مردوں میں رن مرید ی کا وہ خوف جو گھر تباہ کردیتا ہے
بنت حوا کی مظلومیت اور بے بسی کی ان گنت داستانیں کورٹ کچہریوں کے دروبام نے سن رکھی ہےں۔ ہر روز نجانے کتنی معصوم ، بے قصور خواتین عدالتوں کے دھکے کھاتے نظر آتی ہیں۔ کوئی شوہر کے ظلم و ستم کی ستائی ہوئی ہے اورکوئی سسرال والوں کے جبر وتشدد کا نشانہ بن رہی ہے اور کچھ تو اپنے جگر کے ٹکڑوں اپنی اولاد کی Custodyلینے کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ۔
ؓبحیثیت وکیل میرا واسطہ ایسی خواتین سے اکثر پڑتا رہتا ہے ۔گو کہ میری کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ طلاق نہ ہو مگر کچھ ایسے لرزہ خیر واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جہاں علیٰحدگی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ میاں بیوی کی اکثر لڑائیوں میں کلیدی کردار سسرال والے نبھاتے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ لڑکی کے والدین ہمیشہ صلح صفائی کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر نوبت عدالت تک پہنچ بھی جائے تو کوشش کرتے ہیں کہ کسی صورت انکی بیٹی کا گھر بچ جائے۔
میری ذاتی رائے کے مطابق ”مرد“ کا کردار بہت اہم ہے ۔رشتوں کے درمیان توازن قائم رکھنااس کی ذمہ داری ہے ۔ ماں اور بیوی کی چپقلش میں مرد یا تو مکمل طور پر بیوی کا ساتھ دینا شروع کر دیتے ہیں یا پھر مکمل طور پر ماں کا ۔اس طرز عمل سے بربادی شروع ہوجاتی ہے۔
میں نے اب تک جتنے کیسز دیکھے ان میں اکثر چھوٹے چھوٹے گھریلو جھگڑوں کو طول پکڑتے دیکھا اور یوں نوبت طلاق تک پہنچ گئی ۔ خواتین کی دشمنی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ بغض اور حسد میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر سسرال والے بہو پر ”بدچلن “ ہونے کا الزام لگا کر با آسانی اپنی نا پسندیدہ بہو سے جان جھڑوا لیتے ہیں۔ ”شوہر محترم “ اس الزام کی تصدیق کیے بنا اس الزام کو درست مان کر اپنا گھر اُجاڑ لیتے ہیں۔ یہ مہذ ب باتیں نہیں ہیں ۔ یہ ہماری معاشرے کے وہ سچ ہیں کہ جن سے ہم سب واقف ہیں ۔ مگر پھر بھی ہم انکا تدارک نہیں کرتے ۔ بعض اوقات شوہر کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی بے قصور ہے ، مظلوم ہے مگر پھر بھی وہ اسکے لئے آواز نہیں اٹھاتا کیونکہ اسے یہ ڈر ہوتاہے کہ اسے ”رن مرید“ ہونے کا طعنہ ملے گا۔ یہ کس قدر فرسودہ سوچ ہے، کس قدر غلط سوچ ہے کہ آپ اپنی نہتی بیوی کا ساتھ محض اس طعنے کی وجہ سے نہیں دے رہے اور اپنے گھر والوں کا ساتھ اس وجہ سے دے رہے ہیں کہ وہ آپکے اپنے ہیں ِچاہے وہ غلط ہیں۔ پھر بھی ایسے مرد کہلانے کے لائق نہیں ۔کسی بھی مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو محبت اور تحفظ دے ۔ اسلام یہی سکھاتا ہے ۔طلاق کی شرح میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے لہذا سوچنا چاہئے کہ نقصان کس کا ہوتا ہے ،”صرف بچوں کا “ ۔ جن کا آشیانہ بکھر جاتا ہے ۔ جن کا پورا مستقبل داﺅ پر لگ جاتا ہے ۔ جو تمام عمر یہ ہی سچ جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ قصور کس کا تھا کیا ماں غلط تھی یا پھر باپ ۔۔۔۔؟؟
بعض اوقات بڑے مقدس اور مہذب رشتوں کے پیچھے بڑے مکروہ اور گھناونے چہرے چھپے ہوتے ہیں ۔ انہیں کھوجنا بہت ضروری ہے ۔ کچھ شیطان صف لوگ ہنستے بستے گھر میں ایسی چنگاری پھینک دیتے ہیں جو سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے ۔ خدارا کوئی بھی جذباتی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے بچوں کی طرف ضرور دیکھے۔ جنھیں ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہے ۔ یہاں طلاق کرواتے وقت اکثر مائیں بہنیں اپنے بیٹوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرتی ہیں کہ وہ بچوں کی پرورش بہت اچھے سے کر لیں گی ۔ مگر حقیقت اسکے برعکس ہوتی ہے۔ بچے کو ماں جیسی توجہ کوئی بھی نہیں دے سکتا نہ دادی نہ پھوپھو اور نہ ہی خالہ ۔
میں یہ نہیں کہتی کہ گھر توڑنے کا موجب مرد ہے ، عورت بھی ذمہ دار ہے اس کو بھی صبر سے کام لینا چاہیے برداشت سے کام لینا چاہیے۔لیکن مرد کوجس فطری بالادستی کا حق ہے اسکو ثابت بھی کرنا چاہئے۔میں دیکھا ہے کہ طلاق کے کیسز میں مرد عورتوں سے زیادہ زود رنج اور حساس واقع ہوتے ہیں،انہیں اپنے فیصلوں پر اختیار نہیں ہوتا،جلد بھڑک جانے والے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا لیتے ہیں اور خواتین اس جلتی پر تیل ڈالتی ہیں ۔
کبھی کبھی معاشرے کی یہ سفاکی اور زیادتی دیکھ کر احساس ہوتاہے کہ والدین کیوں بیٹیوں کے پیدا ہونے سے خوف زدہ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ بیٹیوں سے نہیں ان کی قسمت سے خوف آتاہے۔ خدا سب کی بیٹیوں کی قسمت اچھی کرے ۔ ہمیں اور ایسے تما م لوگوں کو ہدایت دے جن کے نزدیک بیوی آج بھی ایک جوتی کی مانند ہے ۔ جو کبھی بھی بدلی جا سکتی ہے۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔