کہیں گدھا نہ مرجائے
ذکر کچھ یوں ہے کہ ایک گاؤں میں ایک خدا ترس اور ہمدرد بابا جی رہا کرتے تھے۔ وہ ایک دن اپنے کھیتوں سے اپنے گدھے پر واپس آرہے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوئی۔ پاس ہی سے ان کے ہمسائے کی کھیتوں سے آواز آئی ’’بابا جی‘‘ میں نے بھینسوں کے لئے چارہ کاٹا ہے اب کیچڑ میں سر پر اٹھا کر چلوں گا تو کہیں پھسل نہ جاؤں۔ بابا جی نے کمال فراخدلی سے ہمسائے کو چارے کی گٹھڑی گدھے پر لاد کر اُس پر بٹھادیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور چلے ہوں گے کہ گاؤں کی نکڑ پر رہنے والے بابا جی کے دوست نے اپنے مالٹے لے جانے کی سفارش کی۔۔۔ ظاہر ہے دوست کی مدد کرنا بھی فرض ٹھہرا، بابا جی نے گدھے پر سوار ہوکر مالٹے کا ٹوکرا اپنے اور ہمسائے کے درمیان پھنسالیا اور خود کھسک کر گدھے کی گردن تک پہنچ گئے۔ ابھی ندی کنارے ہی پہنچے تھے کہ اب کی بار ہمسائے کو اپنا بیٹا نظر آیا جو روئی اُٹھائے مشکل میں تھا کیونکہ بارش سے روئی بھیگ کر وزنی ہوگئی تھی اب ہمسائے نے کہا ’’اگر میں روئی اٹھا کر گدھے پر بیٹھ جاؤں تو اُمید ہے بابا جی! آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو گا‘‘۔۔۔ بابا جی بچارے جلدی میں تھے کیونکہ مالٹوں کو گدھے کے ہچکولوں میں سنبھالنا ان کے لئے مشکل ہوتا جارہا تھا گدھے کے ہچکولے سے بابا جی کا سرجھٹکا، جسے ہمسائے نے اثبات کا اشارہ سمجھا اور اس نے موقعہ جانے نہ دیا۔ وہ جھٹ سے گدھے پر سوار ہوگیا۔ ایسا کرنا تھا کہ گدھا لڑکھڑایا اور دھڑام سے پانی میں گرا ۔۔۔ شاید وزنی روئی نے چلنا دوبھر کردیا تھا۔ گدھا کیا گرا مالٹے، چارہ اور روئی سمیت بابا جی اور ہمسایہ کیچڑ میں لت پت تھے۔ خیر اپنی حالت بھول کر دونوں نے چارہ، روئی اور مالٹے سمیت اور گدھے پر سواری کا عزم نو کیا لیکن یہ کیا؟
گدھا بے حس و حرکت پڑا تھا اُن دونوں کو چارہ، روئی اور مالٹے سمیٹنے میں یہ خیال ہی نہ رہا کہ کہیں گدھا نہ مر جائے ۔۔۔ دوستو! اب ہم بابائے قوم کے پاکستانی عوام ہیں جن پر آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے چارے دوست ملکوں کی خوشنودی اور گرم جوشی کی روئی اور حکمران طبقے کے رس بھرے مالٹے لادے جاتے ہیں۔ یہ گدھا جو ہر کسی کا بوجھ برداشت کرلیتا ہے، جس نے کئی شیروانیوں، کئی ہیٹ، کئی سگار اور کئی وردیاں اٹھائی ہیں۔ جو بجلی، پانی، گیس اور ٹیکسوں کا بوجھ سہار رہا ہے، جو کئی دھماکوں سے گزرا ہے، جس نے لسانیت، فرقہ بندی اور دہشت گردی کے حالات سہے، جس نے کئی جنگوں میں بار برداری کی ہے، جس نے ہر جھوٹ کو ہر دفعہ سچ مانا ہے اور امید کے دئیے روشن رکھے ہیں۔ جس نے کئی الزام سہے ہیں ۔۔۔ کیا کبھی اس گدھے پر سواری کرنے والوں نے، اس گدھے کو خواب دکھانے والوں نے، اس گدھے پر بوجھ لادنے والوں نے سوچا کہ اس گدھے کا مستقبل ان سے وابستہ ہے۔ کہیں یہ گدھا نہ مرجائے۔
( کالم نگاربیکن ہاؤس سکول میں اردو کے استاد ہیں)