معلوماتی سفرنامہ۔۔۔انتیسویں قسط

معلوماتی سفرنامہ۔۔۔انتیسویں قسط
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔انتیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خوشی اور غم
نیویارک میں میرا تین دن کا قیام پلک جھپکتے میں گزرگیا۔یہاں تک کہ روانگی کا دن آگیا۔فہیم بھائی نے آفس سے چھٹی کرلی تھی۔ میری فلائٹ رات نو بجے کی تھی۔ ہم پانچ بجے اےئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے جانے پر نگہت باجی بہت رورہی تھیں۔ میں ان کی خوشی کے لیے اپنا سفر بیچ میں منقطع کرکے خاص طور پر نیو یارک میں رکا تھا۔ان کی وجہ سے میں بھی بہت اداس ہوگیا۔دوسری طرف میری بیوی جدہ میں میری منتظر تھی۔خوشی و غم کایہ منظر چند ماہ قبل بالکل برعکس تھا۔ اس وقت میری بہن بہت خوش تھیں اور بیوی بہت اداس۔ زندگی اسی خوشی اور غم کے الٹ پھیرکا نام ہے۔ یہاں تک کہ مسافر قبر کی منزل تک جاپہنچے گا جو ابدی زندگی کی پہلی منزل ہے۔ پھر قیامت کا صور پھونکا جائے گا۔ پھر حشر برپا ہوگا۔ پھر حساب، میزان، پلِ صراط اور نہ جانے کس کس مرحلے سے گزر کر کوئی مسافر خداکی اس جنت میں داخل ہوسکے گا جس میں کوئی کھونا نہیں کوئی بچھڑنا نہیں۔ جہاں کوئی غم نہیں کوئی پچھتاوہ نہیں۔ جہاں کوئی محفل برہم نہیں ہوگی اور کوئی ساتھ ختم نہیں ہوگا۔یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔یہاں کا ملنا کوئی ملنا نہیں ا ور یہاں کی جدائی کوئی جدائی نہیں۔ یہاں کا پانا کوئی پانا نہیں اور یہاں کا کھونا کوئی کھونا نہیں۔ یہاں صرف امتحان ہوتا ہے۔ کبھی لے کر کبھی دے کر۔ کبھی محرومی سے کبھی بخشش سے ۔لوگ اس بات کو جان لیں تو رونا چھوڑ دیں۔لوگ اس بات کو جان لیں تو ہنسنا چھوڑ دیں۔

معلوماتی سفرنامہ۔۔۔اٹھائیسویں قسط  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں یہ سطو ر نیو یارک کے جے ایف کینیڈی اےئر پورٹ پر بیٹھا تحریر کررہا ہوں۔ فہیم بھائی اےئر پورٹ تک مجھے چھوڑنے آئے تھے۔ پچھلی دفعہ کی طرح اب بھی انہوں نے میرا بہت خیال رکھا تھا۔ ان سے گلے مل کر میں اےئر پورٹ سیکیورٹی میں داخل ہوا۔ سعودی اےئر لائنز کے کاؤنٹر پر جاکر بورڈنگ کرائی۔ پھر ویٹنگ لاؤنج میں آگیا۔ جیب کھنگالی تو ایک کوارٹر نکل آیا۔بہن کو فون کرکے ایک دفعہ پھر بات کرلی۔ اور اب انتظار کررہاہوں کہ کب جہاز میں بورڈنگ شروع ہوتی ہے۔اس سرزمین سے روانگی کے موقع پر بے اختیار ناصر کاظمی کی ایک غزل یاد آرہی ہے۔ چلتے چلتے وہ بھی سنتے جائیں۔
کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیال ِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پا س ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑ تی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبراگئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاکِ مدینہ و حرم
میں مغربی تہذیب کے مرکز میں کئی مہینے رہا۔میرا یہ سفر ایک طالب علم کا سفر تھا۔میں ان لوگوں میں سے نہیں جو پہلے ایک نقطۂ نظر قائم کرلیتے ہیں اور پھر جوچیز اس کے خلاف سامنے آئے اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ میں نے مغرب میں جو خوبیاں دیکھیں کھلے دل سے ان کا اعتراف کیا اور جو خامیاں نظر آئیں انہیں بیان کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ تاہم یہاں سے روانگی کے وقت میرے دل کی وہی کیفیت تھی جس میں ڈوب کر اقبال نے اپنا یہ شعر کہا تھا۔ میں اس میں ذرا سی لفظی ترمیم حسبِ حال کررہا ہوں۔
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ ’’رونق ‘‘ِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و ’’حرم ‘‘
حرمین سے میرا تعلق وہ بھی ہے جو ہر مسلمان کاہوتا ہے اور وہ بھی جو بالکل ذاتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین دن اسی صحرا کی چھاؤں میں گزارے ہیں۔ جب وقت کی تپتی دھوپ نے میرے وجود کو جھلسادیا توخدا نے اسی مبارک زمین کو میرے لیے سائبان بنایا تھا۔ یہ دھرتی میرے جسم ہی کے لیے نخلستان نہ تھی بلکہ میری روح کے لیے بھی ایک چھاؤں بن گئی۔ آج میں اسی سائبان کی طرف واپس لوٹ رہا ہوں۔ یہ میری خوابوں کی سرزمین ہے جن کی تعبیر ایک دفعہ پھر مجھے بلارہی ہے۔
سعودی اےئرلائن
نیو یارک سے میرا جہاز وقتِ مقررہ پر اڑا۔ جہاز کی کھڑکی سے میں نے شہر پر الوداعی نظر ڈالی۔ کافی دیر تک جہاز ریاستِ نیویارک کی روشنیوں کے ساتھ ساتھ پرواز کرتا رہا۔ جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئیں تو میں نے کھڑکی سے نگاہ ہٹالی۔
میں نے سعودی اےئر لائنز میں بہت زیادہ سفر کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میں جدہ میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا اس کی شاخیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔میں وہاں جہاز کے ذریعے آتا جاتا تھا۔ اس اےئر لائن کی سروس بین الاقوامی معیار کی کسی اےئر لائن کی طرح تو نہ تھی لیکن پی آئی اے سے کافی بہتر تھی۔ کھانے کا معیار اچھا تھا مگر سعودی انداز کا کھانامجھے پسند نہ آیا۔ میں نے سلاد پر ہی اکتفا کیا۔ رات میں سونے کے لیے آنکھوں پر چڑھانے والاکور (Cover) ، پیروں پر پہننے کے لیے موزے، ٹوتھ برش اور ٹوٹھ پیسٹ ایک خوبصورت سی تھیلی میں دیے گئے۔ تاہم سونے کے لیے ایک دفعہ پھر مجھے نیند کی گولی لینی پڑی۔
اسی سفر میں میں نے زندگی کی سب سے مختصر رات دیکھی۔ جہاز میں رات 10بجے عشا پڑھی اور اس کے صرف تین گھنٹے بعد فجر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جہازمغرب سے مشرق کی طرف جارہا تھا۔ جہاز میں نماز کے لیے الگ سے ایک مخصوص جگہ بنی ہوئی تھی۔ جہاں چھ سات آدمی بیک وقت نماز پڑھ سکتے تھے۔ یہ سہولت دنیا کی کسی اور اےئر لائن میں دستیاب نہیں۔ جہاز مکمل طور پر بھرا ہوا تھا۔ عام طور پر میں نے سنا تھاکہ سعودی خواتین ملک سے باہر پردہ نہیں کرتیں۔ تاہم اس وقت بیشتر خواتین برقعے میں تھیں۔البتہ کچھ نے برقع نہیں پہن رکھا تھااور بعض کا صرف چہرہ کھلا تھا۔ میرے برابر والا سعودی نوجوان ساتھ بیٹھی خاتون سے مسلسل گفتگو کررہا تھا۔ ان کا اندازِ گفتگو بتارہا تھا کہ وہ محرم نہیں۔ ویسے کوئی آدمی کسی محرم خاتون سے اتنی دیر تک گفتگو کر بھی نہیں سکتا۔
قید ی کااستقبال
جہاز بارہ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد جدہ پہنچا۔ اےئر پورٹ پر ایجنٹ کا عملہ موجود تھا۔ انہوں نے ہاتھ میں اس ٹریول ایجنٹ کے نام کی تختی اٹھارکھی تھی جس سے میں نے ٹورنٹو میں پیکج خریدا تھا۔ ان میں ایک پاکستانی لڑکا تھا ۔اس کا نام نوید تھا۔ دوسرے صاحب عرب تھے۔ یہ لوگ مجھے سیدھے حرم لے جانے پر بضد تھے۔ اسی اثنا میں گھر والے آتے ہوئے نظر آئے۔سب لوگ میرے لیے گلدستے لائے تھے۔بھابی نے میر ے لیے کھانے کا بہت اہتمام کیا تھامگر انہیں علم نہ تھا کہ مجھے سیدھا حرم لے جایا جائے گا۔ اس سے قبل جب بھی کوئی عمرے کے لیے آتا تو ہم لوگ اسے پہلے اپنے گھرلے جاتے تھے۔پھر کھانا کھلاکر اور تھوڑا آرام کراکے مکہ لے کر جاتے ۔ مگر اب عملی طور پر میری حیثیت ایک قیدی کی سی تھی۔ میں مجبور تھا کہ سیدھا ایجنٹ کے عملے کے ساتھ جاؤں۔ میں نے ان لوگوں کو بتادیا کہ میں اپنی اہلیہ کو مکہ لے جانا چاہتا ہوں اس لیے مجھے آپ کے ہوٹل کی ضرورت نہیں۔ مگر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم ہوٹل والے سے بات کرتے ہیں اگر اسے کوئی اعتراض نہیں تو ہم آپ کی اہلیہ کو بھی آپ کے ساتھ ٹھہرادیں گے کیونکہ کمرہ دو بیڈ کا ہے۔
مجھے مکہ پہنچانے کے لیے ایک گاڑی موجود تھی۔ گاڑی والے نے مجھے آفر کی کہ گاڑی بڑی ہے ، میں چاہوں تو اپنے سارے گھر والوں کو ساتھ لے جا سکتا ہوں۔ یہ لوگ بھی میرے ساتھ جانا چاہ رہے تھے اس لیے ہم سب مل کر حرم کی طرف روانہ ہوئے۔ البتہ میرے بڑے بھائی رضوان نے کہا کہ وہ کل میرے کپڑے وغیرہ لے کر آجائیں گے۔
حرم کانقشہ
ہماری گاڑی مکہ کی سمت روانہ ہوئی۔ گاڑی میرے جانے پہنچانے راستوں پر تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ میں حالتِ احرام میں تھا۔جہازمیں میقات کے مقام پر میں نے واش روم جاکر احرام پہن لیاتھا اور تلبیہ پڑھ کر عمرے کی نیت کرلی تھی۔میں راستے بھرتلبیہ کے الفاظ دہراتا رہا:

لبیک اللہم لبیک۔لبیک لا شریک لک لبیک
ان الحمد والنعمۃ لک و الملک۔لا شریک لک

حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں۔ حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔
بے شک ہر نعمت اور تعریف تیری ہے اور بادشاہی بھی۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔

تقریباََ ایک گھنٹے میں، مغرب سے ذرا پہلے ہم ہوٹل پہنچے۔ کمرے میں جاکر وضو وغیر ہ کیا۔ یہ ایک چھوٹا مگر صاف ستھرا کمرہ تھا۔پھر ہم نے حرم کا رخ کیا۔ راستے میں مغرب کی نماز نکل گئی کیونکہ ہوٹل سے حرم کافی فاصلے پر تھا۔اس وقت تو میں جوش میں تھا اس لیے خیال نہیں کیا کہ یہ ہوٹل کتنی دور ہے۔ مگر اگلے دن جب50ڈگری سے زیادہ گرمی میں پیدل چلنا پڑا تو اندازہ ہوا کہ ان لوگوں نے مجھے ایسے ہوٹل میں ٹھہرایا ہے جو حرم سے ڈیڑھ دو کلومیٹر دور ہے۔ ہم میاں بیوی اگلے ایک ہفتے تک درد کی گولیاں کھاتے اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے روزانہ یہ مارچ کرتے رہے۔
چلتے چلتے ہم مسفلہ اسٹریٹ پر پہنچے۔ سعودی عر ب میں اپنے قیام کے دوران میں اکثر اس طرف واقع ہوٹلوں میںآکر ٹھہرتا تھا۔ یہاں سے حرم جاتے ہوئے مسجد الحرام کا سب سے مکمل اور دلکش منظر نظر آتاہے۔اس وقت بھی دورسے باب عبدالعزیز کے دو بلند و بالا مینار اور ان کے عقب میں نظر آنے والے باب فتح کے دو اور قصر الصفا کی طرف کا ایک مینار نمایاں نظر آرہے تھے۔ سفید و سیاہ سنگ مرمر کی بنی ہوئی حرم پاک کی شاندار عمارت رات کی روشنیوں میں بقۂ نوربنی ہوئی تھی۔ اس منظر کا حسن اپنے اندر وہ کشش رکھتا ہے کہ انسان زندگی بھر اس کو فراموش نہ کرسکے۔ حرم کا ایسا منظرکہیں اور سے نظر نہیں آتا ۔

جاری ہے۔ تیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)