ترک پولیس نے سال نو کے موقع پر نائٹ کلب میں فائرنگ کرنے والے حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو جاری کردی،حملہ آور کا تعلق کس ملک سے ہے اور ترکی میں کیسے آیا؟تہلکہ خیز انکشافات سامنے آ گئے

ترک پولیس نے سال نو کے موقع پر نائٹ کلب میں فائرنگ کرنے والے حملہ آور کی تصویر ...
ترک پولیس نے سال نو کے موقع پر نائٹ کلب میں فائرنگ کرنے والے حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو جاری کردی،حملہ آور کا تعلق کس ملک سے ہے اور ترکی میں کیسے آیا؟تہلکہ خیز انکشافات سامنے آ گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انقرہ(ڈیلی پاکستان آن لائن) ترک پولیس نے سال نو کے موقع پر نائٹ کلب میں جشن منانے والوں پر فائرنگ کرنے والے حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو جاری کردی۔غیرملکی میڈیا کے مطابق سال نو کے موقع پر ترکی کے نائٹ کلب میں فائرنگ کرکے 39 افراد کو ہلاک کرنے والے مبینہ حملہ آور کی ’’سیلفی ویڈیو‘‘سامنے آگئی ہے، ترک ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مبینہ حملہ آور استنبول کے تقسیم اسکوائر پر موبائل فون کی مدد سے اپنی ویڈیو بنا رہا ہے، تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ ویڈیو رینا نائٹ کلب پر حملے سے قبل بنائی گئی یا اس نے بعد میں اسے ریکارڈ کیا؟۔ دوسری جانب اس حوالے سے بھی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں کہ حکام کو یہ کیوں لگا کہ مذکورہ ویڈیو نائٹ کلب پر حملہ کرنے والے شخص کی ہی ہے اور یہ بھی کہ اس ویڈیو فوٹیج کو کیسے اور کہاں سے حاصل کیا گیا؟ ترک پولیس نے استنبول کے نائٹ کلب میں فائرنگ کر کے 39 افراد کو ہلاک اور 65 کو زخمی کرنے والے حملہ آور کی تصویر جاری کردی جب کہ پولیس کی جانب سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے جس میں حملہ آور کو ترکی کی مصروف سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ ویڈیو حملے سے کچھ دیر پہلے کی ہے یا پرانی ہے تاہم حملہ آور کی جانب سے ویڈیو شہر کے مشہور کاروباری علاقے ‘‘تقسیم’’ میں بنائی گئی ہے۔ترک سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ استنبول کے نائٹ کلب میں ہونے والا حملہ ماضی کے حملوں سے مختلف ہے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور شکل سے ازبک، قرغیز یا مشرقی چین کا شہری معلوم ہوتا ہے اور اس کی عمر 25 سال ہے جب کہ ترکی کے مقامی اخبار ’’حریت‘‘ کے مطابق حملہ آور اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ گزشتہ سال 20 نومبر کو کرغیزستان سے استنبول پہنچا تھا۔دوسری جانب ترک پولیس نے حملہ آور کی اہلیہ کو حراست میں لے لیا جس نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ وہ چند ماہ قبل ہی ترکی آئے ہیں اور 250 پاؤنڈ ماہانہ پر فلیٹ کرائے پر لیا لیکن انہیں ان کے شوہر نے کہا تھا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ترکی آئے ہیں۔واضح رہے کہ اس سے قبل عالمی دہشت گرد تنظیم ’’داعش ‘‘کی خبر رساں ایجنسی ’’اعماق‘‘ کی جانب سے جاری کیئے گئے پیغام میں کہا گیا تھا کہ سال نو کے موقع پر کیا جانے والا حملہ خلافت کے بہادر جنگجو نے کیا اور اس مشہور نائٹ کلب کو نشانہ بنایا جہاں مسیحی افراد اپنا جشن منارہے تھے۔ دہشت گرد تنظیم نے ترکی کو’’ صلیب کا غلام‘‘ بھی قرار دیا۔ واضح رہے کہ نیٹو کا رکن ملک ترکی داعش کے خلاف امریکا کا اتحادی ہے جس نے گذشتہ سال اگست میں شام میں داعش کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا ۔یاد رہے کہ ترکی کے’’ رینا نائٹ کلب‘‘ میں سال نو کے موقع پر کم از کم 600 افراد موجود تھے کہ اچانک ایک مسلح شخص نے اندر گھس کر فائرنگ شروع کر دی جس سے کم از کم 39افراد ہلاک اور65سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔۔ دوسری جانب حملہ آور کی شناخت کے حوالے سے بھی مختلف رپورٹس سامنے آرہی ہیں، غیر ملکی میڈیا کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں فنگر پرنٹس اور دیگر معلومات کی مدد سے حملہ آور کے بارے میں ٹھوس شواہد حاصل ہو چکے ہیں اور 8مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے ۔۔ متعدد میڈیا اداروں نے نامعلوم سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آور کا تعلق وسط ایشیائی ممالک سے ہے اور وہ اسی سیل کا حصہ ہے، جس نے گذشتہ برس جون میں استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں 45 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔’’ ہیبر‘‘ ترک اخبار نے لکھا کہ حملہ آور کا تعلق چین کی مسلم اقلیت ایغور سے ہے جبکہ کسی بھی ذرائع کا حوالہ دیئے بغیر اخبار نے مزید لکھا کہ حملہ آور ترکی کے شہر کونیا میں اپنی بیوی اور 2 بچوں کے ساتھ آیا تاکہ اس پر کسی کو کوئی شک نہ ہو، اخبار کے مطابق حملہ آور کے اہلخانہ کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ حالیہ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد میں سعودی عرب، موروکو، لبنان اور اسرائیل کے شہری شامل ہیں، سعودی اخبار’’ الریاض ‘‘کے مطابق ہلاک افراد میں سے 5 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ دوسری جانب حملے کے بعد متحدہ عرب امارات نے اپنے شہریوں کے لیے ترکی کے سفر کے حوالے سے انتباہ جاری کردیا۔ خیال رہے کہ گذشتہ سال 2016 ء میں بھی ترکی کے شہر استنبول اور دارالحکومت انقرہ کو متعدد مرتبہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں کم سے کم 180 افراد ہلاک اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، ان حملوں کی ذمہ داری ’’داعش ‘‘اور کرد علحیدگی پسندوں کی جانب سے قبول کی گئی تھی ۔