سات سال بعد پاکستان میں اس وجہ سے خانہ جنگی ہوسکتی ہے کیونکہ۔۔۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان 2025 ءتک پانی کی نعمت سے تقریباََ محروم ہو جائے گا جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں پانی کو محفوظ کرنے لے لئے ڈیمز کی کمی ہے ۔اس کمی کی وجہ سے شائد پاکستان میں اندرون خانہ جنگ شروع ہو جائے جو سنگین صورتحال اختیار کر سکتی ہے ، پاکستان کونسل آف ریسرچ برائے آبی وسائل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی دستیابی پانچ ہزار کیوبک میٹر تھی جو کہ رواں برس ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گئی ہے جو کہ یقیناََ باعث تشویش ہے پانی میں کمی کی وجہ سے زراعت جو کہ کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی تصوّر کی جاتی ہے شدید خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی معشیت کا70 فیصدانحصار زراعت پر ہے مستقبل میں شدید بحران، خشک سالی اور قحط کا شکار ہو سکتا ہے ۔جائزہ کے مطابق پاکستان میں پانی کی سطح 153 ملین فٹ فی ایکڑ جبکہ زیر زمین 24 ملین فٹ فی ایکڑ ہے 2030 ءتک ملکی آبادی تقریباََ 24 کروڑ تک پہنچ جائے گی جس کی وجہ سے ملک کو31 ملین فٹ فی ایکڑ تک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے چنانچہ ملک میں آنے والی قحط سالی سے نمٹنے کے لئے پاکستان میں ڈیمز بنانے نہایت ضروری ہو گئے ہیں کیونکہ ملک میں جو ڈیمز بنے ہوئے ہیں وہ ملکی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کم ہیں ۔
اس وقت پاکستان میں ایک سو گیارہ کے قریب بڑے چھوٹے ڈیمز ہیں جن میں پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے ۔ اتنے ڈیمز ہونے کے باوجود پاکستان شدید پانی کی قلت کا محتمل ہے ۔پانی کی قلت کو پورا کرنے کے لئے مزید نئے ڈیمز بنانا نہاےت ضروری ہیں نئے ڈیمز بنانے کے لئے تمام حکومتیں ناکام رہی ہیں جن میں سر فہرست کالا باغ ڈیم ہے ایکسپرٹ کی رائے کے مطابق کالا باغ ڈیم بننے سے ملک میں 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی جبکہ8 لاکھ ایکڑ بارانی زمین کاشت کی جا سکے گی اور 7 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا جا سکے گا مگر حکومت کی عدم دلچسپی اور خیبر پختون خواہ و سندھ حکومت کی جانب سے روڑے اٹکانے کی بدولت کالا باغ ڈیم شروع دن سے ہی متنازعہ رہا ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک کسی بھی سیاسی پارٹی نے نئے ڈیمز کی تعمیر کو اپنے منشور میں شامل نہیں کیا۔
2004 ءمیں سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف نے تمام رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا۔ اُس کے بعد 2008 ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے منصوبے کوخیبر پختون خواہ اور سندھ حکومت کی شدید مخالفت کی بناءپرمکمل ہونے سے روک دیا مگر 2010 ءمیں آنے والے سیلاب کی وجہ سے پھیلنے والی تباہی کودیکھتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ قبول کیا کہ اگر کالا باغ ڈیم بنا ہوتا تو ملک میں سیلاب کی وجہ سے تباہی نا ہوتی۔
ایک طرف تو پاکستان کی اندرونی حکومتیں آپسی چپقلشوں اور مفاد پرستی کی بنیاد پر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں جبکہ دوسری طرف بھارت پاکستان کی اس مفاد پرست سیاست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دھڑلے سے انڈس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیمز پہ ڈیمز بنا رہا ہے جس میں جموں و کشمیر کے ضلع کشتوار کے گاﺅں درابشالہ (ریٹل) کا ریٹل ڈیم اور حال میں تعمیر ہونے والا کشن گنگا ڈیم ہے جس کو ورلڈ بینک کی باقاعدہ منظوری سے تعمیر کیا گیا ہے جو کہ 1960 ءکے سندھ و طاس معاہدے کی صریحاََ خلاف ورزی ہے جس سے پاکستان کے دریاﺅں کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان بھارت کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں، اپوزیشن، بیوروکریٹس کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔اس لئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار عوام آپ کی طرف دیکھتی ہے جس طرح آپ نے عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کے مسائل حل کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے اُسی طرح کالا باغ اور مزید نئے ڈیم پاکستان کی ترقی کے لئے روشن باب ثابت ہو سکتے ہیں چنانچہ سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے پاکستانی عوام کی خاطر پانی کے اس سنگین بحران کے متعلق کیس کو دیکھا جائے اور فوری طور پر کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ مزید نئے ڈیم کی تعمیر کا حکم صادر کیا جائے ۔
..
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔