کو مضبوط اور موثر بنایا۔پہلے برطانیہ عظمیٰ کو ریاست اسرائیل کے قیام کا علمبردار بنایا۔ موئید و معاون بنایا، پھر سپریم طاقت امریکہ کو ریاست اسرائیل کا نگران و نگہبان بنایا۔جنگ ِ عظیم اول اور اس سے قبل تک یہودی عالم مغرب میں راندہئ درگاہ تصور کیے جاتے تھے انہیں مسیح علیہ السلام کا قاتل اور عیسائی قوم کا دشمن سمجھا جاتا تھا،لیکن انہوں نے بڑے منظم انداز میں کچھ اس طرح کیا کہ عیسائی دنیا، عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات حق سے برگشتہ ہو گئی۔مذہب کے نام پر مسلمانوں سے لڑنے والی عیسائی دنیا، عیسوی فکرو عمل سے بیگانہ ہو گئی۔مغربی دنیا میں مذہب کو دیس نکالا مل گیا۔شراب نوشی،سؤر خوری سے سود خوری،زنا کاری، اغلام بازی اور ایسی تمام مکروہ حرکات جو عیسوی معاشرے میں ناپسندیدہ تھیں، اقوام مغرب میں رائج ہو گئیں۔بے حیائی اور اخلاق سوزی اگر مغربی معاشرے میں عام ہیں تو اس کا کریڈٹ یہودی سازش کو جاتا ہے جس نے فکر و عمل کے مراکز پر غلبہ حاصل کر کے عیسائی مغرب کو لادین، بے دین اور مذہب دشمن بنا دیا ہے۔ آج یہودی، مسیح کا قاتل نہیں سمجھا جاتا،بلکہ یہودیوں کے خلاف بات کرنا ہی قابل ِ گرفت فعل ہے۔ امریکہ،برطانیہ و اقوام مغرب میں یہودی مخالف تحریر اور تقریر قابل ِ گرفت عمل ہے۔
عیسائی دنیا کو مغلوب کرنے کے بعد صہیونی عربوں کا قلع قمع کرنے کے لئے یکسوئی سے مصروف عمل ہیں عربوں میں کسی قسم کی فکری و نظری تحریری، جو عربوں کو طاقت دے سکتی ہو، کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔اخوان المسلمون کے مقابل بعثی تحریکوں کو فروغ دے کر اور بعث پارٹی کو مصر، عراق اور شام میں غلبہ دِلا کر عربوں کو طاقت بخشنے والی تحریک کا خاتمہ کرنے کی سعی کی گئی۔فلسطینیوں کی حماس کا خاتمہ جاری ہے۔ایران اور اس کی ذیلی تنظیموں کا خاتمہ بھی جاری ہے۔غزہ اور مغربی کنارے پر بسنے والے فلسطینیوں کے ساتھ ایک سال سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی پالیسی کا حصہ ہے لبنان پر حملہ بھی گریٹر اسرائیل کے قیام کے حوالے سے اہم اقدام ہے۔ اسرائیل کسی سلامتی کو نسل یا جنرل اسمبلی کی قرارداد کی پروا نہیں کرے گا۔امریکہ برطانیہ و دیگر مغربی ممالک بظاہر جنگ بندی کی باتیں کر رہے ہیں،لیکن مسلمانوں پر گرایا جانے والا گولہ بارود انہی ممالک کا فراہم کردہ ہے وہ مسلسل جنگ کی آگ کو بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل کو امداد دی جا رہی ہے یہ جنگ ایسے ہی جاری رہے گی۔گریٹر اسرائیل کے قیام تک۔
٭٭٭٭٭