ایسی بلندی ایسی پستی
بھارت کا مصنوعی سیارہ چندریان 3 چاند کے مدار میں پہنچ گیا ہے، اس کا یہ سفر 14 جولائی کو شروع ہوا تھا اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے مہینے کی چوبیس تاریخ کو (یعنی آج سے تقریباً ایک ماہ بعد) چندریان 3 چاند کی سطح پر اترے گا، اگر یہ مشن کامیاب ہو گیا تو بھارت امریکہ، چین اور سابق سوویت یونین (موجودہ روس) جیسے ممالک کے کلب میں شامل ہو جائے گا جو اس سے پہلے اپنے مصنوعی سیارے چاند تک پہنچا چکے ہیں کہا جاتا ہے کہ بھارت کا یہ مصنوعی سیارہ چاند کے اس حصے پر لینڈکرے گا جو زمین سے نظر نہیں آتا یعنی زمین پر نظر آنے والی چاند کی سطح کے دوسری جانب چاند کے تاریک حصے میں۔
ایک طرف عروج کی یہ داستان ہے اور دوسری جانب زوال کی وہ انتہا جس کا کسی مہذب ملک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، یہ بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کی بد قسمتی ہے کہ وہ آج ہندو انتہا پسندی کے نشانے پر ہیں اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں، یوں تو بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کو کبھی کوئی دن سکھ اور شانتی کا نصیب نہیں ہوا، لیکن جب سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے (2014ء) مسلمانوں اور مسیحی برادری سمیت تمام اقلیتیں خود پر بھارتی زمین تنگ محسوس کرنے لگی ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب بھارت کے کسی نے کسی حصے، کسی نہ کسی کونے اور کسی نہ کسی شہر سے ہندو اکثریت کے ہاتھوں اقلیتوں کے شہری حقوق کی پامالی کی خبریں سامنے نہ آتی ہوں،بلوے تو روز کا معمول بن چکا ہے
خبر یہ ہے کہ بھارت کی ریاست منی پور میں دو طالبات کو برہنہ کر کے ان کی پریڈ کرائی گئی‘ ہندو جنونیوں کے ایک ہجوم نے ان پر بہیمانہ تشدد کیا اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ منی پور میں نسلی فسادات یوں تو گذشتہ اڑھائی ماہ سے جاری ہیں اور اب تک ان فسادات میں 160 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن انسانیت کی تذلیل کا ایسا واقعہ پہلی بار سننے میں آیا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ بند کرنے اور صحافیوں کو دور دراز کے متاثرہ علاقے تک رسائی نہ دینے کے باعث متاثرین پر گزرنے والی قیامت سے باقی ملک اور دنیا دونوں بے خبر ہیں۔ گذشتہ دنوں انٹرنیٹ کھلا تو اس واقعے کی ویڈیو سامنے آئی جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ نہیں ہلی تو بی جے پی کی مودی حکومت نہیں ہلی۔ تفصیلات اس خبر کی یہ ہیں کہ منی پور کی ریاست کے اس علاقے میں مسیحی ”کوکی“قبائل اور ہندو”میتی قبائل“ کے درمیان زمین کی ملکیت پر تنازع چل رہا ہے۔ ہندو میتی کمیونٹی چاہتی ہے کہ پہاڑی علاقے میں جہاں مسیحی”کوکی“ اور دیگر قبائل آباد ہیں وہاں ان کو زمین خریدنے کی اجازت اور سرکاری سرپرستی میں نوکریوں میں ترجیح دی جائے۔ اس مطالبے کے خلاف مسیحی”کوکیوں“ نے احتجاج کیا اور حکومت کو کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہنے کے لئے کہا جس سے ان کی شناخت معدوم ہو اور وہ اپنے علاقے میں اقلیت بن جائیں۔”کوکیوں“کے احتجاج کے جواب میں ”میتی ہندوؤں“ نے متشدد مظاہرے کیے، اس دوران بلوائیوں نے طالبات کے کالج پر حملہ کر دیا۔ طالبات پر تشدد کیا گیا اور ان کا ریپ کیا گیا۔ دونوں لڑکیاں علاقے کی مسیحی”کوکی“ قبائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ میں سے کسی کے کان پر اب تک جوں نہیں رینگی ہے ساری کارروائی محض بیانات تک محدود ہے‘ انصاف کیسے ہو گا؟
اگلی مثال اس سے بھی زیادہ ہوش اڑا دینے والی ہے۔ ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں نشے میں دھت ایک شخص کو زمین پر بیٹھے ہوئے نچلی ذات کے ایک شخص پر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ شخص پرویش شکلا کا تعلق مدھیہ پردیش ریاست سے ہے اور وہ ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ ہے۔ اب بتائیے کہاں سے ملے گا انصاف؟
یہ محض دو مثالیں ہیں، ورنہ سوشل میڈیا ایسی خبروں سے اٹا پڑا ہے۔ اس سارے معاملے کا نہایت افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری خصوصاً دنیا کے بڑے ممالک بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے اس غیر انسانی سلوک سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود کسی عملی اقدام سے گریزاں ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی پر مودی سرکار کی مذمت پر مبنی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن یہ عمل محض مذمت تک محدود رہتا ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے فرانس کے دورے سے قبل یورپی پارلیمنٹ نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مذمتی قرارداد منظور کی تھی جس میں بھارت سے نسلی اور مذہبی تشدد فوراً روکنے اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیتے ہوئے یورپی یونین اور بھارت کے مابین تجارت سمیت شراکت داری کے تمام شعبوں سے انسانی حقوق کو منسلک کرنے کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے امریکہ نے کہا تھا کہ وہ بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتا رہے گا (یعنی صرف تشویش کا اظہار کرتا رہے گا‘ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جائے گا کیونکہ ایسا کرنے سے امریکہ کے مالی اور تجارتی مفادات پر چوٹ پڑتی ہے)۔ امریکی انتظامیہ کی سالانہ رپورٹ بھی بتاتی ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں‘ آزادیِ اظہار‘ صحافت پر پابندی اور مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کی کارروائیاں تسلسل سے جاری ہیں، مودی حکومت میں پولیس تشدد اور ماورائے عدالت قتل بھی ہوتے ہیں۔ برطانوی جریدے ہیرالڈ نے بھی نام نہاد بھارتی جمہوریت کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سوال اٹھائے ہوئے لکھا کہ پُر تشدد بڑھتے واقعات پر مودی کی خاموشی مجرمانہ ہے، اور خاموشی کی بنیادی وجہ انتہا پسند اکثریت کی خوشنودی ہے۔ ہیرالڈ نے مزید لکھا کہ 2002 ء کے گجرات اور 2023 ء کے منی پور فسادات میں گہری مماثلت ہے۔ بھارتی تنظیم برائے انسانی حقوق نے قرار دیا ہے کہ بھارت میں 2022 ء مذہبی اقلیتوں کے خلاف ظلم و تشدد کا سال رہا۔
پاکستان تو گذشتہ پچھتر(75) برسوں سے بھارتی دہشت گردی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کو اجاگر کر رہا ہے اور اس مسلسل بے انصافی پر دہائی دے رہا ہے۔ پاکستان نے ہر بڑے عالمی فورم پر بھارتی غنڈہ گردی کو بے نقاب کیا ہے اس کی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت اقوام متحدہ سمیت امریکی دفتر خارجہ میں بھی دیئے جا چکے ہیں، مگر نہ عالمی برادری نے کبھی بھارتی جارحانہ عزائم کا نوٹس لیا اور نہ امریکہ نے ان کو اہمیت دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے بھارت میں انسانی حقوق خصوصاً اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر محض واویلا کرنے والے ممالک اور عالمی رہنما اگر مودی حکومت کا دماغ ٹھکانے لگانا چاہیں تو نہیں لگا سکتے؟ بالکل لگا سکتے ہیں، جب تک یہ دوغلا رویہ اور طرزِ عمل برقرار ہے، عالمی سطح پر انصاف کے تقاضے کبھی پورے نہیں ہو سکتے لہٰذا بھارتی اقلیتوں کا مستقبل غیر محفوظ ہی رہے گا۔