تارکین وطن اور پاکستانی قونصل جنرل ٹورنٹو
دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے پاکستانیوں کا دل ہمیشہ مادر وطن کی محبت میں دھڑکتا اور پاکستانیت کا جذبہ ان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، تارکین وطن کی اکثریت پاکستان کے بارے میں ہر وقت فکر مند رہتی ہے، اس کے حالات پر دل گرفتہ بھی رہتی ہے اور اس کی ترقی کے لئے دُعا گو بھی، ان دنوں ملک کے دگر گوں حالات پر ان میں کافی تشویش پائی جاتی ہے، جس کا اظہار وہ پاکستان سے آنے والے ہر شخص سے کرتے ہیں، میں بھی اِن دِنوں کینیڈا میں ہوں اور اپنے ہم وطنوں کی تلخ و شیریں باتوں کو سن رہا ہوں۔ ملکی سیاست، دینی، سماجی،معاشی مسائل وغیرہ میں ان کی دلچسپی ہے،بلکہ وہ پاکستان میں مقیم ہم وطنوں سے زیادہ ملکی حالات کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکومتیں اور سیاست ان کے ساتھ ہمیشہ سے تغافل برت رہی ہے، ان تارکین وطن کے بے شمار مسائل ہیں،پاکستان میں ان کی گھروں پلاٹوں اور زرعی اراضی کے علاوہ دیگر جائیداد پر قبضے بھی ایک فوری حل طلب مسئلہ تھا،جس کا ازالہ اوورسیز محتسب کے ادارہ کے قیام سے کیا گیا جہاں ان کی داد رسی ممکن ہوئی، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ، زمین جائیداد کی منتقلی کے لئے درکار ضروری کوائف کا حصول،پیدائش اور موت کی صورت میں سرٹیفکیٹ بھی مسئلہ ہے، مگر اس کے باوجود یہ دِل دِل پاکستان کا راگ ہی الاپتے ہیں ہے،ان لوگوں میں سے بہت نے پیسہ کمانے کے بعد وطن واپسی کا ارادہ کیا اور یہاں صنعت لگانے کی کوشش کی، مگر یہاں کے پیچیدہ نظام اور کرپٹ عناصر نے ان کو اتنا تنگ کیا کہ یہ لوگ سب پروگرام تج کر واپسی کی راہ لینے میں ہی عافیت سمجھتے رہے،اگر ان کو تحفظ اور مراعات دی جائیں تو اب بھی یہ لوگ اندرون ملک سرمایہ کاری کو تیار ہیں۔
یہ چاہتے ہیں کہ ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں، ان کا موقف درست ہے کہ جب سمندر پار پاکستانی اپنے گھر والوں کے لئے پیسے بھجوا سکتے ہیں، جو کہ ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو پھر یہ ڈالر بھیجنے والے ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرسکتے، لاکھوں سمندر پار پاکستانیوں کے دِل پاکستان میں ہی دھڑکتے ہیں اور اس قربت کی بنا پر انہیں وہ سارے حقوق حاصل ہونا چاہئیں جو باقی پاکستانیوں کو ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا رابطہ اپنے علاقے سے رہے، حکومتی فیصلوں میں ان کا عمل دخل رہے اور ان کو تحفظ ملے،تاہم سوال یہ ہے کہ جب وہ پاکستان میں رہتے نہیں ہیں تو انہیں سارے حقوق کیوں ملنا چاہئیں، اس پر اکثر تارکین وطن کاکہنا ہے کہ ”گو واں کے نہیں پر واں سے نکالے ہوئے تو ہیں“ ان کاموقف ہے کہ یہ بات درست ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں لیکن ان کے آباؤاجداد کی زمینیں ہیں، رابطے ہیں اور وہ لوگ مسلسل پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں،ان کے مطابق وہ بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان میں کوئی بہت بڑی تبدیلی تو نہیں لا سکتے، لیکن اپنی رائے تو ضرور دے سکتے ہیں، وہاں جو امیدوار انتخاب میں کھڑا ہو اس پر کھل کر تنقید کر سکیں، وہاں کے لوگوں کو بتا سکیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور کیا یہ امیدوار وہ مسائل حل کر سکتا ہے کہ نہیں۔
تارکین وطن قومی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینے کے خواہشمند ہیں،یہ لوگ ملکی معیشت کو ایک عرصہ سے سہارا دئیے ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس گراں قدر خدمت کی قدر صرف عمران خان نے کی، عمران خان نے ان کے اندر جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کیا ان کی ملک و قوم کے لئے خدمات کو سراہا اور ان کو ملکی سیاست میں اہم اور سرگرم کردار دیا،ن لیگ پیپلز پارٹی کی طرف سے ای وی ایم کی مخالفت اگر چہ سیاسی حربہ تھی، مگر وہ بھی انہیں چاہتے ہیں،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں سمندر پار پاکستانیوں کے لئے الگ سے نشستیں ہیں اس طرح پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی سمندر پار پاکستانیوں کے لئے الگ سے نشستیں مقرر کی جائیں، چاہے وہ نشستیں کم ہی کیوں نہ ہوں،ان کے مطابق اوورسیز پاکستانی کو ووٹ دینے کی قانون سازی صرف لولی پاپ سے زیادہ نہیں ہے، اسی طرح ایک دوسرے مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں تین سے چار لاکھ ووٹرز ہوتے ہیں اور وہ پورے پانچ سال کے دوران کسی بھی کامیاب امیدوار کا اپنے ہر ایک ووٹر سے ملنا بہت مشکل ہے تو پھر ان کے حلقے کے ووٹرز جو بیرونی ممالک میں رہتے ہیں کیسے ان سے وہاں پر جا کر ان کے مسائل پوچھیں گے۔
عام طور پر تارکین وطن کے لئے ان کے ممالک میں سفارتکار اور قونصل خانے اپنے شہریوں کے حقوق کی نگہبانی کرتے ہیں،ٹورنٹو میں پاکستانی سفارتی عملہ بھی اس حوالے سے پیش پیش رہتا ہے، مگر سفارتی عملہ کی مجبوری ہے کہ ہر حکومت وقت کی پالیسی کے مطابق ان کو معاملات آگے بڑھانا ہوتے ہیں،ملکی معیشت اور زر مبادلہ کے ذخائر کا زیادہ ترانحصار اگر چہ تارکین وطن کی ترسیلات پر ہے،زرِ مبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں،بر آمدات نہ ہونے کے برابر ہیں،،ایسے میں ملکی معیشت کا انحصار تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات پر ہے،غیر یقینی سیاسی صورتحال کے پیش نظر انہوں نے بھی رقوم بھیجنے کے لئے ہاتھ تنگ کر لیا ہے،اگر حکومتی سطح پر اوورسیز پاکستانیوں کو اعتماد میں لے کر پالیسی وضع کی جائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ ترسیلات بھیجنے کی درخواست کی جائے تو نادہندگی کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوسکتا ہے۔
ان سارے معاملات میں کتنی مزید پیش رفت ہو سکتی ہے یا ہو رہی ہے اِس حوالے سے گزشتہ دِنوں ہماری ملاقات ٹورنٹو میں پاکستان کے قونصل جنرل محترم خلیل باجوہ سے ہوئی گو انہوں نے ہمیں دوپہر کے کھانے پر بلایا تھا،مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ہم صرف کھانا ہی کھاتے، اس موقع پر کینیڈا اور خصوصی طور پر ٹورنٹو میں رہنے والے پاکستانی کینیڈینز کے مسائل اور قونصل خانے سے انہیں ملنے والے ریلیف کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی،وہ ایک سینئر سفارتکار ہیں اور ان کا لہجہ اور سفارت خانے کے حالات بتا رہے تھے کہ یہاں آنے والے پاکستانیون کو عزت دی جاتی ہے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی جاتی۔ یہاں پر کسی پاکستانی کی وفات کی صورت میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے اجراء اور اس کی میت کو پاکستان بھجوانے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ”یہ مسئلہ قونصل خانے اور ان کے لئے سب سے بڑی ترجیح ہوتی ہے“۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض معاملات میں کچھ ضروری ڈاکومنٹیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔کچھ دوسرے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم یہاں پر پاکستانی حکومت کی آنکھ اور کان ہیں اور ہم اس سلسلے میں جو دیکھتے سنتے ہیں وہ اپنے سینئرز اور حکومتی عہدیدارں تک بروقت پہنچا دیتے ہیں تاکہ ان پر فوری ایکشن ہو سکے۔