سپیشل مسلمان
سوال ہوتاہے کہ انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اللہ کے حکم سے فرشتہ مقدر لکھ دیتا ہے تو پھر انسان کے دنیا میں آنے کے بعد جنت دوزخ کے حصول کے لیے عمل کی کیا حیثیت ہے؟ مطلب یہ کہ جب سب کچھ پہلے ہی سے لکھا جا چکا تو حساب کتاب، سزا جزا، جنت دوزخ کیا ہے؟
دیکھیں،اگر ہم ایک پانچ سال کے بچے کو بیس سال بعد دیکھیں اور اس میں اتنی ہی عقل پائیں جتنی وہ پانچ سالہ عمر میں رکھتا تھا، تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ ایک ’اسپیشل چائلڈ‘ (خصوصی بچہ) ہی کہلائے گا ناں، ایسا بچہ!
لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ایک مسلمان عاقل و بالغ ہو کر بھی بچپن جتنی عقل سے آگے نہیں بڑھ پاتا لیکن ہم اسے ’’اسپیشل مسلمان‘‘ نہیں کہتے.......
یہ ایک ایسا مسلمان ہے جو پڑھنا ہی نہیں چاہتا، جاننا ہی نہیں چاہتا، آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتا، سوائے جمعہ کے خطبے کے کوئی اور حدیث یاد رکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی اسے تلاش کرنا چاہتا ہے.......
بھائی، اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ میں نے اس دنیا میں تمھارے لیے تمام رزق بھیج دیا ہے ، اب چاہو تو مجھے مانو، چاہے تو نہ مانو۔ لیکن میں اب بھی اللہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اے اللہ! تُو نے میرے لیے رزق بھیج دیا، میرا بندوبست کر دیا، تو اب میں کیا کروں؟ میرے کرنے کے لیے کیا رہ گیا ہے؟ میرے حصے کا رزق تو ہر صورت میں مجھے مل ہی جائے گا پھر میں کیوں تگ و دو کروں؟ جنت کے حصول کے لیے کیا اعمال کروں اور کیوں کروں؟
تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کیا تُو نے نو سو چھیاسی احا دیثِ قدسی میں سے وہ حدیث نہیں پڑھی جس میں میں نے کہا ہے کہ میں تیرے عمل پر انحصار نہیں کرتا۔ مجھے تو یہ بات زیادہ پسند ہے کہ تُو حقیقی دل سے سوچ کر عالمِ جوانی میں میرے لیے ایک آنسو بہا دے اور اس ایک آنسو سے میں تیرے لیے دوزخ کی آگ بجھا دوں گا........
تو بس پھر پیچھے کون سے اعمال رہ جاتے ہیں؟
پھر ان دوستوں سے بڑی معذرت کے ساتھ جو بڑی سختی سے اعمال پرکاربند ہیں، حدیثِ قدسی میں بڑی سختی سے حکم دیا گیا ہے کہ دوسروں کے گناہوں پر پردہ ڈالو تاکہ قیامت کے دن میں تمھارے گناہوں پر پردہ ڈالوں۔ اب جب کہ رب تعالیٰ ایسا شفیق ہے کہ آپ کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کو بھی تیار ہے اور آپ کو بھی یہی تلقین کر رہا ہے تو سوچنا پڑے گا کہ جنت یا دوزخ کی جانب لے جانے کا موجب ہمارے اعمال ہوں گے یا ہماری نیت۔
پھر تسکینِ نفس کی خاطر اس بات کا فلسفیانہ جواب بھی عرض کرتا چلوں کہ کیا اگر خیالِ خیر اللہ کی طرف سے آتا ہے تو کیا خیالِ شر بھی اللہ الہام کرتا ہے؟
اس کا جواب مذہبی ذہن رکھنے والے یہ دیتے ہیں کہ خیر کا خیال تو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے لیکن شر کا خیال شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات بالکل غلط ہے۔ شیطان خیال دے ہی نہیں سکتا، شیطان تو صرف وسوسہ دے سکتا ہے۔
اب وسوسے اور خیال میں فرق کیسے کریں؟
وسوسہ وہ چیز ہے جو آئے اور گزر جائے جبکہ خیال وہ ہے جو آئے اور ٹھہر جائے۔ جب خیال ٹھہر جائے تو سمجھ لیں کہ اب اس میں شیطان کا کوئی حصہ نہیں ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے میرے بھائیوں کو پہلی نظر معاف فرمائی، دوسری معاف نہیں فرمائی۔
صحابہ کرامؓ حضور ﷺ کے پاس گئے اور کہا ’’یا رسول اللہﷺ! جب نماز پڑھتے ہیں تو ایسے برے برے خیالات آتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ کوئلہ ہو جائیں۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ یہ عین ایمان ہے۔ (یہ تو شکر ہے کہ استاد بڑا ہے) کیونکہ جونہی تم اللہ اکبر کہتے ہو، شیطان وسوسے دینے تمھاری طرف پلٹتا ہے۔ تم کیا چاہتے ہو کہ ایمان کی اس حالت پر آجاؤ کہ فرشتے تمھارے بستروں پر لیٹ کر تمھارا انتظار کریں کہ کب تم آؤ اور تم سے ہاتھ ملائیں؟
سو خیالِ خیر اور شر دونوں اللہ کی طرف سے الہام ہیں اور الہام سوائے خدا کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ معاملہ محض یہ ہے کہ ان دونوں خیالوں کے درمیان اللہ نے پل صراط رکھ دیا۔ آپ کا خیال ہے کہ پل صراط پر آخری دن، انشاء اللہ اپنے قربانی کے بکرے پر بیٹھ کر جائیں گے؟
جناب! پل صراط کو آپ دن میں ہزار بار پار کرتے ہیں۔ خیالِ خیر بھی آ رہا ہوتا ہے، خیالِ شر بھی آ رہا ہوتا ہے اور ان دونوں سے گزرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو وسیلہ اور سبب دیا وہ اور کسی مخلوق کو نہیں دیا اور وہ وسیلہ اور سبب ہے علم کا!
علم خیر کا بھی ہو سکتا ہے اور شر کا بھی ۔ اسی لیے میرے رسول ﷺ اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ میرے اللہ! مجھے خیر کا علم دے، مجھے وہ علم نہ دینا جو خیر کا نہ ہو۔
علم سے انکار تو آپ کر ہی نہیں سکتے۔ پامسٹری بھی علم ہے، آسٹرولوجی بھی علم ہے لیکن جن علوم سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہمیں منع فرما دیا ، وہ ہمارے لیے شر ہوں گے۔
سو پل صراط پر سے گزرنے کا عمل ہر لمحہ ہو رہا ہوتا ہے۔ بیسیوں ایسے لمحات ہوتے ہیں جب دونوں خیال ایک ہی لمحے میں ذہن پر وارد ہوتے ہیں اور پھر آپ علم اور ایمان داری کی بنا پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کو ن سا خیال میری ذات کی طرف پلٹتا ہے اور کون سا خیال خدا کی طرف پلٹتا ہے۔ جو خیال میری ذات کی طرف پلٹے گا، وہ خدا کے خلاف جائے گا، اور جو خیال خدا کی طرف پلٹے گا ، وہ میری ذات کو پست کرے گا۔
سو مجھے دونوں میں سے ایک خیال کا انتخاب کرنا ہے ۔ کس طرح کا انتخاب کرنا ہے؟
یہ ٹیکنالوجی بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دی۔
حدیثِ قدسی میں اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم سے کوئی سوال کرتا ہے اور تم پوری ایمان داری سے اور اپنے پورے علم کے زور پر اس کا جواب دیتے ہو تو تمھارا فیصلہ چاہے غلط بھی ہو جائے، تمھیں اس کا اجر ملے گا، اگر فیصلہ صحیح ہو جائے تو دہرا اجر ملے گا۔
سو، اللہ تعالیٰ نے شرط کس چیز کی لگائی؟ نیت کی، اور نیت کی ایمان داری کی! اللہ کے ہاں صرف آپ کی نیت پہنچتی ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔