معراجِ انسان
ایک مرتبہ آپﷺ نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیمؓ کو اپنی گود میں ایک طرف بٹھایا اوردوسری طرف اپنی صاحب زادی حضرت فاطمۃالزہرا ؓ کے بیٹے حضرت امام حسنؓ کوبٹھا لیا۔ اب ایک طرف ابراہیمؓ ہیں اور دوسری طرف حضرت امام حسنؓ ہیں۔ اس دوران میں حضرت جبرائیل ؑ آئے اور کہنے لگے کہ’ ’یارسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے دونوں بیٹوں میں سے ایک بیٹا مانگا ہے۔‘‘
اب یہاں عقل اور دانش تو کہتی ہے کہ جس کے دو بیٹے ہوں وہ ایک دے دے اور جس کا ایک ہی ہو وہ رکھ لے مگررسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’میرا بیٹا ابراہیمؓ لے جاؤ۔‘‘
ایک صحابیؓ نے یہی کہا ’’یا رسول اللہﷺ !آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ علیؓ کا بیٹا حسنؓ لے جاؤ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’ میں نے یہ سوچا تھا کہ اگر ابراہیمؓ جائے گا تو مجھے غم ہو گا مگر حسنؓ کے جانے سے میری بیٹی فاطمہؓ کو غم ہو گا‘‘
یہ رحمتِ عالمﷺ ہیں قارئین ! آپﷺ کی اس بات پہ جبرائیل ؑ کا دل بھی دہل گیا ہو گا۔ اگر اُن کا دل نہ دہلا ہوتا تو وہ رسولﷺ کو یہ جملہ نہ کہتے کہ ’’یا رسول اللہﷺ!میں نے آج آسمانوں پہ یہ منادی سنی ہے۔‘‘ اللہ کا یہ مزاج شریف ہے کہ جو بات ہوتی ہے اللہ اُس کی آسمانوں پہ منادی کروا دیتے ہیں جیسے اللہ نے کہا کہ ’’تم اگر زمین پہ میرا ذکر کرو گے تو میں تمھارا ذکر آسمانوں پہ کروں گا اور میری مجالس تمھاری مجالس سے بہتر ہیں۔‘‘ ’’یا رسول اللہﷺ! میں یہ منادی سن کے آ رہا ہوں کہ اللہ نے یہ کہلا دیا ہے سب کو کہ آج اس زمین پر محمدﷺ جو بھی مانگیں گے، انھیں عطا کر دیا جائے گا۔ یارسول اللہ ﷺ !آپ دونوں کی زندگی مانگ لیتے۔ آج تو اللہ نے آپﷺ کو سب کچھ عطا کرنا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا(اب دیکھیں کہ یہ رسالت ہے،یا رحمتہ اللعالمین ہیں) ’’میں نے سن لی تیری بات، اب رب کو ایک پیغام میرا بھی دینا۔ اللہ سے کہنا کہ محمدﷺ نے زمین پہ کہا کہ جب آسمانوں پہ میری اُمت کو اکٹھا کیا جائے گا تو محمدﷺ اپنی امت کی مغفرت کی دعا تب مانگے گا۔ اے اللہ! تو اپنے اس عہد کو تب یاد رکھنا کہ تو نے مجھے اجازت دی کہ میں جو چاہوں گا تو مجھے دے گا۔‘‘
معراجِ رسول ﷺ آسمانوں کا سفر ہو یا نہ ہو، مجھے اِس سے کیا لینا دینا۔ اللہ تعالیٰ مالک ہیں ، وہ رسول ﷺ کو آسمانوں پہ لے جانا چاہیں یا زمین پہ لے جائیں ، یہ میری دانش سے اوپر کے درجے کی بات ہے۔ میرے لیے معراجِ رسولﷺ پتا کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ قوم کی مغفرت کے لیے قوم سے زیادہ فکر مند ہیں۔ میری مغفرت کی مجھ سے زیادہ فکر میرے رسول ﷺ کو ہے۔ اگر یہ بات سچ ہو ناں کہ اللہ آپ کا حق ہے۔ اگر یہ بات سچے دل سے تسلیم کر لی جائے کہ اللہ کا اختیار اور اُس کی قدرت ہر حد سے ماورا ہے تو خدا کی قسم! اس زمین پرکیا کیا معراج برپا ہوتیں؟
حضرت عمرؓ کو عمرو ابن العاصؓ نے پیغام بھیجا کہ ’’دریائے نیل خشک ہو جاتا ہے اور جب تک اس میں ایک لڑکی کو نہ ڈالا جائے، یہ بہتا ہی نہیں۔‘‘ اب یہاں انھیں چاہیے تھا کہ عمر و ابن العاصؓ کو تسلی دیتے لیکن آپؓ نے ایسا نہیں کیا بلکہ دریا کو خط لکھا۔ یہ بھی کمال بات ہے کہ دریا کو خط لکھا، کیا یہ معراجِ عمرؓ نہیں ؟ اُس دریا کو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ’’ اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو جو چاہے کر اور اگر تو اللہ کے حکم سے بہتا ہے توامیر المومنین عمرؓ تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو بہنا شروع کر دے۔‘‘ زمانہ گواہ ہے، دریائے نیل چودہ سو سال سے نہیں رکا۔ اب یہ بھی اللہ کے ہونے اور اُس کی قدرت کی ایک دلیل ہے اور مجھے یقینِ کامل ہو کہ خدا ہے تو خدا کی قسم اس زمین پہ پانی بھی آپﷺ کا حکم مانتا ہے ۔ اس لیے میرے رسولﷺ نے کہا کہ زم زم کو پیو، یہ تمھاری نیتوں کو پڑھتا ہے۔ حکم کو نہیں سنتا۔ جب زم زم ہاتھ میں لو تو یہ تمھاری نیت کو پڑھتا ہے۔ اس کو جس نیت سے پیو گے ،وہ تمھاری دعا ہو گی اور وہ اللہ تک بغیر کسی حیل و حجت ، بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچا دے گا۔ پتا ہے کیوں اس کا درجہ اتنا زیادہ ہے؟ ایک بات پہ اللہ نے اس پانی کو کیابرکت اور کیا مقام عطا کر دیا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ جا رہے تھے تو حضرت ہاجرہ ؑ نے پیچھے حضرت اسماعیل ؑ کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ آپؓ نے حضرت ابراہیم ؑ کو پکارا اور پوچھا کہ ’’ تم مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو، یہ اپنی وجہ سے ہے یا حکمِ الٰہی ہے تمھیں؟‘‘ ابراہیم ؑ کہتے ہیں ’’ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں تجھے چھوڑ کر جاؤں۔‘‘ وہ کہتی ہیں’’ پھر بے فکر ہو کے جائیں، اللہ آپ سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے‘‘ایک عورت کا اتنا بھروسا خدا پر اور پھر اللہ نے اِس کا اجر یہ دیااس خاتون کو کہ آج بھی آپ اس جگہ کی زیارت کیے بغیر نہ حج کر سکتے ہیں نہ عمرہ۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ کے بچے (حضرت اسماعیل ؑ ) کا پاؤں اور ایک دوسری روایت کے مطابق جبرائیل ؑ کا پر جہاں لگا، وہاں سے یہ پانی پھوٹ نکلا۔ آپؑ نے اس پانی کو روکنے کے لیے زم زم کہا اور اِس کے گرد ریت کی دیوار بنائی۔ یہیں سے اس کا نام زم زم پڑ گیا۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ اگر وہ (حضرت ہاجرہؑ ) ریت کی دیوار نہ بناتیں تو یہ پانی اس دنیا پہ ندیاں بہا دیتا۔ اب یہاں بھروسا اللہ کی ذات پر ہے اور اگر یہ کامل بھروسا ایک عورت میں ایک لمحے کے لیے آجائے کہ ’’اے پیغمبر! تو جا، اللہ تجھ سے زیادہ حفاظت کرنے والا ہے‘‘ تو خدا نے جو سنت بنائی، وہ رسول کی سنت نہیں بلکہ وہ ہماری اُسی ماں کی سنت ہے۔ یہ خدا پر اعتماد کی معراج ہے جو قیامت تک جاری رہے گی۔
اب اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ کے رسولﷺ کی معراج کیا ہو گی؟ واللہ اعلم۔ میرے خیال میں ہم شاید اس دنیا میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ معراجِ رسولﷺ کیا ہے لیکن اگر آپ اجازت دیں تو ایک بات کا فیصلہ تو ہم کر ہی سکتے ہیں کہ معراجِ انسان، اللہ کے رسولﷺ سے محبت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ گواہی ہے جو آنکھوں سے نہیں، رسولﷺ کی زبان سے دی جا سکتی ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔