پروگرام ”اب گاؤں چمکیں گے“،نگران وزیراعلیٰ سے چند گزارشات
عوامی خدمات اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنے مختصر دور کو یاد گار بنا دیا ہے،دن رات مصروفِ عمل رہتے، کبھی ہسپتال، کبھی کسی تھانے یا تعلیمی ادارے میں اچانک چلے جانے سے انتظامیہ چوکس رہتی ہے۔ شہباز شریف نے درست کہا ہے کہ محسن نقوی کی رفتار مجھ سے تیز ہے۔ شہباز شریف کی وزارت کے زمانے میں اکثر دیکھا گیا کہ شہر کی فضاء میں کوئی ہیلی کاپٹر نظر آتا تو سرکاری دفاتر سے باہر چائے خانوں میں بیٹھے اہلکار فوراً اُٹھ کر اپنی سیٹوں پر جا بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے کو آواز دیتے اُوئے شہباز شریف آرہا ہے۔ میں ایسے کئی مناظر کاعینی شاہد ہوں۔ یہی ماحول اب پنجاب میں بن گیا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے حفظانِ صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ دیہات میں اِس پر کام ہو رہا ہے مقامی لوگ انتظامیہ کی ہدایت پر اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں لیکن بہت سے لوگ دیہات کی انتظامیہ سے تعاون نہیں کرتے۔ ایک امام مسجد نے بتایا کہ لوگ کیبل کا بل باقاعدگی سے دیتے ہیں لیکن امام مسجد کی تنخواہ کے لئے مقرر ماہانہ چندہ نہیں دیتے۔ اس لئے اِس پروگرام کے جاری رکھنے میں بہت مشکلات درپیش ہیں۔ کئی گاؤں ایسے بھی ہیں جہاں کی صفائی کے لئے لاکھوں روپے درکار ہیں اُن کو صاف کرنا اور چمکانا اپنی مدد آپ کے تحت ممکن نہیں ہے۔
دیہی علاقوں میں یہ کام پٹواری کے سپرد ہے، تحصیل یا ضلعی انتظامیہ کے کسی افسر کو کارِ سرکار سے فرصت نہیں کر موقع پر جاکر پرو گرام پر ہونے والے عمل کو دیکھیں، عوام سے دریافت کریں کہ اِس سلسلے میں کیا مشکلات ہیں، اکیلا وزیراعلیٰ ہر گاؤں میں کیسے جا سکتا ہے شاید اِسی وجہ سے یہ پروگرام تکمیل تک پہنچتا نظر نہیں آ رہا۔ یہاں ایک ایسے گاؤں کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جس کی شہرت بین الاقوامی سطح پر ہے۔ قومی معیشت کی ترقی اور زرِ مبادلہ کے حصول میں بہت اہم تجارتی مرکز ہے۔ یہ گاؤں تحصیل بھلوال میں واقعہ چک نمبر10شمالی ہے اور بھلوال سے پانچ کلو میٹر سرگودھا روڈ پر واقع ہے۔ ترشاوہ پھلوں اور مالٹا کے باغات کی کاشت کا آغاز اُسی گاؤں سے ہوا تھا۔اِس حوالے سے پنجاب بھر کا یہ پہلا گاؤں ہے جہاں باغات تقسیم ِ ہند سے پہلے بھی موجود تھے۔ یہ باغات اُس زمانے کے کاشتکاروں نے غیر منقسم ہندوستان کے شہر ناگپور سے پودے لا کر کاشت کئے تھے۔ بعد ازاں اِس کی نرسری لگائی جانے لگی، رفتہ رفتہ یہ ضلع سرگودھا میں یہاں سے پودے لے جا کر لگائے گئے۔اب سرگودھا ترشاوہ پھلوں کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا مرکز ہے۔کِنوں اور مالٹے کو دیر تک تازہ رکھنے کے لئے گریڈنگ اور ویکسی نیٹنگ فیکٹریاں سب سے پہلے اِسی گاؤں چک نمبر 10 شمالی میں لگائی گئیں۔
نیشنل فروٹ کے مالکان نے اپنے کاروبار کو بہت وسیع کیا، دبئی، جدہ اور ماسکو میں اپنے دفاتر قائم کئے۔ اُن کی اپنی پانچ فیکٹریاں ہیں۔ شعیب احمد بسراء ڈائریکٹر نیشنل فروٹس سرگودھا چمبر آف کامرس کے چیئرمین بھی رہے ہیں،غیر ملکی وفود اکثر یہاں آتے رہتے ہیں، حال ہی میں تاجکستان کے وفد نے اِن کی فیکٹریوں کا دورہ کیاجبکہ جدہ، دبئی اور یورپ سے بھی وفد آتے ہیں۔ صرف پھل ہی نہیں آلو بھی دیگر اضلاع سے لاکر انہیں ”ویکسی نیٹ“ کیا جاتا ہے، اُن کے کاروبار کو دیکھ کر سارے ضلع سرگودھا میں اب جگہ جگہ فیکٹریاں لگ چکی ہیں جن سے ہزاروں لوگوں کو روز گار ملا ہے۔ صرف چک نمبر 10 شمالی کی فیکٹریوں میں ملتان اور مظفر گڑھ سے آئے مزدوروں کی تعداد تقریباً 10ہزار ہو گی۔ غیر ملکی معزز مہمان یہاں تجارتی مقاصد کی وجہ سے آتے ہیں۔
اِس قدر اہمیت کے حامل گاؤں کا نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی دورہ کریں تو یہ ملک کے مفاد اور وقار کے لئے بہت ممد ثابت ہو گا۔حفظانِ صحت اور صفائی کے حوالے اِس گاؤں کو پنجاب کا غلیظ ترین گاؤں کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ اہم مسائل درج ذیل ہیں۔
1۔ گاؤں میں سات بڑے چھپڑ ہیں جن میں گاؤں کی نالیوں اور گٹروں سے پانی جاتا ہے، یہ ہر وقت گندے اور متعفن پانی سے بھرے رہتے ہیں اور کئی بیماریوں کا موجب بنتے ہیں۔
2۔ نکاسی آب کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، تقریباً 18 سال پہلے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے یہاں سیوریج سسٹم بنایا تھاجس کی یاد گار ایک خراب ٹیوب ویل کی صورت اب بھی موجود ہے، یہ بھی آدھے گاؤں کے لئے تھااور سیاسی وجوہات کی وجہ سے گاؤں کے باقی حصہ کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
3۔ برسات کے دنوں میں چھپڑ بھر جاتے ہیں، پانی گلیوں میں کھڑا رہتا ہے اور گاؤں کی کالونیوں (بھٹو کالونی جناح آبادی) کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے؟
4۔ گاؤں کا زیر زمین بہت میٹھا پانی تھا جو اب آلودہ ہو چکا ہے اور پینے کے قابل نہیں ہے۔ گاؤں کی آبادی آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو مزدوروں کی آمد سے تقریباً 20 ہزار تک پہنچ جاتی ہے، یہ مزدور جو ملتانی کہلاتے ہیں، فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔
5۔ اِس نہایت اہم اہمیت کے گاؤں کی غلاظت اور گندگی حالت ناگفتہ بہہ ہے، گاؤں کے دو ہائی سکول اور ایک ایلیمنٹری سکول چھپڑوں کے درمیان واقعہ ہیں، اِن سکولوں میں بارش کے دنوں میں گندہ پانی داخل ہو جاتا ہے۔ بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اِس بارے میں کئی بار درخواستیں دی گئیں لیکن بے سود۔ ”اب گاؤں چمکیں گے“ پروگرام سے کچھ اُمید بندھی ہے کہ شاید یہ مسئلہ حل ہو جائے۔تاہم آپ کے تعاون اور خصوصی ہدایت کے بغیر اِس کے امکانات بہت کم ہیں،جس طرح سرگودھا بھلوال روڈ ایمرجنسی بنیاد پر مکمل کی گئی ویسے ہی اِس گاؤں پر توجہ دی جائے تو اہل دیہہ پر احسان ہوگا۔