گڈ گورننس اور عرصہ تعیناتی
گڈ گورننس کے لئے مضبوط مستحکم،با اختیار اور با اعتبار حکومت ناگزیر ہے اور ایسی حکومت کے لئے سیاسی اور انتظامی اداروں میں توازن انتہائی ضروری ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاسی ادارہ مضبوط و مستحکم ہو مگر انتظامی ادارے بے یقینی بے اعتمادی کا شکار ہوں تو عوام کے مسائل حل کئے جا سکیں یا ڈیلیور کیا جا سکے،نظام کوئی بھی ہو انتظامی اداروں کی اہمیت ہمیشہ دو چند رہی ہے کہ حکمرانوں اور عوام میں پل کا کردار انتظامیہ یعنی بیورو کریسی ہی ادا کرتی ہے۔ سیاسی حکومت پانچ سال کا مینڈیٹ لے کر آتی ہے اور اس کی بھر پور کوشش ہوتی ہے اس عرصہ میں عوام کو سہولتیںدے کر اگلے الیکشن کی انتخابی مہم میں پورے قد سے داخل ہو، بیورو کریٹ کم از کم 25سال کا مینڈیٹ لے کر آتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے فرائض بجا طور انجام نہیں دے پاتے، اس وقت بھی پنجاب میں حکومتی ڈھانچے پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی ٹیم خوف اور گو مگو کا شکار ہے،وجہ صرف یہ کہ کسی انتظامی افسر کو معلوم نہیں کہ صبح وہ اس پوسٹ پر رہے گا یا نہیں،تبادلہ کے خوف کی دو دھاری تلوارہر وقت سر پر لٹک رہی ہو تو کون کارکردگی دکھا سکتا ہے؟
ان دنوں پنجاب میں افسروں کے ٹینیور یعنی ایک پوسٹ پر عرصہ تعیناتی زیر بحث ہے،حالانکہ سیاسی اور انتظامی حدود و اختیار اور عرصے کا تعین سپریم کورٹ انیتا تراب کیس کے فیصلہ میں کر چکی ہے اور دیکھا جائے تو یہ سیاسی اور انتظامی حکام میں توازن قائم کرنے کی ایک بہترین کاوش تھی،بیورو کریٹک ذرائع کا شکوہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تقرری و تبادلے کے حوالے سے کوئی حکومت سپریم کورٹ کے طے کردہ ضابطوں پر عمل نہیں کر رہی تاکہ ان کے عہدے کی معیاد کا تحفظ کیا جا سکے اور بیوروکریسی کو سیاست سے بچایا جا سکے، اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بمشکل ہی کسی معاملے میں قبل از وقت تبادلے کے لئے تحریری طور پر وجوہات بتائی جاتی ہیں،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سرکاری ملازمین کے عہدے کی معیاد کو تحفظ دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ سرکاری ملازمین کے عہدے کی معیاد تبدیل نہیں کی جا سکتی تاوقتیکہ کوئی ٹھوس وجہ موجود ہو اور یہ وجوہات تحریری طور پر بیان کی جائیں،سپریم کورٹ کے مطابق ان وجوہات کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے، اگرچہ عمومی طور پر حکومتیں اصرار کرتی ہیں کہ کسی بھی افسر کو کسی بھی وقت اس کے عہدے سے تبدیل کرنا حکومت کا استحقاق ہے لیکن سپریم کورٹ نے انیتا تراب کیس میں کہا تھا کہ تقرریاں، برخواستگی اور ترقی کا معاملہ قانون کے مطابق ہونا چاہئے اور اس میں طے شدہ ضوابط کا خیال رکھنا چاہئے اور ایسے معاملات جہاں قانون موجود نہیں اور وہاں استحقاق استعمال ہوتا ہے تو ایسے میں استحقاق کو شفاف، منطقی اور منظم طریقے سے استعمال کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ استحقاق عوامی مفاد میں استعمال کیا جائے۔
اکثر و بیشتر ہونے والے تبادلے اور تقرریاں سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور استعداد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور نتیجتاً طرزِ حکمرانی ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتا جاتا ہے، پنجاب میں شاید ہی کوئی ایسا محکمہ ہو گا،جہاں اعلیٰ سطح پر یکے بعد دیگرے تبدیلیاں نہ کی گئی ہوں۔
انیتا تراب کیس میں سپریم کورٹ نے درج ذیل اصول طے کر دئیے تھے تاکہ سرکاری ملازمین کو تحفظ دینے کے ساتھ سیاست سے بچایا جا سکے،
(۱) تقرری، عہدے سے ہٹانے اور ترقی کا عمل قانون اور اس کے تحت بنائے گئے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے، جہاں قانون اور اصول موجود نہ ہو وہاں صوابدید کے مطابق فیصلہ کیا جائے، صوابدیدی اختیار کو منظم انداز میں، شفاف طریقے اور موزوں انداز سے اور عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا جائے۔
(۲) جب کسی بھی عہدے کے لئے قانون کے مطابق مدت مقرر کر دی گئی اور اس کے تحت اصول طے کر دئیے گئے ہیں، اس مدت کا احترام کرنا ہوگا اور اس میں صرف ٹھوس وجوہات کے تحت ہی تبدیلی کی جا سکے گی، ان وجوہات کو تحریری طور پر بتانا ہو گا جن پر عدالتیں نظرثانی کر سکتی ہیں۔
(۳) سرکاری ملازمین کا پہلا فرض اور وفاداری قانون اور آئین کے ساتھ ہے، انہیں اعلیٰ افسروں کے غیر قانونی احکامات ماننے کی ضرورت نہیں،ساتھ ہی ایسے احکامات ماننے کی بھی ضرورت نہیں جو طے شدہ طریقہ کار، اصولوں اور آئین سے مطابقت نہیں رکھتے، ایسی صورت میں سرکاری ملازمین اپنی رائے تحریری کریں اور اگر ضروری ہو تو ایسے احکامات کی مخالفت کریں۔
(۴) افسروں کو صرف ٹھوس وجوہ پر ہی او ایس ڈی لگایا جائے گا، وجوہات تحریری طور پر پیش کی جائیں گی جن پر عدالتیں نظر ثانی کر سکتی ہیں، اگر کسی افسر کو او ایس ڈی لگا بھی دیا گیا ہو تو اس کا دورانیہ کم سے کم مدت کا ہوگا اور اگر اس کے خلاف انضباطی انکوائری جاری ہے تو یہ جلد از جلد مکمل کی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ مذکورہ بالا معاملات فیصلہ سازی اور ریاست کی انتظامی مشینری سے متعلق ہیں، ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت کی نشاندہی کی ہے کہ عہدے کی معیاد، اپائنٹمنٹ، ترقی اور ٹرانسفر کے متعلق فیصلے اصولوں کے مطابق رہیں نہ کہ ایسے صوابدیدی اختیارات کے مطابق جن میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہو سکتی یا نظر ثانی نہیں ہو سکتی،سپریم کورٹ کی ہدایت پر فیصلے کی نقول وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، صوبائی چیف سیکریٹریز، کمشنر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اور تمام وفاقی و صوبائی محکموں کے سیکریٹریز کو بھجوائی گئی تھیں۔،تاہم، عمومی طور پر اس تاریخی فیصلے کو متعلقہ حکام نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اس تفصیلی اور منطقی فیصلہ کے بعد ضروری تھا کہ عدالت عظمیٰ عملدرآمد پر نگاہ رکھتی تاکہ بیوروکریسی سے ہونے والی زیادتی کا کچھ ازالہ ممکن ہوتا،مگر ایسا نہ ہوا، جس کے باعث اعلیٰ عدلیہ کے اس حکم کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے،دلچسپ نہیں بلکہ فکر انگیز بات کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی سطح کے افسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس عہدہ پر کب تک فائز ہیں اورکب راندہ درگاہ کر دئیے جائیں گے،،عدلیہ اور فوج دو ادارے ملک میں ایسے ہیں جہاں کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی عدالتی افسر اپنا کام کرتے ہیں اور عدالتی بیوروکریسی اپنا، کسی کو کسی سے شکائت بھی نہیں ہوتی،ہر افسر اپنا عرصہ تعیناتی سکون، اطمینان اور عزت و وقار کے ساتھ پورا کر کے خوشدلی سے رخصت ہوتا ہے،فوج میں بھی اس حوالے سے کمال درجے قوانین کی پابندی کی جاتی ہے، جس کے باعث ان دونوں ریاستی اداروں میں ڈسپلن بھی ہے اور ہر کام خود کار طریقے سے طے شدہ میکنزم کے ساتھ انجام پاتا ہے۔
سول انتظامیہ میں اسی بے یقینی کا نتیجہ ہے کہ اب افسروں کی بڑی تعداد اچھے برے کی پہچان کئے بغیر اپنا عہدہ بچانے اور عزت و آبرو سے نوکری کرنے کے لئے ہر نئی حکومت کے دست ”حق پرست“ پر بیعت ہو جاتی ہے،یوں بیورو کریسی ایک ٹیم بن کر منظم انداز سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کے ماحول سے محروم ہے۔
٭٭٭٭٭